مہاراشٹر کا فسانہ : بنگال پہ نگاہیں، بہار پہ نشانہ

مہاراشٹر میں اجیت پوار کی بغاوت کا صوبائی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے کہ ایکناتھ شندے کی قیادت ریاستی حکومت خاصی مستحکم تھی اور اس کے مدت کار کی تکمیل یقینی تھی ۔ پہلے تو الیکشن کمیشن نے ایکناتھ شندے کو شیوسینا کاسربارہ بتادیا اور اس کے بعد عدالتِ عظمیٰ اس پر اپنی مہر ثبت کرکے بی جے پی کے اسپیکر تما سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے اجیت پوار کے بغاوت کا مقصود کیا ہے؟ اس کا جواب پارلیمانی انتخاب کے بہی کھاتے میں چھپا ہوا ہے ۔مہاراشٹر میں ایوانِ پارلیمان کی جملہ 48 نشستیں ہیں ۔ ان میں سے ایک کانگریس اور ایم آئی ایم اور چار این سی پی کے پاس ہیں باقی ساری 42 پر این ڈی اے کا قبضہ ہے۔ ان میں 23 بی جے پی ، 18 شیوسینا اورایک آزاد حامی رکن پارلیمان ہے۔ شیوسینا اور بی جے پی کے درمیان صرف 4.34فیصد وووٹ کا فرق تھا۔ ادھو ٹھاکرے کے الگ ہوجانے کے بعد اور ان کے تئیں ہمدردی کی لہر کے چلتے ایکناتھ شندے کے لوگوں کا 18 میں سے 2 نشستوں پر کامیاب ہوجانا بھی مشکل ہےگویا این ڈی اے کے سر پر 18؍ ارکان اسمبلی کے نقصان کی تلوار لٹک رہی ہے۔

پچھلی بار جن 23.5 فیصد شیوسینک ووٹرس نے بی جے پی کو 23 نشستیں جیتنے میں مدد کی تھی اگر وہ این سی پی اور کانگریس کی حمایت میں چلے جائیں تو ان کی مجموعی تعداد55.57 ہوجاتی ہے اور اس قوت کے سامنے بی جے پی کے لیے اپنی 23 نشستیں بچانا ناممکن ہے۔ ایسے میں اگر وہ 7 نشستوں پر بھی کامیاب ہوجائے تویہ اس کی خوش قسمتی ہو گی ۔ اس طرح گویا این ڈی اے کو سیدھے سیدھے 35 نشستوں کا نقصان ہوسکتا ہے۔ مودی اور شاہ کے لیے یہ ناقا بل تلافی نقصان ہے۔ پچھلے ماہ مراٹھی اخبار سکال نے ایک سروے شائع کیا اس کے مطابق بی جے پی کو 33.8 فیصد ووٹ ملنے کا امکان ہے اور شندے کی شیوسینا 5.5فیصد ووٹ حاصل کرسکتی ہے۔ کانگریس کو 19.9 ، این سی پی کو 15.3 اور ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا کو12.5 فیصد ووٹ ملنے کا امکان ہے یعنی این ڈی کے حصے میں 39.3 فیصداور پی ڈی اے کی جھولی میں 47.7 فیصد ووٹ جانے کا اندازہ ہے۔ یہ 8فیصد کا فرق بی جے پی کا سپڑا صاف کرسکتاہے۔ بی جے پی کے وفادار کارکنان چونکہ یہ نہیں جانتے اس لیے وہ پوار کی آمد سے پریشان ہوکر اپنے رہنماوں سےپوچھ رہے ہیں ؎
ادھر ہم سے محفل میں نظریں لڑانا،ادھر غیر کو دیکھ کر مسکرانا
یہ بھینگی نظر کا نہ ہو شاخسانہ،’کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ‘​

