احمد ندیم قاسمی کی زندگی کا ایک اہم ورق

احمدندیم قاسمی کا نام شعر وادب کی دنیا میں ہمیشہ چمکتا اور دمکتا رہے گا ۔انہوں نے بیشمار ادبی رسالوں کی ادارت کی ۔کالم نگاری کے ساتھ ساتھ نظم،غزل ،ڈرامے اور افسانے تحریر کیے ۔جنہوں نے بے حد پذیرائی وصول کی ۔ آج ہم پاکستان کے اس عظیم شاعر اور ادیب کی زندگی کا ایک ورق اپنے قارئین کی نذر کرتے ہیں -: وہ لکھتے ہیں" میں نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جس کے افراد اپنی روایتی وضع داری نباہنے کے لیے ریشم تک پہنتے تھے اور خالی پیٹ سو جاتے تھے ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مدرسے جانے سے پہلے میرے وہ آنسو بڑی احتیاط سے پونچھے لیے تھے جو اماں سے محض ایک پیسہ حاصل کرنے میں ناکامی کے دکھ پر بہہ نکلتے تھے ۔لیکن میرے لباس کی صفائی ،میرے بستے کا ٹھاٹھ باٹھ اور میری کتابوں کی "گیٹ اپ "کسی سے کم نہ ہوتی تھی ۔ گھر سے باہر احساس برتری جاری رہتا تھا اور گھر میں داخل ہوتے ہی وہ سارے آبگینے چور ہو جاتے تھے جنہیں میرے بچپن کے خواب تراشتے تھے ۔ پیاز یا سبز مرچ یا نمک مرچ کے مرکب سے روٹی کھاتے وقت، زندگی بڑی ظالم دکھائی دیتی تھی اور جب میں اپنے خاندان کے بچوں میں کھیلنے جاتا تو آنکھوں میں ڈر ہوتا اور دل میں غصہ ۔ خاندان کے باقی سب گھرانے کھاتے پیتے تھے ،زندگی پر ملمع چڑھائے رکھنے کا تکلف صرف ہمارے نصیب میں تھا ۔ والد گرامی پیر تھے ۔ یاد الہی میں کچھ ایسی محویت کی کیفیتیں طاری ہونے لگیں کہ مجذوب ہو گئے اور جن عزیزوں نے ان کی گدی پر قبضہ جمایا ،انہوں نے انکی بیوی ،ایک بیٹی اور دو بیٹوں اور خود ان کے لیے کل ڈیڑھ روپیہ ماہانہ ( نصف جس کے بارہ آنے ہوتے ہیں ) وظیفہ مقرر کیا ۔ تین پیسے روزانہ کی آمدنی میں اماں مجھے روزانہ ایک پیسہ دینے کے بجائے میرے آنسو پونچھ لینا آسان سمجھتی تھی اور آج جب میں اپنی نظموں اور افسانوں کے معاوضے کا کچھ حصہ ہر مہینے اپنی والدہ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں تو وہ رو دیتی ہیں اور فرماتی ہیں کہ میں روتی تو جب بھی تھی مگر وہ آنسو میرے اپنے تھے ،اب جو رو رہی ہوں تو یہ وہ آنسو ہیں جنہیں میں تم دونوں بھائیوں کی آنکھوں میں قتل کردیتی تھی کہ گھرانے کی عزت پر پانی نہ پھر جائے۔سچ تو یہ ہے کہ گھرانے کی اس عزت کے احساس نے مجھے وقت سے پہلے حساس بنا دیاتھا اور ممکن ہے اسی گداز نے مجھے فنکار بنایا ہو ۔ اگر بچپن میں مجھے ماں کی محبت نہ ملتی تو ممکن ہے آج میں نہایت خطرناک کلبی اور قنوطی ہوتا ۔لیکن عالم یہ تھا کہ جب ہم بہن بھائی اپنی اماں کا ہاتھ بٹاتے ، وہ چرخہ کاتتیں اور ہم پونیاں بناتے ، وہ چکی پیستیں اور ہم ملکر گیت گاتے ، وہ کوٹھے کی لپائی کرتی تو ہم سیڑھی سے چمٹے کھڑے رہتے ۔بہرحال جب بارش ہونے لگتی تو اماں دہلیز کے پاس بیٹھ جاتیں ۔ ہم تینوں ان کے آس پاس ٹھنس جاتے ۔ باہر آنگن میں بلبلے ان گنت گنبدوں کا فرش بچھاتے اور آنگن کی بیریوں کے پتے اڑتے ہوئے اندر ہمارے پاس آجاتے اور باہر گلیوں میں ننگ دھڑنگ بچے پرنالوں کے نیچے نہاتے اور چلاتے تو اماں ہمارے سر پر ہاتھ پھرتیں اور روتیں اور بڑے دکھ سے کہتیں ۔بوند بوند کے ساتھ فرشتہ اترتا ہے۔اے پاک فرشتو ۔ خدا کے دربار میں جا کر مجھ دکھیاری کی طرف سے عرض کرنا کہ میں نے تو جو دکھ بھگتے سو بھگتے ،میرے ان بچوں کو کوئی دکھ نہ دینا ۔ میں نے انہیں بڑی مشکل سے پالا پوسا ہے ۔ یہ پڑھیں لکھیں ،نیک اور لائق بنیں اور دنیا میں نام پیدا کریں ۔اﷲ ان کے نصیبوں کے کانٹوں کو پھول بنادے اور یہ نہ ہوسکے تو یہ کانٹے میری قسمت میں لکھ دے ۔