کیاحقیقت کیا زمانہ کیا جہالت کیا فسانہ

ہم تمام اپنے ملک کی سرزمن سے بخبوبی واقف ہیں، ہمارا ملک دیگر ممالکوں کی طرح نہں ہے۔ ہمارا ملک ایک چمن کی طرح ہے، جسے ہم چمنستان بھی کہ سکتے ہے، جس طرح باغ کی خوبصورتی اس کہ الگ الگ پھولوں سےآتی ہے، بلکل اسی طرح ہمارا ملک بھی ہے۔
ہمارے ملک میں ہندو، مسلم، سکھ، عسائی اور اس طرح کے نہ جانے کتنے مذاھب اس چمنستان میں اپنی سانسےلے رہے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کو تنوع میں اتحاد (Unity in Diversity)کاملک بھی کہا جاتاہے۔

 ہم تمام اپنے ملک کی سرزمن سے بخبوبی واقف ہیں، ہمارا ملک دیگر ممالکوں کی طرح نہں ہے۔ ہمارا ملک ایک چمن کی طرح ہے، جسے ہم چمنستان بھی کہ سکتے ہے، جس طرح باغ کی خوبصورتی اس کہ الگ الگ پھولوں سےآتی ہے، بلکل اسی طرح ہمارا ملک بھی ہے۔

ہمارے ملک میں ہندو، مسلم، سکھ، عسائی اور اس طرح کے نہ جانے کتنے مذاھب اس چمنستان میں اپنی سانسے لے رہے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کو تنوع میں اتحاد (Unity in Diversity) کا ملک بھی کہا جاتا
ہے۔

پر نہ جانے ہمارے ملک کوہوں کیا گيا ہے، صبح ہو‏‏ئی کی نہیں ایک نیا مودہ ہمارےسامنے نظر آتا ہے، تو کہی لوجھاد کی باریں میں باتیں چھڑکی جارہی ہے تو کہی گیان واپی مسجد پر باتں اٹھائی جارہی ہے تو کہی حجاب پر بات رکھی جارہی ہے ، تو کہی مذھب کو آپس ميں جھگڑ نے کے لے( دی کیرلا اسٹوری) نام کی فلم نکالی جارہی ہے ، یہ سب کی اب کیا ضرورت ہے؟؟

ہندوستان کہ مشہور ریاست کیرلا جو کہ ہندوستان کہ جنوب میں بحر عرب کے ساحل پر طویل رقبے میں آباد ہے، اس کے ایک جانب عرب ہے اور دوسری طرف کرناٹک اور تامل ناڈو ہے، ریاست کیرلا میں کالی کٹ اور ملا پرّم اور اس کے آس پاس کا علاقہ مالا بار کے نام سے شہرت یافتہ ہے ۔ اُن علاقوں کے باشندے ملیاباری کہلاتے ہیں تاریخی روایتوں سے بات ثابت ہوچکی ہے کہ کیرلا میں اسلام ابتداء عصری میں آیا۔

بحر عرب کے راستے کیرلا میں عربوں کی آمد عہدِ قدیم سے جاری تھی ۔ عرب کے مختلف ممالک سے صوفیاء کرام و علمائے دین تبلیغ اسلام کے لیے آتے جاتے رہے ۔ بعض صوفیاء کرام اپنے مادرِ وطن سے ہجرت کر کے کیرلا میں آ بسے ۔ اس طرح رفۃ رفتہ کیرلا اسلامی تعلیمات ، مذہبی افکار و خیالات اور اسلامی تہذیب و تمدن کا ایک مثالی نمونہ بن گیا۔

اور یہ سب ہمارے برادان وطن سے رہا نہ گيا اور(دی کیرلا اسٹوری ) نام کی فلم بنا ڈالی، جس طرح ظالم بادشاہ اپنےغلاموں پر ساری پہاڑ توڑ نےکےلے تیار ہوں جاتا ہے اور اپنی ساری حدیں پار کردیتا ہیں اسی طرح ہمارے ملک کی فرقہ پرست طاقتوں کو اقتدار کا چسکہ لگا ہے اور وہ حصولِ اقتدار کے لیے ہر طرح کی حدوں کو پار کرنے میں دن رات جٹی ہوئی ہیں۔ ظلم و زیادتی ماورائے عدالت قتل مسلمانوں کے خلاف ناپاک پروپیگنڈہ مہم‘ مآب لنچنگ‘ ہیٹ اسپیچ اور ہندو مسلم جذبات کو بھڑکانے والی فلمیں۔

یہ وہ حربے ہیں جنہیں برسراقتدار فرقہ پرست حکمران طاقتیں بڑی چابکدستی سے استعمال کررہی ہیں۔ حکمراں ٹولے کے پاس عوام سے ووٹ مانگنے کے لیے کوئی قابل ذکر کارنامہ نہیں ہے سوائے ہندو مسلم کرنے کے انہوں نے کچھ کیا ہی نہیں ایسے میں لامحالہ فرقہ وارانہ جذبات بھڑکاکر اکثریتی طبقہ کو متحد کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اور ہندوستان کہ نام پر پکی ہوئی روٹی کو سیکھنے کا کام کررہے ہیں۔