شرد پوار نے اس بار ۱۱ ؍ ایسے حلقہ ہائے انتخاب کو منتخب کیا جہاں سے این سی پی کے امیدوار کانگریس اور شیوسینا کی مدد سے کامیاب ہوسکتے ہیں۔ انہوں وہاں کے کارکنان سے رابطہ کرکے امیدواروں کونامزد کرنا شروع کردیا تاکہ وہ لوگ ابھی سے اپنے علاقہ میں کام شروع کردیں ۔ اس بیچ پٹنہ کی میٹنگ کے بعد اگلی میٹنگ کے مقام کی تبدیلی کا اعلان شرد پوار کے ذریعہ کرواکر ان کی اہمیت کا اعتراف کیا گیا ۔ اس پیش رفت سے گھبرا کر مودی جی نے این سی پی پر نام لے کر بدعنوانی کے الزامات لگائے گئے اور پھر جن کے خلاف تفتیش جاری تھی ان بدعنوان لوگوں کو وزیر بنوا دیا ۔ یہ خوش فہمی ہے کہ مودی کا چہرا رائے دہندگان کا من موہ لیتا ہے لیکن اس جائزے کے مطابق جہاں 42.1 فیصد لوگوں نےاس چہرےکو دوبارہ دیکھنے کی خواہش کی تو 41.5فیصد نے اپنا منہ پھیر لیا۔ یہ فرق صرف 0.6 فیصد کا ہے اور مودی کی تیزی سے گرتی مقبولیت کے سبب آئندہ چند ماہ میں کیا ہوگا یہ کہنا مشکل ہے؟ اس کے علاوہ 16.4 نے فیصد اپنی لاعلمی کا اظہار یا کچھ بولنے سے احتراز کیا۔ اس کے معنیٰ ہیں کہ مودی کا لاکھ ڈھول پیٹنے کے باوجود وہ ان کے ساتھ نہیں آئے ۔ ان اعدادو شمار سے یہ صاف ہوجاتا ہے کہ اگلی باربی جے پی کا چہرے والا حربہ نہیں چلےگا۔

بہار کے سابق نائب وزیر اعلیٰ سشیل کمار مودی نے مہاراشٹر کی اتھل پتھل کو ایوان زیریں کے انتخاب سے جوڑ کر کہا کہ وہ اس کی پیش بندی ہے اور یہی سب بہار میں دوہرایا جائے گا۔ اس طرح گویا بلی تھیلے سے باہر آگئی۔ سشیل کمار مودی کی دلیل یہ ہے کہ جنتا دل (یو) کے اندر بے اطمینانی ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ نتیش کمار کی اتحادی کوششوں سے پورے ملک کی اپوزیشن میں اعتمادو حوصلہ پیدا ہوگیا مگر ان کی اپنی پارٹی غیر مطمئن ہوگئی۔ ایسا خواب تو کوئی اندھا بھگت مونگیری لال ہی دیکھ سکتا ہے۔ بھارتیہ جنتاپارٹی کے لیے بہار کی صورتحال مہاراشٹر سے زیادہ سنگین ہے۔ پچھلی بار بہار میں اپوزیشن کو دریا برد کرتے ہوئے این ڈی اے نے 40 میں سے 39 نشستیں جیت لی تھیں اور اسے 9 نشستوں کا فائدہ ہوا تھا نیز اس کو جملہ 53.25% ووٹ ملے تھے ۔ اس کے برعکس مہا گٹھ بندھن کو 30.76% ووٹ کے باوجود صرف1 نشست پر اکتفاء کرنا پڑا تھا۔ یہ نشست کانگریس کو ملی اور آر جے ڈی تو اپنا کھاتہ ہی نہیں کھول پائی یعنی ااسے 6 نشستوں کا نقصان ہوگیا ۔

ان نتائج کو گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی کو 23.58% ووٹ ملے اس کے 5.82 فیصد ووٹ گھٹے پھر بھی وہ 17 نشستوں پر کامیاب ہوگئی جو پہلے سے 5 کم تھیں ۔ اس کے برعکس جنتا دل (یو) نے21.81% ووٹ حاصل کرکے اپنے ووٹ بنک میں 6.01 فیصد کا اضافہ کیا اور 16 نشستیں جیت لیں ۔ یہ پہلے سے 14 زیادہ تھیں۔ امیت شاہ کو سیاست میں دھول چٹا کر نتیش کمار نے خود کو اصلی چانکیہ ثابت کردیا۔ نتیش نے بی جے پی کا ساتھ چھوڑا تو کوئی رکن پارلیمان ٹوٹ کر نہیں گیا ۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ پارٹی ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہوئی ہے۔ این ڈی اے سے الگ ہونے کے باوجود لوک جن شکتی پارٹی نے صرف 7.86% ووٹ حاصل کرکے اپنے ووٹ تناسب میں 1.46 فیصد کا اضافہ کیا اور 6نشستیں جیت گئی یعنی اس میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ آر جے ڈی کو گوکہ کوئی نشست نہیں ملی مگر اس کے پاس 15.36% ووٹ تھے ۔ اس میں 4.74 فیصد کی کمی آئی تھی اور اس کے سبب اسے 4 نشستوں سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ کانگریس اپنے 7.70% ووٹ میں 0.70 فیصد کا اضافہ کرکےایک نشست پر کامیاب ہوگئی تھی ۔

