مہاراشٹر کی مہا بھارت : بدعنوانی اور ہندوتوا کی ملی بھگت

مہاراشٹر کے اندر بی جے پی کی حالت ’رانڈ کے سانڈ ‘ جیسی ہے۔ پورے سیاسی ڈھانچے کو مسمار کرنے والے اس پر سانڈ پر انگریزی محاوہ ’بُل ان چائنا شاپ‘ پوری طرح صادق آتا ہے ۔ مرکزی حکومت کا یہ منہ زور شتر بے مہار جدھر چاہتا ہے منہ مارتا پھرتا ہے۔ مہاراشٹر کی بی جے پی نے ایک باہو بلی طالبعلم کی مانند بڑے جوش و خروش کے ساتھ سالانہ کھیل کود کے مقابلے میں حصہ لیا ۔ اس کے میدان میں اترتے ہی میڈیا کے زنخوں نے تالیوں اور سیٹیوں سے آسمان سر پر اٹھا کر ایسا ماحول بنادیا کہ گویا اس کی فتح یقینی ہے مگر وہ شکست کھا گیا ۔وہ سرپھرا انتخابی ہار کو ہضم نہیں کرسکا اور منہ اندھیرے فاتح ٹیم سے تمغہ چرانے کی کوشش کی مگرپھر ناکام ہوا۔ دوسری سعی میں میڈل جیت کر بھاگ گیا اوراب ٹرافی کو پٹخ کر توڑ دیا۔ ان حرکتوں کے باوجود وہ فاتح تو قرار نہیں پاتا کیونکہ یہ اقتدار چور دروازے سے حاصل کردہ ہے ۔

پچھلے صوبائی انتخاب سے قبل سابق وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نے کانگریس کے اپوزیشن لیڈروکھے پاٹل کو توڑا اور این سی پی کو تو بالکل کھوکھلا کردیا اس کے باوجود اکثریت حاصل کرنا تو دور پہلے سے کم نشستیں جیت سکے ۔ انہوں نے اپنی ناکامی کا نزلا ہندوتوا کے حامی شیوسینا پر اتارکر این سی پی کے اجیت پوار کو ساتھ لے کر حلف برداری کر والی ۔ آدی پوروش کی مانند فلاپ ہوگیا۔ اقتدار کے بغیر ڈھائی سال تک ’جل بن مچھلی‘ کی طرح تڑپنے کے بعد شیوسینا کے ارکان اسمبلی کو کروڈوں کا گاجر دکھاکر اور ای ڈی کے چابک سے ڈراکر اپنا ہمنوا بنایا لیکن شندے کی تاجپوشی کرکے ہائی کمان نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ دہلی کے آقاوں نے سوچا کہ شیوسینا رہنما کو نائب وزیر اعلیٰ بنانے سے عام شیوسینک توہین محسوس کرکے ادھو ٹھاکرے کے ساتھ چلا جائے گا۔ اس طرح دیویندر فڈنویس کے’دل کے ارماں آنسووں میں بہہ گئے‘ اور نائب وزیر اعلیٰ بن کر رہ گئے۔