ان تمام حالتوں میں الیکٹرانک میڈیا کیوں پیچھے نظر آرہی ہیں۔ اس وقت مین اسٹریم میڈیا کہلانے والے سب چینلز حکومت کی چاٹوکار اور گودی میڈیا بن چکے ہیں۔ جمہوریت میں حکمران طبقہ کو سوالات کے کٹہھرے میں کھڑا کیا جاتا ہے لیکن فرقہ پرستوں کے ہاتھوں کھلونا بنا گودی میڈیا اپوزیشن ہی کو مورد الزام ٹھراتا ہے سارے چینلس فرقہ پرستی کو ہوا دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ حکومتی ناکامی سی متعلق بڑی سے بڑی خبر نظر انداز کردی جاتی ہے لیکن مسلم مخالف پروپیگنڈہ کے حوالہ سے چوٹی کو ہاتھی اور رائی کو پہاڑ بناکر پیش کیا جاتا ہے۔

دی کیرلا اسٹوری دنیا کی واحد فلم ہے جسے ملک کے (وزیر اعظم) نے دیکھنے کی اپیل کی۔ مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ یا یوپی کے سی ایم (یوگی) جو اکثر فلموں یا گانوں سے جذبات کو ٹھیس پہونچانے کی شکایت کرتے ہیں سبھوں نے کیرلا اور کشمیر فائلز آنے پر خوشی کا مظھارہ کیا، یہاں تک کہ کئی ریاستوں میں اس فلم کو ٹیکسوں سے لوگوں کو فراہم کیا گيا۔

اس فلم میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکائگی ہیں۔ اس فلم کی مرکزی کردار ادا شرما نامی فلمی اداکارہ ہیں جو ایک ہندو خاندان سے تعلق رکھنے والی (شالنی اننی) کرشنن کا کردار ادا کررہی ہیں جن کے بعد میں مسلمان بن کر فاطمہ بننے کا سفر دکھایا گیا ہے۔ فلم میں دکھایا گیا کہ ادا شرما جو شالنی اننی کرشنن ہے وہ ایک نرس بن کر لوگوں کی خدمت کرنا چاہتی تھی لیکن وہ ایک آئی ایس آئی کی دہشت گرد بن گئی ہے جو اس وقت افغانستان کی جیل میں بند ہے۔

فلم میں دعوی کیا گیا ہے کہ ریاست کیرالہ کی 32ہزار غیر مسلم لڑکیوں کا اغوا کرکے ان کا مذہب تبدیل کیا گیا،فلم میں دعوی کیا گیا ہے اتنی بڑی تعداد میں غیر مسلم لڑکیوں نے اسلام قبول کیا اور عسکریت پسند کا لعدم تنظیم دولتِ اسلامیہ میں شمولیت اختیار کی۔

فرقہ پرست جماعتیں اس قسم کی فلم کے ذریعہ ملک میں فرقہ وارانہ جذبات سلگاکر ایک بار پھر اکثریتی طبقہ کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کرکے تختِ اقتدار تک پہونچنا چاہتی ہیں۔ بغیر کسی ثبوت کے فلم سازوں کی جانب سے دعوی کیا گیا ہے کہ یہ فلم زندگی کے سچے واقعات پر مبنی ہے جن 32ہزار غیر مسلم لڑکیوں نے مذہب تبدیل کیا ہے وہ سب شام اور یمن کے صحراوں میں دفن ہوئیں۔

تمام فلم دیکھ کر کوئی بھی بات گلہ سے نیچے تک اترتی ہی نہیں یہ تمام باتیں صاف صاف جھوٹی ہیں، کیونکہ اسلام زور زبردستی کا نام نہیں ہے بلکہ اسلام توامن وسکون کا نام ہیں اسلام تلواروں سےنہیں بلکہ اخلاق سے پہیلتا ہیں اور ان شاء اللہ تاقیامت تک یہ قائم رہیگا،

قوم کہ حکمران کو چاھیں تھا کہ وہ ان بے روزگار کے بارے میں غورفکر کریں جن کہ گھروں میں صحیح سے ایک وقت کی روٹی نہں پکتی ، ان یتیم بچوں کہ بارےمیں جن کے سروں پر کوئی ہاتھ رکہنے والا نہیں ،انیں تو سوچنا تھا کہ ہمارا ملک چین اور بڑے بڑے (کنٹریوں) کوپیچھے چھوڑ کر کب آگیے بھڑئگا، پر نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ (وہ تو پکی ہوئی روٹی کو بس سیکھنےکا کام کرتے ہیں) انہیں تو کچھ بھی فکر نہیں کہ اب ہمارا ہندوستان کہا ہے، اور مسلمانوں کو یوں بدنام کرنےکےپیچھے ہاتھ دھوں کرلگے ہوئی ہیں،
بس ان ہی باتوں سےمیں اپنے قلم کو بندہ کرتا ہوں کہ اب ہم متحد نہ ہوگے تو کب ہوگے؟ ؟ ؟ اس ہندوستان کا نام کبھی چڑیا گھر بھی ہواکرتا تھا پر اب نہں اس ہندوستان کو آزاد کرانے میں صر ف ہندو نہیں بلکہ مسلمانوں نے بھی چڑبڑ کر حصہ لیا سب نے کندھیے سے کندھا میلاکر اس ملک کو ان گوروں سے آزاد کریا، ہم سب ایک ہے ہمیں مذھب کے رنگ میں نہ رنگوں۔۔

اللہ سے دعا ہے کے اللہ ہم تمام برادان وطن کی حفاظت فرمائں اور ایک ساتھ کام کرنے کی توفیق عطا فرماؤئں اورظلم وذیادتی سے بچنے کی توفیق عطافرمائں اور تمام حاسیدوں کی حسد سے ظالموں کہ ظلم سے ہماری حفاظت فرمائیں۔

MUHAMMED ABUSAIF
About the Author: MUHAMMED ABUSAIF Read More Articles by MUHAMMED ABUSAIF: 4 Articles with 1016 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.