انتخابی نتائج :اتحاد کی جیت اور انتشار میں ہار کا مظہر

ابھی حال میں شمال مشرق کی 3 ریاستوں اور5 صوبوں کے اندر6 مقامات پر ضمنی انتخاب ہوا۔ ان کے نتائج سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ریاستی الیکشن میں بی جے پی چھا گئی لیکن ضمنی انتخاب پر کوئی گفتگو نہیں ہو رہی ہے کیونکہ وہاں زعفرانیوں کی کارکردگی مایوس کن رہی۔ شمال مشرق کے صوبائی الیکشن سے کوئی بنیادی تبدیلی واقع نہیں ہوئی لیکن ضمنی انتخاب کا معاملہ اس سے مختلف رہا۔ یہ الیکشن ملک مختلف حصوں میں ہوئے مثلا ارونا چل پر دیش شمال مشرق میں ہے مگر مغربی بنگال مشرق میں ۔جھارکھنڈ تو مغربی بنگال کے مغرب میں واقع ہے۔ اس کے علاوہ مغربی صوبہ مہاراشٹر میں دومقامات اور جنوب کے تمل ناڈو میں انتخابات کا انعقاد ہوا۔ اروناچل کے چین سے سٹے توانگ ضلع میں لملا حلقۂ انتخاب سے بی جے پی کی امیدوار سیرنگ لہامو بلامقابلہ جیت گئیں ۔ سابق رکن اسمبلی جمبے تاشی کا نومبر میں انتقال ہوگیا تو وراثت کی سیاست پر دن رات پروچن دینے والی بی جے پی نےان کی بیوی کو امیدوار بنایا۔ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی امیدوار میدان میں نہیں آیا ۔

اس طرح باسٹھ کروڈ کی ملکیت رکھنے والی امیدوارسیرنگ لہامو کامیاب ہوگئیں۔ ایک نہایت پسماندہ علاقہ میں جمبے تاشی کی بیوی کا اس قدر امیر ہونا شک و شبہ کو تو جنم دیتا ہی ہے لیکن پھر مودی ہے تو کچھ بھی ممکن ہے۔ مودی یُگ میں اگر بی جے پی والے پیسے نہیں کمائیں گے تو کون کمائے گا؟اروناچل سے مغرب کی جانب مغربی بنگال ہے۔ وہاں پر مرشد آباد کے اندرساگر دیگھی میں ضمنی انتخاب ہوا۔ اس حلقۂ انتخاب میں 63% ووٹرس مسلمان اور دس فیصد سے کچھ زیادہ قبائلی لوگ رہتے ہیں۔ مرحوم غنی خان چودھری نے برسوں تک اس علاقہ کی نمائندگی کی ہے۔ 2011میں یہاں پر ٹی ایم سی کےسبراتا ساہا نے قدم جمائے اور انہوں نے لگاتار تین انتخابات میں کامیابی درج کروائی ۔ پچھلا الیکشن انہوں نے پچاس ہزار سے زیادہ فرق سے جیتا اور اس کے بعد انہیں وزیر بنایا گیا۔ اس حلقۂ انتخاب کی ایک خاص بات یہ تھی کہن پچھلی بار وہاں سے بی جے پی نے خاتون مفوجا کو اپنا امیدوار جو دوسرے نمبر آئیں اور تیسرے مقام پر کانگریس کے شیخ حسن الزمان تھے۔ ان کے علاوہ ایم آئی ایم کے نورِ محبوب عالم کو اور ایس ڈی پی آئی کے عبدالتواب کو بھی تھوڑے بہت ووٹ مل گئے تھے۔

