اللہ رب العزت کا اپنے بندوں سے پیار

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو آداب
عزیزان من میں نے اپنی پچھلی ایک تحریر میں یہ بات کہی تھی کہ انسان اس دنیا میں اپنے اردگرد کئی رشتوں میں جڑا ہوا ہے اور ان رشتوں میں اگر کسی رشتے کو وہ اپنے سب سے زیادہ قریب اور محبت کرنے والا رشتہ مانتا ہے تو وہ ماں کا رشتہ ہے لیکن اگر انسان کو 70 مائوں سے زیادہ محبت کرنے اور پیار کرنے والی ذات ہے تو وہ رب الکائنات کی ذات ہے اللہ تبارک وتعالی اپنے بندے سے کتنی محبت کرتا ہے اگر ہم غور کریں اور دل کی آنکھوں سے دیکھیں تو اس کی مثالیں ہمیں اپنی روزمرہ کے معمول میں صاف اور واضح طور پر نظر آتی ہیں ہمارے لئے اس کی محبت اور پیار کی سب سے بڑی اور واضح دلیل یہ ہے کہ اس نے ہمیں اپنے محبوب اور وجہہ تخلیق کائنات صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی امت میں پیدا فرمایا اور اس وجہ سے ہم پر رحم و کرم کی بارشیں چھما چھم برس رہی ہیں ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے ارشاد فرمایا کہ دنیا میں کوئی بھی رشتہ تم سے پیار اور محبت کرنے کا دعویدار ہو تو اس میں اس کا اپنا مفاد ضرور شامل ہوگا جبکہ اللہ رب العزت کی ذات وہ واحد ذات ہے جو اگر تم سے پیار اور محبت بھی کرتا ہے تو صرف تمہارے فائدے کے لئے اب سوال یہ ہے کہ وہ مالک و مولا اپنے بندوں میں سے کن بندوں سے محبت کرتا ہے تو میرے یاروں جو اس کے احکامات پر عمل کرکے اس کے قرب اسکی توجہ اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے میں اپنے آپ کو مصروف عمل کرلے اپنے دل میں اس کا خوف اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا عشق داخل کرلے بس پھر وہ ذات باری تعالی اس کے لئے اپنی رحمت اور نعمتوں کے دروازے کھول دیتا ہے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اگر میں اللہ تبارک وتعالی کی اپنے بندوں پر کرم نوازی اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی امت ہونے کے سبب خصوصی طور پر ہم پر مہربانیوں کے بارے میں بتانا شروع کروں تو تحریر کافی لمبی ہوجائے گی اب دیکھیں ہمارے ارد گرد اور اس دنیا کے لوگوں کا کیا حال ہے کہ اگر آپ 99 کام بلکل درست اور صحیح کرلیں لیکن کوئی ایک کام آپ سے اگر غلط ہوجائے تو وہ آپ کے اس ایک غلط کام کی وجہ سے آپ پر انگلی اٹھادیتے ہیں کیوں کہ وہ انسان ہیں جبکہ اگر 99 کام غلط کرکے ایک بار اس رب الکائنات کی بارگاہ میں ندامت کا ایک آنسو بہادیں تو آپ کو بخش دیتا ہے کیوں کہ وہ رحمان ہے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں بس اللہ تبارک وتعالی کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا شروع کردیں اور اس کی محبت اور پیار کے حقدار بن جائیں اور جب ہم اس کی راہ میں نکل جائیں تو پھر چلتے رہناہے رکنا نہیں ہے امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں " جب اللہ رب الکائنات کی راہ پر خوش قسمتی سے چل پڑے ہو تو تیزی سے بھاگو اگر تیزی سے بھاگنا دشوار ہو مشکل ہو تو آہستہ سے بھاگو اگر تھک گئے ہو تو چل دو اگر چلنے میں بھی تکلیف ہو تو گھسٹ لو مگر وآپسی کا کبھی نہ سوچنا "۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اللہ کی محبت ، چاہت اور قرب کے حصول کے