الیکٹڈ یا سلیکٹڈ

یہ شاید 1973 کی بات ہے ۔اسلام آباد یونیورسٹی ،جو اب قائد اعظم یونیورسٹی ہے، کا یونین آفس تھا اور ہم دو عہدیدار وہاں بیٹھے گپ شپ میں مصروف تھے ۔ اتنے میں ہسٹری ڈیپارٹمنٹ کی کچھ بچیاں ایک درخواست لے کر آئیں کہ ہسٹری سوسائٹی وجود میں آ چکی ہے اور اس کے لئے مخصوص فنڈ جاری کئے جائیں۔ درخواست کا پہلا فقرہ انگریزی میں کچھ یوں لکھا تھا ۔ "History Society has been elected"۔ میرے ساتھی نے اس پر نظر ڈالی اور کہا کہ کونسا الیکشن۔ کل آٹھ دس طالب علم ہیں۔ الیکشن کیا ہو گا بس آپس میں عہدے بانٹ لئے ہونگے۔ اس لئے الیکٹڈ کی بجائے سلیکٹڈ ہونا چائیے، یہ کہہ کر اس کی الیکٹڈ کاٹ کر سلیکٹڈ کر دیا۔میں نے غصے میں کہا کہ ہوا جو بھی ہو اور جس طرح بھی ہوا ہومگر یہ ایک الیکشن تھا، اور سارے عہدیدار الیکٹڈ ہیں، چاہے باہمی رضامندی سے ہوئے ہوں۔ میں نے اسے کاٹ کر الیکٹڈ کر دیا۔میرے ساتھی نے جو غصے میں بڑی یکتا چیز ہے ۔ کاغذ مجھ سے چھین کر پھر سلیکٹڈ لکھ دیا۔ یوں چند منٹ میں کاغذ پر الیکٹڈ اور سلیکٹڈ کی اوپر نیچے لائن لگ گئی۔ کاغذ کی حد ختم ہوئی تو ہمارا جھگڑا شروع ہو گیا۔درخواست لے کر آنے والی بچیاں صورت حال کو خراب دیکھ کر وہاں سے غائب ہو گئیں۔

مجھے یہ بات یوں یاد آئی کہ کراچی میں بلدیاتی عہدیدار سامنے آ گئے ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے الیکشن جیتا ہے اور ان کے نامزد امیدوار الیکٹ ہو گئے ہیں۔ جماعت کا دعویٰ ہے کہ یہ مینڈیٹ ان کا تھا جس پر دن دھاڑے ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ ان کے تینتیس (33) بندے اغوا کر لئے گئے ہیں۔ اس مار دھاڑ اور غنڈہ گردی کے بعد الیکشن کیسا، حکومت نے اپنے بندے نامزد کر کے انہیں زبردستی سلیکٹ کرلیا ہے ۔ چنانچہ آج بلدیہ کراچی بھی پیپلذ پارٹی کی ا لیکٹ اورجماعت اسلامی کی سلیکٹ کی زد میں ہے۔ویسے بھی جس ملک میں آئین نہ ہو، جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول کار فرما ہو، وہاں الیکٹ کوئی نہیں ہوتا سارے سلیکٹ ہوتے ہیں اور ہوتے رہے ہیں۔بس اس سلیکشن کو الیکشن کا نام دے کر عوام کو مطمن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ اب بھی ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا ، جب تک ہم اپنی آواز میں جرات پیدا نہیں کریں گے ، ہر غلط معاملے کو ،چاہے اس کا تعلق آپ سے براہ راست نہ بھی ہو،غلط کہنا نہیں سیکھیں گے اور صرف اپنے نہیں ہر ایک کے غم میں برابر شریک ہونا نہیں سیکھیں گے،اجتماعی آواز اٹھانا نہیں جانیں گے،ایسی ابتلاؤں کا سامنا ہوتا ہی رہے گا۔یہ سب مسائل ہماری خاموشی جنم دیتی ہے۔ ہماری بے حسی فروغ دیتی ہے۔