دسمبر 2022 میں سبراتا کا انتقال ہوگیا تو ممتا بنرجی نے دیباشش بنرجی کو اپنا امیدوار بنایا ۔ کانگریس اور سی پی ایم نے بائرن بسواس کو مشترکہ امیدوار کے طور پرمیدان میں اتارااور بی جے پی بھی مسلمان امیدوار کو بھول کر دلیپ ساہا پر آگئی بعید نہیں کہ سبراتا ساہا کا کوئی رشتے دار ہو بی جے پی اس کے سہارے اپنی ناو پار لگانے کے فراق میں رہی ہو۔ اس نتخاب میں مسلمانوں نے مذہب کی بنیاد پر اپنا ووٹ تقسیم کرنے کے بجائے کانگریس کے امیدوار کو یکمشت ووٹ دیا اور اس نے 22 ہزار سے زیادہ کے فرق سے ٹی ایم سی کو ہرا دیا۔ بی جے پی دوسرے نمبر سے تیسرے پر کھسک گئی اور اسے 26ہزار سے کم ووٹ ملے ۔ اس حیرت انگیز نتیجہ پر تبصرہ کرتے ہوئے ٹی ایم سی کے رہنما نے بتایا کہ 2021 میں تقریباً90% مسلمانوں نے ہمیں ووٹ دیا تھا اور اس بار کمی متوقع تھی مگرہم ہار جائیں گے یہ ہم نے نہیں سوچا تھا۔ آگے اس پر غور کیا جائے گا۔ ان کے خیال میں اسکولی ملازمت اور پنچایت سطح پر ہونے والی بدعنوانی نے رائے دہندگان کو برگشتہ کیا ہے۔ ٹی ایم سی کو خواتین کی فلاح وبہبود کے لیے چلائی جانے والی اسکیموں پر بڑا ناز ہے لیکن ساٹھ فیصد خواتین نے یہاں ووٹ دیا پھر بھی وہ ہار گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کارڈ بھی نہیں چلا۔

اس الٹ پھیر کا ایک سبب یہ ہوسکتا ہے کہ پچھلی بار بی جے پی کی کامیابی کا خدشہ تھا اس لیے مسلمان بہت محتاط تھے۔ اس بار نہیں تھا اس لیے ممتا کو سبق سکھا دیا۔ یہ نتائج چونکہ پنچایت انتخاب سے پہلے آئے ہیں اس لیے کانگریس اور سی پی ایم بہت پر جوش ہیں۔ کانگریس کے ادھیر رنجن چودھری کا دعویٰ ہے کہ ٹی ایم سی نے مسلمانوں کے ساتھ غداری کی اس لیے اس کایہ حشر ہوا ۔ سی پی ایم کے سلیم کا کہنا ہے کہ ممتا کی بدعنوانی اور غنڈہ گردی نے انہیں اس انجام سے دوچار کیا ہے۔ اس ناکامی نے ممتا بنرجی کا دماغ خراب کردیا اور انہوں نے بی جے پی پر اپنا ووٹ کانگریسی امیدوار کو منتقل کرنے کا احمقانہ الزام لگاتے ہوئے کہا کہ سی پی ایم اور کانگریس نے بی جے پی سے الحاق کرلیا ہے۔ یہ ایک ایساالزام ہے کہ جس پر کوئی پاگل ہی یقین کرسکتا ہے۔ویسے ممتا نے اکیلے الیکشن لڑنے کا اعلان کرکے بی جے پی کی بلاواسطہ مدد کا جو اعلان کیا ہے اس سے ان کی ساکھ اور بھی زیادہ خراب ہوجائے گی۔

ممتا نے جو غلطی مغربی بنگال میں کی اس کا اعادہ کانگریس نے جھارکھنڈ میں کردیا۔ رام گڑھ سے کامیاب ہونے والی ممتا مہتو نامی کانگریسی رکن اسمبلی پر بدعنوانی کے الزام لگے اس لیے انہیں استعفیٰ دینا پڑا۔ کانگریس نے وہاں سے ممتا کے شوہر بجرنگ مہتو کو میدان میں اتارا۔ اس کے مقابلے بی جے پی سے ملحق اے جے ایس یو کی امیدوار سنیتا چودھری الیکشن لڑ رہی تھیں ۔ عوام نے کانگریس کو بدعنوانی سبق سکھایا اور سنیتا کوتقریباًبائیس ہزار ووٹ کے فرق سے کامیاب کردیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر بدعنوانی کی سزا ٹی ایم سی اور بی جے پی کو ملے گی تو کانگریس بھی اس سے محفوظ نہیں رہے گی ۔تمل ناڈو کے ای روڈ میں پہلے بھی کانگریس کے تھرومہان ایویرا منتخب ہوئے تھے۔ اس بار ان کی جگہ ایلنگون کو ٹکٹ دیا۔ انہوں نے تقریباً ایک لاکھ دس ہزار ووٹ حاصل کیے اور 67 ہزار سے زیادہ کے فرق سے بی جے پی کے رفیق اے آئی ڈی ایم کے کے امیدوارتھینا راسو کو شکست فاش سے دوچار کیا۔
مہاراشٹر کے اندر دو حلقوں میں انتخاب ہوا۔ چنچوڑ میں بی جے پی کی امیدوار اشونی لکشمن جگتاپ نے 135603 ووٹ حاصل کرکے زبردست کامیابی درج کرائی ۔ ان کے مقابلے این سی پی کے نانا کاٹے صرف 99435 ووٹ حاصل کرسکے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس حلقۂ انتخاب سے پچھلی بار شیوسینا کے راہل کلاٹے نے ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے مگر اس بار انہیں ٹکٹ نہیں دیا گیا ۔یہی وجہ ہے کہ کلاٹے نے پلٹی مار کر پارٹی سے بغاوت کردی اور آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں کود گئے۔ پارٹی کی مدد کے بغیر اپنے بل بوتے پر 44112 ووٹ کاٹے اور ان کو ناکام کردیا ۔ کلاٹے نے اپنی مقبولیت کا لوہا منوا لیا مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ خود بھی ہارگئے اور ایم وی اے کے امیدوار کو بھی ناکام کردیا یعنی ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے والی بات ہوگئی۔کاٹے اور کلاٹے ووٹ اگر جوڑ دئیے جائیں تو وہ جگتاپ سے سات ہزار زیادہ ہوجاتے ہیں لیکن اب پچھتائے کا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت۔ کلاٹے کو ادھو ٹھاکرے سمجھا نہیں سکے اور اس کی قیمت این سی پی کو چکانی پڑی ۔ خود این سی پی بھی اگر کاٹے کے بجائے کلاٹے کے نام پر راضی ہوجاتی تو یہ نوبت نہیں آتی۔