لئے بنیادی شرط اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی اللہ تبارک وتعالی کی عطا سے بتائی ہوئی باتوں پر عمل کرنے ان کی سنتوں پر عمل کرنے میں ہے کیوں کہ اللہ رب العزت سے محبت دراصل محبت محمد صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ہے اور یہ ایمان کے مکمل ہونے کی بھی ایک واضح اور کھلی دلیل ہے جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ دنیا میں موجود تمہارے ہر رشتے اور ہر چیز سے میں تمہیں سب سے زیادہ پیارا نہ ہوجائوں تب تک تمہارا ایمان مکمل نہیں ہوگا یہ ہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سے جب بھی کوئی آپ علیہ وسلم سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے کے لئے تشریف لاتے تو سلام عرض کرنے کے بعد یہ ہی کہتے تھے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہمارا سب کچھ آپ پر قربان اور یہ ہی اللہ تبارک تعالی سے اپنے بندے کی محبت کی دلیل ہے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اگر اللہ تبارک وتعالی نے ہمیں بولنے کی صلاحیت دی ہے تو یہ اس کا ہم سے پیار ہے اگر رب الکائنات نے ہمیں دو ہاتھ دو پائوں اور دنیا کی ہر شہ کو دیکھنے کے لئے آنکھوں جیسی نعمت دی ہوئی ہے تو یہ بھی اس کی اپنے بندے سے محبت ہے آپ اندازہ لگایئے کہ گناہ کرتے وقت یعنی دوران گناہ وہ ہمیں موت نہیں دیتا بلکہ گناہ کے بعد ہمیں اس کی توبہ کا موقع بھی فراہم کردیتا ہے یہ اس خالق کائنات کی ہم پر کرم نوازی ، محبت اور پیار نہیں تو کیا ہے اللہ تبارک وتعالی کا خوف اگر دل میں پیدا ہوجائے اس کے احکامات پر عمل کرنے میں اگر ہم لگ گئے تو ہم صحیح معنوں میں اس رب العزت کے پیار اور محبت کے حقدار ہوجاتے ہیں اور پھر وہ رب کائنات جو ہم سے 70 مائوں سے زیادہ پیار کرتا ہے ہم پر اپنے کرم اور رحمت کی چھما چھم بارشیں برساتا ہے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں انبیاء کرام ، صحابہ کرام ، تابعین تبہ تابعین ، اولیاء کرام اور بزرگان دین کا یہ ہی معمول تھا کہ وہ اپنی زندگی صرف اللہ تبارک و تعالی کے حکم کے مطابق گزارتے تھے اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرکے گزارتے تھے اس لئے انہیں نہ صرف اللہ رب العزت کا قرب یعنی پیار ملا بلکہ اللہ تبارک وتعالی کی طرف سے بلند مقام و مرتبہ بھی نصیب ہوا کہ آج ہراہل ایمان مسلمان ان کا ذکر خیر کرنا اپنی سعادت سمجھتا یے۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اللہ تبارک وتعالی کا پیار اور اس کی محبت پانے کے لئے ہمیں صرف اس کے احکامات کی پیروی کرنا ہوگی اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پرعمل کرنا ہوگا اور اس رب الکائنات کو راضی کرنا ہوگا اگر سرکار علیہ وسلم کی خوشنودی حاصل ہوگئی تو ہمارا رب بھی ہم سے راضی ہوجائے گا اور جب رب راضی ہوگیا تو ہماری دنیا بھی سنور جائے گی اور آخرت بھی اور جب دونوں سنور جائیں تو پھر ہمارا آخری ٹھکانہ صرف اور صرف جنت ہی ہوگا اور پھر ہمیں جنت میں جانے سے کوئی نہیں روک سکتا انشاءاللہ ۔
 

محمد یوسف برکاتی
About the Author: محمد یوسف برکاتی Read More Articles by محمد یوسف برکاتی: 112 Articles with 77590 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.