شہرہ آفاق کالم نگار ، ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف محمد اسلم لودھی - (19ویں قسط )

ملک کی اہم علمی، ادبی ، معاشرتی شخصیات اور پاک فوج کے شہیدوں پر لکھناآپ کا محبوب مشغلہ رہا
غریب گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود آپ نے غربت کو اپنے راستے کی دیوار نہیں بننے دیا
آپ دو سال روزنامہ جرات،چھ ماہ روزنامہ دن ، تین سال روزنامہ پاکستان ، دو سال پشاور کے ارود اخبار آج اور چودہ سال نوائے وقت میں ہفتہ وار کالم لکھتے رہے
آپ کا دو مرتبہ تمغہ حسن کارکردگی کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے نام تجویز کیا گیا لیکن ایوارڈ نہ مل سکا
آپ کو 2007ء میں اردو کالم نگاری کا پہلا ٹیٹرا پیک ایوارڈ (پچاس ہزار کا چیک)حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے
آپ کی گیارہ کتابیں صوبہ پنجاب ، گیارہ خیبرپختونخوا اور گیارہ کتابیں آزاد جموں و کشمیر کے تعلیمی اداروں کی لائبریریوں اور بپلک لائبریریوں کے لیے منظور ہو ئیں
انٹرویو ۔ شہزاد چودھری

سوال ۔ لودھی صاحب یہ بتائیں آپ اپنے والدین کے ہمراہ جس کوارٹر میں رہائش پذیر تھے وہ کتنا بڑا تھا اور اس میں زندگی کی بنیادی سہولتیں میسر تھی یا نہیں ؟
اسلم لودھی ۔شہزاد صاحب میرے والد محمد دلشاد خاں لودھی جب لاہور چھاؤنی ٹرانسفر ہوکر آئے تو انہیں شنٹنگ پورٹر کی ڈیوٹی دی گئی ۔ شنٹنگ پورٹر کا کام انتہائی خطرناک تھا ۔ ایک ریلوے انجن لاہور چھاؤنی ہی میں تعینات رہتا تھا جس کا کام لکڑیوں ، کوئلوں اور دیگر سامان کے مال گاڑی کے ڈبوں کو ریل گاڑی سے الگ کرنا اور انہیں ان جگہوں پر پہنچنا ہوتا تھا جہاں جہاں اس سامان ، لکڑیوں اور کوئلے کے اتارنے کا پہلے سے اہتمام ہوتا ۔ شنٹنگ پورٹر کا کام ریلوے کیرج ڈبوں کو الگ کرنا اور ایک دوسرے سے جوڑنا تھا ۔ یہ کام اتنا خطرناک تھا کہ معمولی سستی سے انسانی جسم کے کئی ٹکڑے ہو جایا کرتے تھے ۔ ایک دن جب میں سکول سے واپس لاہور چھاؤنی کے پلیٹ فارم پر آرہا تھا تو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ میرے والد ریل کے ایک ڈبے کا کپلین (جس کا وزن کم از کم چالیس سے پچاس کلو ہو گا) اٹھاکر لائن کے درمیان کھڑے تھے ، جبکہ دور سے ریلوے انجن اسی لائن پر تیزی سے آرہا تھا جیسے ہی انجن اس کھڑے ہوئے ڈبے سے ٹکرایا تو میں ڈر کے مارے اپنی آنکھیں بند کرلیں ۔ اس لیے کہ اس لمحے میرے والد لائن کے درمیان میں کپلین اٹھائے کھڑے تھے ۔جب وہ کپلین انجن کے ہک میں لگ گیا تو انجن ان ڈبوں کو لے کر چل پڑا ۔اس دن کے بعد میں نے کبھی اپنے والد کا دل نہیں دکھایا مجھے اس بات کا علم ہو چکا تھا کہ میرے والد ہم سب کا پیٹ بھرنے کے لیے کس قدر خطرناک ڈیوٹی انجام دیتے ہیں ۔شاید یہ میری دعاؤں کا نتیجہ تھا کہ کچھ ہی عرصے بعد والد صاحب کو کیبن مین کی حیثیت کیبن پر تعینات کردیاگیا ۔جہاں انہیں بھاری بھرکم لیور تو آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی میں کھینچنے پڑتے تھے لیکن یہ مجھے اطمینان تھا کہ میرے والد اب محفوظ جگہ پر ہیں ۔