اس کے برعکس قصبہ پیٹھ میں ایم وی اے نے متحد ہوکر مقابلہ کیا اور 1995کے بعد پہلی بار کانگریس کے دھنگیکر ہیم راج نے بی جے پی کے امیدوارہیمنت نارائن رسانے کو گیارہ ہزار کے فرق سے دھول چٹا دی۔ اس کامیابی کی وجہ اور چنچوڑ میں ناکامی کا سبب یکساں ہے۔ دھنگیکر اپنے حلقۂ انتخاب میں کاٹے کی طرح مقبول تھے ۔ وہ کئی مرتبہ کونسلر کے طور منتخب ہوئے اور عوامی خدمت کی سبب لوگ انہیں ’کام کا آدمی‘ کہہ کر پکارنےلگے ۔ اس لیے وہ کسی بھی پارٹی یا آزاد بھی کھڑے ہوتے توکامیاب ہوجاتے۔ معلوم ہوا کہ صحیح امیدوارکا انتخاب کامیابی کی کنجی ہے۔ قصبہ پیٹھ میں اس بار کانگریس کے بالا صاحب دھابیکرنےآزاد امیدوار کے طور پر کاغذاتِ نامزدگی داخل کیے تھے مگر جو کام ادھو ٹھاکرے سے نہیں بن پڑا وہ نانا پٹولے نے کردیااور انہیں پیچھے ہٹنے پر تیار کرلیا۔

قصبہ پیٹھ میں آنجہانی رکن اسمبلی مکتا تلک کا خاندان ان میں سے کسی کو ٹکٹ نہ ملنے پر ناراض ہو گیا۔ مقبول بی جے پی کونسلر دھیرج گھاٹے کو امید تھی کہ ان کا فال نکلے گا نہیں نکلا تو بددل ہوکر بیٹھ گئے۔ چار مرتبہ رکن اسمبلی منتخب ہونے کے بعد رکن پارلیمان بننے والےبیماری کے سبب تشہیر میں نہیں آ سکے ۔ برہمنوں کے علاقہ میں بی جے پی کے برہمن نمائندوں نے پانی اور سڑک کے مسائل کو حل نہیں کیے اس سے کئی لوگ نکل گئے اور جو بچ گئے انہوں نے بی جے پی پر غصہ اتاردیا۔ بی جے پی کے امیدوار ہیمنت رسانے لگاتار تین مرتبہ بلدیہ قائمہ کمیٹی کے رکن تو رہے مگر عوامی رابطہ کمزور تھا ۔ علاقہ کے مشرق میں لوگوں نے تو انہیں دیکھا تک نہیں تھا۔ بی جے پی نے سوچا کہ شہرکے مشہور دگڑو سیٹھ حلوانی گنپتی منڈل کی رکنیت ان کی عقیدت کا سبب بنے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ انتخابی سیاست میں رسانے کی مذہبی عقیدت پر دھابیکر کی سماجی خدمت غالب آگئی ۔ امیدوار کے انتخاب میں یہ پہلو اہم ہے۔ان نتائج کانچوڑ یہ ہے کہ بی جے پی ، کانگریس اور ساری جماعتوں پراتحاد کی کامیابی اور انتشار کے شکست کا اصول نافذہوتا ہے۔

 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1226389 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.