یہ بچے میرا اثاثہ ہیں ،یہ بچے میرا غرور ہیں ۔مال تو سب تیرا ہی ہے ،پر تو نے ہی یہ مال مجھے عطا فرمایا ہے تو بس اتنا کر کہ میں ان کا دکھ نہ دیکھوں ، بوند بوند کو پکار رہی ہوں ۔میری پھٹی ہوئی پوروں اور کٹی ہوئی ایڑیوں کی لاج تیرے ہاتھ میں ہے ۔ یا رب العلمین۔پھر وہ زیر لب کوئی آیت کریمہ پڑھتیں اور ہم تینوں پر "چھو"ہوتے ہی زندگی کی ڈالیاں پھولوں سے لدجاتیں ۔مہکاروں اور چہکاروں کا ایک طوفان امڈ آتا اور ہم موسلادھار بارش میں ناچتے کودتے ،اپنی بیریوں کے بیر چننے بھاگ جاتے ۔آپا پکارتیں ۔کیڑا ہے بیر میں ۔ اور میں گول مٹول احمد شاہ ناچتے ہوئے اپنی بھدی سی آواز میں گاتا ۔ کیڑا ہے بیر میں ۔ دانہ ہے ڈھیر میں۔ رتی ہے سیر میں ۔ کھا جاؤ۔بھائی جان میری بات سن کر کہتے تم میراثی ہو ۔تمہیں تو ہم نے رحم کھا کر اپنے گھر میں رکھ لیا ہے ۔تمہیں ایک چیل پنجوں میں دبائے اڑالیے جارہی تھی ،ابا کو رحم آگیا ۔چیل سے چھین کر تمہیں اپنے گھر لے آئے ۔تم سے کوئی سی بات کرو تم اس کا گانا بنا لیتے ہو ۔یہ مہمل باتیں جبھی رکتیں جب بھائی جان بیر کی گٹھلی تاک کر میری موٹی سی ناک پر مارتے اور میں ایک درد مند فریادی بن کر اماں کے حضور اپنی بے گناہی ثابت کرنے چلا جاتا ۔ مجھے زندگی میں بیشمار محبت میسر آئی لیکن اماں کی محبت کا میں اس لیے سب سے زیادہ سپاس گزار ہوں کہ اس محبت نے مجھے پتھر نہیں بننے دیا ۔اگر میرے ادب میں Pathosکا کہیں وجود ہے تو یہ میری اماں کی دین ہے اور اگر میں انفرادی دکھ کے قلعے سے نکل آیا ہوں تو یہ بھی انہی کی دین ہے ۔نو برس کی عمر میں مجھے اماں سے الگ ہو کر تعلیم کے سلسلے میں کیمبل پور جانا پڑا ،جہاں میرے چچا سول آفیسر تھے۔انہوں نے ہم دونوں کی تعلیم کا بیڑا اٹھا لیا تھا ۔مجھے یاد ہے کہ بعض سنسان دوپہروں کو ہم دونوں بھائی ڈرائنگ روم کے صوفوں پر آکر بیٹھ جاتے اور رو رو کراماں کی باتیں کرتے ۔پھر اچانک بھائی جان کو یاد آجاتا کہ وہ مجھ سے دو برس بڑے ہیں ،تووہ میرے آنسو پونچھتے ،مجھے تسلیاں دیتے ،مجھ پر زیادہ رقت طاری ہوجاتی تو غصے سے مجھے پیٹ بھی ڈالتے۔مگر بھائی جان ایک اتوار کو مجھے اپنے پاس بلایا ۔شاہ ذرا ادھر تو آؤ۔ میں ان کے پاس گیا ۔انہوں نے کہا شاہ اماں بہت یاد آرہی ہے ،اس لیے آؤ روئیں ۔میں نے کہا چلیئے شروع کریں ۔وہ پہلے ہی بھرے بیٹھے تھے ۔پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ۔میں نے بھی ان کا بھرپورساتھ دیا ۔جب ہم خوب رو لیے تو انہوں نے میرے آنسو پونچھتے ہوئے بولے بس جی ہلکا ہو گیا ہے۔اب بس کر۔جب میں دیکھتا ہوں کہ میرے جیسے کروڑوں بیٹے ایک پیسے کے حصول میں ناکامی کے دکھ پر آنسو بہائے رہے ہیں اور ماؤں کی آغوش میں منہ چھپا چھپا کر روئے رہے ہیں ۔تب میں یہ سب کچھ دیکھتا ہوں کہ میں دھرتی کا بیٹا ہوں ، دھرتی میرے ماں ہے ،دھرتی سب کی ماں ہے ،تو میرے احساسات میں ہلچل نمایاں ہوتی ہے ۔ میرے قلم میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور میں زندگی کو تصویریں اپنے شعروں اور کہانیوں میں پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو بالکل ایسی آسودگی محسوس ہوتی ہے ۔جیسے ماں بیٹے سے کہے کہ بیٹا یہ میری ایڑی سے کانٹا تو نکال دو ۔ اور بیٹا کانٹا نکال کر اور اسے سوئی کی نوک یا اپنی ہتھیلی پر رکھ کر زبان حال سے کہے کہ آج میں نے ایک بہت بڑی عبادت کی ہے ۔"
 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 665674 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.