یہا ں یہ بتاتا چلوں کہ انگریزوں نے کلاس فور کے ملازمین کی رہائش کے لیے جو کوارٹر بنائے تھے ، وہ بہت چھوٹے تھے ، ہمیں رہنے کے لیے جو کوارٹر ملا تھا اس میں ایک چھوٹا سا کمرہ ، اس سے آگے چھوٹا سا برآمد ہ اور چھوٹا صحن تھا ،یہ تینوں اتنے چھوٹے تھے کہ ان میں ہمارا پورا خاندان( جس میں والدین کے علاوہ پانچ بھائی تھے) سما نہیں سکتا تھا۔ اس لیے برآمدے اور صحن پر ہم نے تارکول کے ڈرموں کو کاٹ کر ایسی چھت ڈالی ہوئی تھی جو ہمیں گرمیوں کی دھوپ سے تو بچا لیتی لیکن جب بارش ہوتی تو گھر کے سارے برتن ان جگہوں پر رکھنے پڑتے جہاں جہاں سے بارش کا پانی ٹپکتا تھا ۔اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ بارش کے موسم میں ہمارا سارا خاندان چھت سے بارش کے گرنے والے قطروں کو ہی کنٹرول کرنے میں مصروف رہتا ۔ گھر کے برتن ختم ہو جاتے لیکن چھت سے ٹپکنے والا پانی ختم نہ ہوتا۔
لاہور چھاؤنی کا وہ ریلوے کوارٹر جس کا نمبر 30/C تھا۔ اس کے چھوٹے سے برآمدے میں کسی بزرگ کا بسیرا تھا ۔اس لیے والدہ نے اس جگہ ٹھنڈے پانی کا گھڑا رکھا ہوتا۔ اس کے سامنے لکڑی کی ایک الماری تھی جسے ہم لوگ ڈولی کہہ کرپکارتے تھے ۔ اس جگہ پر جب پر چارپائی بچھانے کی کوشش کی تو چارپائی کا نقصان اٹھانا پڑا ۔مجھے یاد ہے کہ ایک رات جب آسمان کو کالے بادلوں نے گھیر رکھا تھا ،اور اس بات کا خدشہ موجود تھا کہ کسی بھی وقت طوفانی بارش شروع ہو سکتی ہے ۔ چونکہ والد صاحب نے رات کے بارہ بجے ڈیوٹی پر جانا تھا ،اس لیے اور کوئی جگہ تو خالی نہ تھی، اس لیے والد صاحب باامر مجبوری اپنی چار پائی برآمدے میں اس جگہ بچھا لی جس کے بارے یہ بات مشہور تھی کہ یہاں کسی بزرگ کا قیام ہے ۔جب گھر کے سبھی افراد گہری نیند سو رہے تھے تو یکدم لکڑی کے ٹوٹنے کی آوازنے پورے گھر کو جگا دیا ۔جب آنکھ کھول کر دیکھا تو والد صاحب کی چارپائی ٹوٹ کر زمین بوس ہو چکی تھی۔اس چار پائی کے دونوں بازوں ٹوٹ چکے تھے اور والد صاحب سونے کی حالت ہی میں زمین پر پہنچ چکے تھے ۔جب والد صاحب اٹھے تو انہوں نے میری والدہ کو سختی
سے کہہ دیا کہ گھر کے افراد بیشک تین تین اکٹھے ہو کر سوجائیں لیکن یہاں کوئی چارپائی نہ بچھائی جائے ۔ہم نے والد صاحب سے پوچھا۔ ابا جی جب آپ سو رہے تھے تو آپ کو کیا محسوس ہوا ۔ انہوں نے بتایا کہ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی بھاری بھرکم انسان نے اپنے دونوں پاؤں چارپائی کے بازوں پر رکھے اور زور لگاکر چارپائی کو توڑ دیا یا ۔
...............