ایک سال قبل اسی ماہ دیویندر فڈنویس کو پارلیمانی انتخاب میں کامیابی کے لیے بلی کا بکرا بنایا گیا ۔ وقت کے ساتھ انہوں نے اپنی شبیہ نائب وزیر اعلیٰ کے بجائے سُپر وزیر اعلیٰ کی بنالی۔اس گھر سنسار میں بیوی مالکن اورداماد جورو کا غلام بن چکا تھا کہ اچانک دہلی میں بیٹھے میکے والوں نے فڈنویس کی ایک شراکت دار یعنی سوتن کا انتخاب کرکے اس کا بھی گھر پرویش (داخلہ) کروالیا۔ اب ایک سیاسی چھت کے نیچے ایک گھر والی کے ساتھ دوسری باہر والی کو بلا کر بسا دیا گیا۔ دیویندر فڈنویس کے لیے ایکناتھ شندے کو قابو میں کرنا کسی حد تک آسان تھا کیونکہ وہ تو نائب وزیر اعلیٰ کے عہدے کو بھی اپنے لیے سعادت سمجھتے تھے۔ انہیں توقع سے زیادہ مل گیا تھا اس لیے وہ ہنستے ہوئے ہررسوائی برداشت کرلیتے تھے لیکن اجیت پوار کا معاملہ مختلف ہے۔ وہ پانچ مرتبہ نائب وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوچکے ہیں۔ اب وہ تو وزیر اعلیٰ بننے کے آرزو مند ہیں۔ اس لیے دیویندر فڈنویس کی راہ میں ایک اور روڈا کھڑا ہو گیا ہے ۔ دیویندر فڈنویس پہلے کسی طرح ایکناتھ شندے کو ٹھکانے لگا کر وزیر اعلیٰ بننے کا کواب دیکھتے تھے لیکن اب اجیت پوار کو کنارے کرنا ان کے لیےبڑا چیلنج ہے۔
پچھلے دنوں وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کو تو اپنی مقبولیت کا ڈنکا پیٹنے کے لیے ایک جعلی سروے کروانا پڑا۔ اس کے بعد اشتہار دیا تو فڈنویس بھڑج گئے اور چیلوں کو شندے کے پیچھے لگا دیا ۔ مرکز نے بھی انہیں لکشمن ریکھا کے اندر رہنے کی تلقین کرڈالی ۔ ایکناتھ شندے کوجب اپنی اوقات کا پتہ چلا تو انہوں نے دوسرا اشتہار دے کر کفارہ اداکیا۔ جہاں تک اجیت پوار کا سوال ہے وہ بے شک فڈنویس سے بہت زیادہ مقبول ہیں ۔ ان کے ساتھ ایسی بدسلوکی کا تصور بھی محال ہے ۔ وہ اپنی بدزبانی کے لیے پہلے ہی بدنام ہیں ۔ اپنے سیاسی گرو(مرشد) اور چچا کے پیٹھ میں چھرا گھونپنے والے اجیت پوار پر نکیل ڈالنا بی جے پی کے بس کاروگ تو نہیں ہے۔اجیت پوار جیسے اونٹ کے خیمہ کے اندر داخل ہوجانے سے بعید نہیں اندر والے اہل خانہ ایک ایک کرکے باہر جانے پر مجبورجائیں ۔ ویسے مودی اور شاہ کو مہاراشٹر کی بی جے پی سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ انہیں تو ادھو ٹھاکرے کی دوری سے متوقع نقصان کاغم ستا رہاہے ۔ یہ بات اب اظہر من الشمس ہوچکی ہے کہ ایکناتھ شندے تو اس خسارے کی بھرپائی نہیں کرسکتے ۔

مہاراشٹر کی صوبائی حکومت کے رتھ کو پہلے دو گھوڑے کھینچتے تھے لیکن بدقسمتی سے وہ مخالف سمتوں میں زور لگاتے تھے ۔ اب چونکہ مرکزی حکومت نے اس میں تیسرے منہ زور گھوڑے کا اضافہ کیا ہے اس لیے چار سمتوں میں کھینچا تانی ہوگی ۔ ایک طرف شندے کھینچیں گے ، دوسری جانب فڈنویس ، تیسری سمت میں پوار اور چوتھی طرف امیت شاہ زور لگائیں گے ۔ ایسےمیں رتھ اور اس کے اندر موجود سواریوں کا کیا حشر ہوگا اس اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ یعنی عوام کی فلاح و بہبود کا تو بیڑہ ہی غرق ہوجائے گا ۔ بی جے پی نے جو کچھ مہاراشٹر میں کیا وہ کھیل نیا نہیں ہے۔ اس سے قبل چھوٹے صوبوں کے علاوہ وہ کرناٹک اور مدھیہ پردیش میں یہ کام کرچکی ہے۔ کرناٹک میں اس نے کانگریس اور جنتا دل (ایس) کے ارکان اسمبلی کو توڑ کر سرکار بنائی ۔ باہر سے لاکر بسوراج بومئی کو وزیر اعلیٰ بھی بنادیا اس کے باوجود انتخاب ہار گئی۔

مدھیہ پردیش میں یہی ہونے جارہا ہے ۔ وہاں پر جیوتردیتیہ سندھیا کو کانگریس سے۲۲ ہمنواوں سمیت توڑ کر لایا گیا مگر اب وہی مہاراج اور ان کے ساتھی بی جے پی کے لیے مصیبت بنے ہوئے ہیں۔ بی جے پی نےسندھیا مرکز میں تو وزیر بنادیا گیا مگر مقامی رہنماوں نے ان کو حواریوں سمیت قبول ہی نہیں کیا ۔ اس کی وجہ یہ ہے ان سابق کانگریسیوں کو ٹکٹ دینے سے بی جے پی کے پرانے کارکنان کے پیٹ پر لات پڑتی ہےاور اگر انہیں محروم کردیا جائے تو وہ لوٹ کر جاسکتے ہیں۔ یہ سلسلہ ابھی سے شروع ہوگیا ہے۔ مقامی زعفرانی رہنما جیوتردیتیہ کو بھگانے کے لیے انہیں رسوا کرنےلگے ہیں۔ کوئی انہیں نامرد اور کوئی بھکاری کہہ رہا ہے۔ گوالیار کے علاقہ میں کانگریس کی پکڑ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگئی ہے ۔ نصف صدی کے بعد وہاں کی بلدیہ میں کانگریس کا میئر منتخب ہواہے۔ یہ کارنامہ جیوتر دیتیہ اور ان کے والد بھی نہیں کرپائے تھے ۔ معلوم ہوا باہری لوگوں سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔

مہاراشٹرکے اندر بی جے پی قدرے محتاط ہے۔ وہ حریف پارٹی توڑنےکے بعد اپنی پارٹی میں شامل نہیں کرتی لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انتخاب کے وقت دوسروں کے لیے ان نشستوں کونہیں چھوڑا گیا تو وہ پھر سے بغاوت کرکے بی جے پی کے خلاف کھڑے ہوجائیں گے اور سارے کیے کرائے پر پانی پھر جائے گا۔ شیوسینا کا معاملہ تو یہ ہے کہ اس سے صوبائی انتخاب میں الحاق تھا اس لیے اپنے آدمی کا ٹکٹ کاٹنا نہیں پڑے گا مگر پارلیمانی الیکشن میں نہیں تھا۔ اس لیے اگر اپنے ہارنے والے امیدوار کا ٹکٹ کاٹ کر سینا کو دیا گیا تو بددلی پھیلے گی۔ این سی پی کا بی جے پی کے ساتھ الحاق کبھی نہیں تھا۔ اس لیے اگر اجیت پوار کے ساتھ آنے والوں کو ٹکٹ نہیں دیا گیا تو وہ ناراض ہوجائیں گے اوردے دیا گیا تو اپنی پارٹی کے لوگ بگڑ جائیں گے۔ بی جے پی کے لیے یہ بہت بڑا دھرم سنکٹ ہو گا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے حزب اختلاف کے اتحاد کی حوصلہ شکنی اور بدنامی کی خاطر این سی پی کو توڑ کر پیغام دیا کہ وہ اگر متحد ہو جائیں گے توانہیں اندر سے منتشر کردیاجائےگا۔

ملک میں ایک طرف اتحا دو اتفاق کی جانب گامزن سیاسی اتحاد ہے اور اس کے خلاف انتشار و افتراق کو فروغ دینے والی قوتیں کارفرما ہیں۔ عوام کو ان دونوں کے درمیان ایک کا انتخاب کرکے یہ بتانا ہے کہ وہ استحکام چاہتے ہیں یا دولت کے لالچ اور ای ڈی کے خوف سے کی جانے والی ٹوٹ پھوٹ کے حامی ہیں ۔ شیوسینا کو توڑتے وقت یہ جواز پیش کیا گیا تھا کہ ادھو ٹھاکرے نے ہندوتوا سے غداری کی ہے اس لیے انہیں سزا دی گئی لیکن سوال یہ ہے کہ این سی پی کو کیوں توڑا گیا ۔ ابھی ایک ہفتہ قبل مودی جی نے این سی پی کا نام لے کر کہا تھا کہ اس سترّ ہزار کروڈ کی بدعنوانی کی ہے۔ جن لوگوں پر یہ الزام تھا اب انہیں اپنی پارٹی میں شامل کرکے کارروائی کے وعدے کی دھجیاں اڑا دیں ۔ اس موضوع پر بحث جاری ہے کہ ایکناتھ شندے اور اجیت پوار اپنی جماعت کا کتنا نقصان یا بی جے پی کو کس قدر فائدہ پہنچا سکیں گے؟ اسے ایک مثال سے سمجھیں ۔ بفرض محال وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ میں اختلافات پیدا ہوجائیں اور دونوں ایک دوسرے کے خلاف انتخاب لڑین تو پارٹی کے نشان اور اقتدار کے باوجود کیا شاہ جی کومودی کے مقابلے کوئی کامیابی ملل پائے گی ؟ یہی معاملہ شرد پوار اور ادھو ٹھاکرے کا ہے۔ وہ خود پارٹی کے نام اورنشان ہیں۔ بی جے پی کی ان حرکتوں سے ان کے تئیں جو عوامی ہمدردی پیدا ہورہی ہے وہ اس کو مہنگی پڑ سکتی ہے۔جہاں تک مشکل کی گھڑی میں شردپوار اور ادھو ٹھاکرے کا ساتھ چھوڑ کر جانے والے ابن الوقتوں کا سوال ہےاسے استاد ناسخ کے اس شعر سے سمجھا جاسکتا ہے؎
سیہ بختی میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے
کہ تاریکی میں سایہ بھی جدا رہتا ہے انساں سے


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1224710 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.