یاراۓ نظر دے !

انظر الیک
(یاراۓ نظر دے کہ تجھے دیکھوں)
دن اور رات کے آنے جانے ،حالات کے تغیر و تبدل میں عقل والوں کے لئے رب العالمین کی نشانیاں موجود ہیں ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تو اپنی زندگی میں اتنے معجزات _الہی دیکھے تھے کہ ان کے دل میں یہ شوق بیدار ہوگیا کہ وہ اللہ عزو جل سے ہم کلام ہوتے ہیں تو کسی طرح اسے دیکھ بھی سکیں،اسی لئے ایک دن بندہ اپنے رب سے یہ دعا کر بیٹھا کہ " مجھے یاراۓ نظر دے کہ تجھے دیکھوں"(بحوالہ سورہء اعراف ،آیت 143) اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ " لن ترانی " یعنی :تم مجھ کو ہر گز نہیں دیکھ سکتے! اور پھر فرمایا کہ" ہم اپنی تجلی کا ظہور اس پہاڑ پر کریں گے ،اگر یہ اپنی جگہ برقرار رہا تو اس کے بعد تم مجھے دیکھ سکو گے " ۔
"جب اللہ تعالٰی نے کوہ_ طور پر اپنی تجلی کا ظہور کیا تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگیا اور موسی ' علیہ السلام ،بے ہوش ہوکر گر پڑے۔"
شاید دیدار_الہہ کی یہ تمنا ،ایمان والوں میں فطرتاً موجود ہوتی ہے ،اسی لئے ایک بار مصور_پاکستان علامہ اقبال نے رب العالمین کو مخاطب کرکے فرمایا تھا:
کبھی اے حقیقتِ منتظر ،نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں ،میری جبینِ نیاز میں !
یہ تمنا وہی کرسکتا ہے جس کے قلب میں ایمان پوری طرح جاگزیں ہوگیا ہو، جس نے اپنی اور اپنے خالق کی حقیقت کو پہچان لیا ہو،جو اس دنیاۓ فانی کے راز جان گیا ہو ،جس نے اپنی جسمانی و روحانی توانائیوں کو اطاعتِ الٰہی کے مشن میں لگادیا ہو،جس نے اپنی نظر کو نفسانی خواہشات سے ہٹالیا ہو ،وہی یہ تمنا کرسکتا ہے ۔یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں،(عام انسان تو موت سے ڈرتا ہی رہے) لیکن جسے دیدارِ الٰہی کی تمنا کرنے کی توفیق مل جائے ،اس کے کیا کہنے ،یہ تمنا بہت بڑی سعادت ہے !
احادیث_صحیحہ کے مطابق ،اہل_ایمان کے لئے عظیم بشارت، جنت کی سب سے بڑی نعمت " دیدارِ الٰہی" ہے۔
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب جنتی ،جنت میں داخل ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرماۓ گا کہ تم کچھ اور چاہتے ہو تو وہ میں تمہیں عطا کروں ؟"
وہ کہیں گے " کیا آپ نے ہمارے چہرے منور نہیں کردئیے اور ہمیں جنت میں داخل نہیں کردیا اور ہمیں دوزخ سے نجات نہیں دے دی ؟
حضور نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنا حجاب اٹھادیں گے ،تب انھیں معلوم ہوگا کہ اس سے بہتر انھیں کچھ نہیں ملا تھا،پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی " للذین احسنوا الحسنی' وزیادۃ" ایسے لوگوں کے لئے جو نیک کام کرتے ہیں ،نیک جزا ہے بلکہ اضافہ بھی ہے ۔"اضافہ" سے مراد "دیدارِ الٰہی" ہے۔"(بحوالہ امام احمد،مسلم،ترمذی)
حضرت جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،وہ کہتے ہیں کہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے ۔آپ نے چاند کی طرف نظر اٹھائی جو چودہویں رات کا تھا ،پھر فرمایا " یقیناً تم لوگ اپنے رب کو اس طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو ،اور تمہیں دیدارِ الٰہی میں کوئ مشکل نہ ہوگی ، لہذا اگر تم سے سوج طلوع ہونے سے پہلے اور غروب سے قبل نمازوں کے پڑھنے میں کوتاہی نہ ہوسکے تو ایسا ضرور کرو"(متفق علیہ)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا کا طلب گار بنادے ،آمین۔