مجھے یادہے کہ جب ہمارا خاندان 1964ء ،کے وسط میں واں رادھا رام ( حبیب آباد) سے لاہور چھاؤنی منتقل ہوا تو ریلوے کوارٹروں کے کئی لڑکے مین مارکیٹ گلبرگ ٹو میں گورنمنٹ ماڈل سکول میں پڑھتے تھے ، انہوں نے میرے والدین کو کہا کہ اسلم کو بھی ہمارے سکول داخل کروا دیں تاکہ ہم اکٹھے سکول جایا اور واپس بھی آیا کریں ۔یہ وہ زمانہ تھا جب گلبرگ ابھی پوری طرح آباد نہیں ہوا تھا۔ کہیں ایک آدھ کوٹھی بنی ہوئی دکھائی دیتی تو چار کوٹھیوں کی جگہ خالی نظر آتی ۔جہاں آجکل شیرپاؤ پل ہے، وہاں پہلے فلائی اوور نہیں تھا۔ یہ پل 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے بنوایا تھا جب یہ پل بن گیا تو بھٹو نے یہاں جلسہ عام کرکے اس پل کو حیات محمد شیرپاؤ کے نام سے منسوب کیا تھا جس کا تعلق توصوبہ سرحد سے تھا لیکن وہ پیپلز پارٹی کے اہم ترین رہنماؤں میں شمار ہوتا تھا ،کسی نے اسے قتل کردیا تو بھٹو نے اس کی یاد کو تازہ رکھنے کے لیے لاہور میں پل بنواکر اس کے نام سے منسوب کردیا تھا ۔حالانکہ پشاور سے پہلے بھی ایک ریلوے اسٹیشن بھی حیات محمد خان شیر پاؤ کے نام سے منسوب ہے ۔
رحمت ڈوگر کے ہوٹل کے بالکل سامنے اور اصغر بھائی کے جنرل سٹور کے بالکل قریب ایک ڈبل ڈیکر بس ( دو منزلہ بس) کھڑی ہوا کرتی تھی جو گلبرگ کی چھوٹی مارکیٹ ، بڑی مارکیٹ سے ہوئی نہر عبور کرکے پاگل خانے کے پاس سے گزر کر ریلوے اسٹیشن لاہورتک جاتی تھی۔ بس کے اس روٹ کا نمبر چار تھا ۔ کئی لوگ مذاق سے کہا کرتے تھے اگر تم نے مجھے تنگ کیا تو میں تمہیں چار نمبر بس بٹھا دوں گا اور تم بیٹھے بیٹھائے پاگل خانے پہنچ جاؤ گے ۔
چونکہ صبح ہمیں سکول جانے کی جلدی ہوتی، اس لیے مجبورا چار نمبر ڈبل ڈیکر بس کا سہارا لیتے ۔ جب پی ڈبلیو ڈی کی دیوار کے ساتھ ساتھ بس چلتی ہوئی بس ون کیو کے پہلے سٹا پ پر رکتی ۔جہاں آجکل مسلم کمرشل بنک ہے اور مغرب کی جانب یو فون کا بڑا فرنچائز ہے ۔اس سٹاپ کو ون کیو کہا جاتاتھا ۔ چھوٹی مارکیٹ سے آگے جاکر جب بس مین مارکیٹ کی جانب اپنا رخ تبدیل کرتی تو بائیں جانب ہمیں بہت بڑی پتھر والی کوٹھی دکھائی دیتی ۔ یہ واحد کوٹھی تھی جس کے باہر خوبصورت پتھر لگے ہوئے تھے ۔ یہاں سے بس مین مارکیٹ کے گول دائرے میں داخل ہوتی تو ہم یہاں اتر کر پیدل ہی چلتے ہوئے اپنے سکول پہنچ جاتے ۔اس وقت یکطرفہ کا کرایہ پندرہ پیسے ہوا کرتا تھا۔ میرا چونکہ تعلق انتہائی غریب گھرانے سے تھا، اس لیے گھر سے صرف پندرہ پیسے ہی ملتے تھے ۔ جو بس والوں کو دے کر ہم وقت پر سکول پہنچتے تھے ۔جب آدھی چھٹی کو دوسرے لڑکے کھا پی رہے ہوتے تو میں ایک طرف بیٹھ کر ان کا ہلتا ہوا منہ دیکھا کرتا تھا ۔ جب پوری چھٹی ہوتی تو ہم بس پر سوار ہونے کی بجائے پیدل ہی چلتے ہوئے پہلے مین مارکیٹ پہنچتے ، پھر وہاں سے اوریگا سنیما کے قریب سے گزر کر ہوم اکنامکس کالج کے سامنے پہنچتے ۔ یہاں مین سڑک پر پیدل ہی چلتے ہوئے درختوں پر لگے ہوئے آم او رجامن کھاتے ہوئے اپنے اپنے گھروں لوٹ جاتے ۔ایک دن میں ابھی سکول سے واپس نہیں آیا تھا کہ گھر والے دوپہر کے وقت سب سو رہے تھے ۔ میری دادی کی چارپائی،اس صحن میں بچھی ہوئی تھی جس پر تارکول کے ڈرموں کو کاٹ کر چھت ڈالی گئی تھی ، وہ جاگ رہی تھیں ، اچانک ان کی نظر برآمدے میں رکھے ہوئے ٹھنڈے پانی کے گھڑوں پر پڑی ، تو انہیں یوں دکھائی دیا جیسے میں وہاں بیٹھا ہوا ہوں ،یہ دیکھتے ہی انہوں نے میری والدہ کو آواز دی اور کہادیکھو اسلم کو کیا ہوا ہے ، کہ وہ برآمدے میں چپ چاپ بیٹھا ہوا ہے۔ جب والدہ نے نیند سے بیدار ہوکر دیکھا تو وہاں کچھ بھی نہیں تھا ،ایک ٹانگ جو پہلے وہاں ہل رہی تھی، وہ کسی نے پیچھے کھینچ لی ۔ابھی گھر میں موجود تمام افراد اس تجسس میں تھے کہ اسلم( میں ) تو ابھی گھر نہیں آیا تو برآمدے میں اس جیسا کون تھا ۔ اسی اثنا ء میں نے دروازے پر دستک دی تو والدہ نے دروازہ کھولا تو گھر کے سبھی افراد مجھے گھور گھور کر دیکھ رہے تھے ،وہ کبھی مجھے دیکھتے تو کبھی برآمدے میں دیکھتے ۔پھر سب گھر والوں کا یہ شک یقین میں بدل گیا کہ برآمدے کوئی رہتا ہے، جو ہمیں پریشان تو نہیں کرتا لیکن کبھی کبھی اور کسی نہ کسی حالت اس کا وجود گھر والوں کو دکھائی دیتا رہتا ہے۔
31مارچ 1965ء کو گورنمنٹ ماڈل سکول بی بلاک گلبرگ ٹو لاہور کا جب نتیجہ سنایا گیا تو اﷲ نے مجھے کامیابی سے ہمکنار کیا ۔ ماشا اﷲ اب میں پانچویں جماعت پاس کرکے چھٹی جماعت میں داخلے کے قابل ہو چکا تھا ۔اب مزید حصول تعلیم کے لیے میرے پیش نظر گورنمنٹ کے دو ہائی سکول تھے ۔ ایک کا نام گورنمنٹ ہائی سکول تھا جو سی ایم اے کالونی کے بالکل سامنے جہاں سے گندہ نالہ گزرتا ہے، وہاں بڑی سی فوجی بارک ہوا کرتی تھی ،اس بارک میں وہ سکول تھا ، جہاں سے فارغ التحصیل طالب علم بہت ذہین تصور کیے جاتے تھے ۔ لیکن ریلوے کوارٹروں کے بچوں کی اکثریت گلبرگ ہائی سکول میں زیر تعلیم تھی ،جو اس وقت پرائیویٹ سکول کہلاتا تھا ۔بلکہ گلبرگ ہائی سکول اور عارف ہائی سکول کے مالک شیخ خالداور شیخ عارف سمجھے جاتے تھے ۔اس لیے پڑھائی کے معیار کے مطابق گلبرگ ہائی سکول لاہور کینٹ بھی کسی سے کم نہیں تھا ۔ مجھے بتایا گیا کہ نہ صرف گلبرگ اور کینٹ ایریا کے لڑکے اس سکول میں پڑھتے ہیں بلکہ رائے ونڈ اور کوٹ راھا کشن تک کے لڑکے بذریعہ ٹرین یہا ں تعلیم حاصل کرنے کے آتے ہیں ۔دونوں سکولوں میں پڑھنے والے لڑکوں نے میرے والدین کے سامنے اپنے اپنے سکولوں کی تعریفوں کے پل باندھ رکھے تھے، چنانچہ میرے والدین نے گلبرگ ہائی سکول لاہور کینٹ کے حق میں فیصلہ دے دیا ۔
چنانچہ مجھے ( محمد اسلم خاں لودھی ) اور میرا بڑا بھائی محمد اکرم خان لودھی کو گلبرگ ہائی سکول لاہور کینٹ میں داخل کروا دیاگیا۔ مجھے چھٹی کلاس میں اور مجھ سے بڑے بھائی کو آٹھویں جماعت میں داخلہ مل گیا ۔مجھے یاد ہے کہ ہمارے زمانے میں گلبرگ ہائی سکول کے ہیڈماسٹر اشرف صاحب ہوا کرتے تھے ۔مجھے نہیں معلوم کہ وہ رہتے کہاں تھے لیکن میں تو اتنا جانتا ہوں کہ باؤ ٹرین کے ذریعے وہ کسی اور شہر سے یہاں آیا کرتے تھے اور چھٹی کے بعد اسی باؤ ٹرین پر سوار ہوکر اپنے گھر واپس جایا کرتے تھے۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ میں نے انہیں جتنی بار بھی دیکھا ان کو کبھی ہنستا ہوا نہیں دیکھا۔ وہ ہمیشہ سنجیدہ ہی رہا کرتے تھے۔ اپنے آفس میں بیٹھے ہوں یا وہ سکول کا دورہ کررہے ہوں ۔ طالب علموں کی بات تو چھوڑیں ٹیچر بھی ان سے خوفزدہ رہا کرتے تھے ۔کہ کسی بھی وقت ان کو بھی ہیڈ ماسٹر کے دفتر میں بلوایا نہ آجائے ۔ اس لیے حاضری اور لباس کے اعتبار سے سبھی ٹیچر اپنی مثال آپ تھے ۔ ( جاری ہے)
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 665598 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.