نتیش کمار نے پالا بدل کر بی جے پی کا نقصان کرنے کے لیے آر جے ڈی اور کانگریس کا دامن تھام لیا ہے۔ ان دونوں کے ووٹ کی مجموعی تعداد بی جے پی سے صرف نصف فیصد کم ہے۔ پی ڈی اے میں آنے کے بعد جے ڈی یو کا تو کوئی نقصان نہیں ہوگا مگر آر جے ڈی اور کانگریس کا فائدہ ضرور ہوگا اس لیے کہ نتیش کمار کے سبب بی جے پی مخالف ووٹ تقسیم ہورہا تھا ۔ یہ فائدہ در اصل بی جے پی کا نقصان ہے۔ اس کی 17سیٹوں میں نہ صرف کمی ہوگی بلکہ این ڈی اے سے 16 کا سیدھا سیدھا نقصان ہوجائے گا۔مغربی بنگال کا بھی یہی حال ہے۔2019 میں بی جے پی نے سب سے بڑا چمتکار گجرات اور یوپی میں نہیں بلکہ مغربی بنگال اور کرناٹک میں کیا تھا۔ہ اول ا لذکر دونوں ریاستوں میں تو اس کی کامیابی یقینی تھی لیکن کون جانتا تھا کہ جنوبی ہند کی ریاست کرناٹک کے اندر این ڈی اے کو 28 میں 26 پر فتح حاصل ہوجائے گی ۔ موجودہ صوبائی انتخاب میں اس کے ووٹ کا تناسب پارلیمانی انتخاب کے مقابلہ15 فیصد کم ہوا ہےاس لیے اب تو اس کا تصور ہی محال ہے۔

2019 کے اندرمغربی بنگال میں بی جے پی نے اپنے ووٹ میں22.25 فیصد کا اضافہ کرکے کل 40.64 فیصد ووٹ حاصل کرلیے اس طرح اس کے ارکان پارلیمان کی تعداد 2 سے بڑھ کر 18ہو گئی تھی۔ یہ بہت بڑا کرشمہ تھا ۔ اس کر مقابلے ترنمول کانگریس نے بھی 4.64 فیصد کا اضافہ کرکے جملہ 43.69فیصد ووٹ حاصل کیے اور 22 نشستوں پر کامیابی حاصل کی لیکن 2014 کی بہ نسبت اسے 12نشستیں گنوانی پڑی تھیں۔ کانگریس کو پہلے کےمقابلے 4.09 فیصد کے نقصان سے 5.67فیصد پر آنا پڑا اور اس کے دو امیدوار کامیاب ہوگئے جبکہ سی پی ایم 6.34 فیصد ووٹ حاصل کرکے بھی اپنا کھاتہ نہیں کھول سکی۔ اس انتخاب میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کو 16.72 فیصد کا نقصان ہوا تھا۔ مغربی بنگال میں اگر کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی نے ترنمول کے ساتھ الحاق کردیا تو بی جے پی پہلے کی طرح پھر سے ۲ پر آجائے گی کیونکہ تینوں کے مجموعی ووٹ کا تناسب 55.7 ہوجاتا ہے۔ بی جےپی اترپردیش میں اسی طرح چمتکار کرتی ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ مغربی بنگال ، بہار، کرناٹک اور مہاراشٹر میں متوقع نقصان نے بدعنوان جنتا پارٹی کو باولا کردیا ہے۔ اب وہ بدعنوانی کے الزامات کو بالائے طاق رکھ کر مہاراشٹر میں توڑ پھوڑ پر اتر آئی یہ عمل دیگر مقامات پر دوہرانا چاہتی ہے لیکن کمل والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس طرح کے خودکش سیاسی حملہ آور خود بھی دھماکے کی لپیٹ میں آسکتے ہیں۔ بی جے پی کا حشر بھی بھسما سور جیسا ہوسکتا ہے۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1224598 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.