ٹی وی پر ایک ماہر معاشیات کہہ رہے تھے۔کہ محلے کی دکان خسارے میں جا رہی تھی۔ اسے چلانے کے لئے قرضے کی شدید ضرورت تھی۔ ان حالات میں ایک بدمعاش نے قرضہ دینے کی حامی بھر لی۔ جب وہ دکان دیکھنے آیا تو وہاں موجود ایک سیل مین تھا اور ایک گارڈ۔دونوں کا دعویٰ تھا کہ وہی دکان کے مالک ہیں جو بات بھی کرنی ہے ان سے ہی کی جائے۔بدمعاش نے جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ دکان کے اصل مالک کو تو پیچھے باندھ کر رکھا ہوا ہے اور یہ دونوں جھوٹے دعویدار ہیں۔ وہ بدمعاش قرض نہیں دیتا۔ کہتا ہے کہ اصل مالک کو سامنے لایا جائے۔وہ نہ تو سیل مین اور نہ ہی گارڈ پر اعتبار کرتا ہے۔اسے پتہ چل جاتا ہے کہ اصل مالک کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے اس لئے وہ انکی کسی بات کو ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ دکان کی صورت حال روز بروز بگڑتی جا رہی ہے۔ مگر سیل مین اور گارڈ اپنی بات پر مصر ہیں ۔ ایسے حالات میں بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔لیکن ایک بات طے ہے کہ جب تک سیل مین اور گارڈ اپنی ضد نہیں چھورٹے،اپنی اپنی حیثیت کے مطابق خود کو اپنے مقام پر نہیں رکھتے ، بدمعاش بھی انہیں قرض دیتا نظر نہیں آتا۔

اس ملک کو وجود میں آئے پچھتر (75) سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا۔ ان سالوں میں ہم نے سب سے زیادہ نفرت بوئی ہے۔اسے ہوا دی ہے، اسے پروان چڑھایا ہے۔ ہمیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ دنیا میں کسی کو زیر کرنے کا سب سے پہترین ہتھیار محبت ہے لیکن ہم نے محبت سیکھی ہی نہیں۔ ہم شمشیر کی زبان جانتے اور وہی زبان بولتے ہیں۔ جب کہ بہترین یہ ہے کہ ہم نفرت کا جواب بھی محبت ہی سے دیں۔9مئی کا واقعہ افسوسناک ہی نہیں ، انتہائی المناک ہے ۔ ہم نے اس واقعے سے کیا سیکھا ہے۔کیا ہم نے سوچا ہے کہ جو اتنے لوگ وہاں پہنچے ، ان کے جذبات کب اور کس وقت سے پروان چڑھ رہے تھے۔ کوئی یہ کہے کہ کسی نے انہیں بھڑکایاہے، میں نہیں مانتا۔ایسی نفرتیں برسوں پرورش پاتی ہیں ، ورنہ ایک احترام کا حامل ادارہ اور لوگ اس طرح کی حرکت کریں، یہ بات عقل قبول نہیں کرتی۔اداروں کے سوچ رکھنے والے لوگوں کو اس بات پر غور کرنا اور نفرت کے ان شعلوں کو محبت کے پانی سے خاکستر کرنا ہو گا جس کے لئے ان کے رویے میں بہتری ضروری ہے۔اﷲنہ کرے کہ ایسا ہو کہ بلوچستان اور سرحد کے کچھ علاقوں جیسے حالات پنجاب میں بھی ہو جائیں۔پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے ہمیں ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہو گا۔نفرتوں کو بھول کر پیار کا پیام دینا ہوگا۔

ایک اچھی بات یہ ہے کہ لاہور کے کور کمانڈر ہاؤس کو اب جناح ہاؤس کا نام دے دیا گیا ہے ،امید ہے کہ وہ اب صحیح معنوں میں جناح ہاؤس بن جائے گا۔ اس سے پہلے بھی اگر کبھی آپ رک کر دیکھیں تو آپ کو اس کے درودیوار پر کچھ ایسی تصویریں نظر آتی تھیں کہ جن سے اس بلڈنگ کی قائد اعظم سے وابستگی نظر آتی تھی، مگر یہ کم لوگوں کو معلوم تھا کہ قائداعطم نے یہ جگہ کبھی خریدی تھی مگر اس کا قبضہ وہ عمر بھر نہ حاصل کر سکے، وہ ہمیشہ کور کمانڈر ہاؤ س ہی رہا۔ اب جب حکومت اسے جناح ہاؤس مان رہی ہے تو اسے بحال کرکے کسی صورت میں عوام کے لئے کھول دیا جائے تو بہتر ہے۔9 مئی کے واقعات میں جلاؤ ، گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کے ذمہ داروں کو جہاں حکومت سزاوار قرار دے رہی ہے وہاں ضروری ہے کہ اس دن نظم ونسق کو برقرار رکھنے والے اداروں کے سربراہوں کو بھی اس عمل کو روکنے میں سستی برتنے پر ذمہ دار قرار دے کر سخت سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی تخریب کار اپنے ٹارگٹ پر پہنچ ہی نہ سکے اور ذمہ دار لوگ ذمہ داری سے اپنا فرض نبھائیں۔ویسے یہ بات بھی ان سے پوچھنا ضروری ہے کہ ایک بڑا ہجوم کوئی دس کلومیٹر فاصلہ طے کرتا ہے، پولیس کو خبر ہی نہیں ہوتی یا پولیس جان بوجھ کر انہیں وہاں بھیجنا اور دیکھنا چاہتی تھی۔ اگر اس سوال کا جواب مل جائے تو بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 443730 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More