سنگھ اور مسلمان : خوب وعدے کیے خوب دھوکے دیئے

2019کی انتخابی کامیابی نے اول تو بی جے پی کا دماغ خراب کردیا اور یہ سمجھا دیا کہ’اچھے دن ‘کا سکہ کھوٹا ہے اور فرقہ پرستی سے بات بنتی ہے۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے کشمیر اور پھر بابری مسجد کے نہایت ناعاقبت اندیش فیصلےا ٓئےجن سے حالات بد سے بدتر ہو گئے۔ بہار، بنگال اور اتر پردیش کا انتخاب جیتنے کی خاطر بی جے پی نے خوب فرقہ واریت کو ہوا دی یہاں تک کہ جون 2022میں بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما نے نبی کریم ﷺ کی گستاخی تک کرڈالی۔ عالمی سطح پر جب اس کی پرزور مذمت ہو نے لگی تو حکومت کا دماغ ٹھکانے آیا۔ اس کے بعد ڈیمیج کنٹرول کے لیے نوپور شرما سے پلہّ جھاڑا گیا ۔اس پر علامتی کارروائی ہوئی اور عدالت نے اسے بری طرح پھٹکارا۔ مسلم دنیا میں ملک کی شبیہ سدھارنے کی خاطر یہ سب کیا گیا تھا ۔ اس دوران پچھلے سال اگست (2022)میں 5سابق مسلم بیو رو کریٹس کی آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت سے ملاقات ہو ئی ۔ اس ملاقات کے بعد ان حضرات نے بعض مسلم تنظیموں کے ذمہ داران سے ملاقات کرکے ان کے ساتھ بھاگوت کی گفتگو کا اشتراک کیا ۔

سابق سرکاری عہدے داران کے وفد نے امیر جماعت اسلامی ہند سے ملاقات کرکے اس سلسلے کو آگے بڑھاکر گفتگوجاری ر کھنے کی تجویز پیش کی ۔ سید سعادت اللہ حسینی صاحب نے وفد کو جماعت کی طے شدہ پالیسی سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ گفتگو متعین موضوعات پر ہونی چاہیےاور ملت کا موقف وضاحت کے ساتھ پر اعتماد انداز میں پیش کیا جانا چاہیے۔ اہم سوالات اٹھانے کے بعد کچھ باتوں پر اتفاق رائے کی کوشش ہونی چاہیےاور پھر متفقہ باتوں کو منظر عام پرلایا جائے ۔ اسی طرح کی گفتگو دیگر جماعتوں کے ذمہ داران سے کرکے انہیں بھی گفتگو میں شرکت کی پیشکش کی گئی ہوگی۔ مجوزہ ملاقات سے قبل موہن بھاگوت نے ایک طول طویل انٹرویو دے کر رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ انہوں کئی متنازع باتیں کہنے کے بعد مسلمانوں کو اوٹ پٹانگ مشوروں سے نواز دیا ۔ اس کے بعد تو اگر کسی مسلم تنظیم کے سر براہ نے مشترکہ نشست میں شرکت کا ارادہ بھی کیا ہوتا تو اس کو ترک کردیتا ۔ اس لیے سبھی اپنے نمائندے بھیجنے پر اکتفاء کر کے کنارے ہوگئے۔ موہن بھاگوت نے یہ ردعمل دیکھا تو خود ابھی اپنے نمائندوں کو روانہ کردیا۔

14جنوری کو آر ایس ایس کے ساتھ ملاقات سے ایک دن قبل مسلم نمائندوں کی ایک نشست ہوئی جس میں سابق لیفٹنٹ گورنر دہلی جناب نجیب جنگ، سابق چیف الیکشن کمشنر جناب ایس وائے قریشی، صحافی اور سابق رکن پارلیمنٹ جناب شاہد صدیقی، جناب سعید شیروانی ،مولانا ارشد مدنی ، مولانا محمود مدنی ، انجینئر محمد سلیم ، مولانا نیاز احمد فاروقی، مولانا سلمان چشتی اور ملک معتصم خان نے شرکت کی ۔ اس موقع پر پہلے مرحلے میں ملک کے اندر فرقہ وارانہ منافرت، لا قانونیت اور مسلمانوں کے ساتھ جانب دارانہ برتاو کے موضوع پر بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔آر ایس ایس سربراہ کےتازہ بیان پربھی گفتگو کرنے کی بات ہوئی اور آئندہ مرحلوں میں دیگر اہم اور بنیادی موضوعات کو ترتیب کے ساتھ زیر بحث لانے کا ارادہ کیا گیا۔

14؍ جنوری کی میٹنگ میں آر ایس ایس کے رہنماؤں کی جانب سے اندریش کمار، آر ایس ایس کے سینئر پرچارک رام لال اور کرشنا گوپال آئے جبکہ مسلمانوں میں مذکورہ بیوروکریٹس کے علاوہ ، جمعیت العلما (مولانا محمود مدنی)کے مولانا نیاز احمد فاروقی ، پروفیسر فرقان قمر، مولاناارشد مدنی کے نمائندے مولانا فضل الرحمن ، پروفیسر ریحان احمد قاسمی ، سلمان چشتی، عبد السبحان اورجماعت اسلامی کی نمائندگی ملک معتصم خان نے کی ۔ مشترکہ نشست میں ملی نمائندوں نے موہن بھاگوت کے انٹرویو سے متعلق تین سوالات کیے ۔ پہلا یہ کہ ہندو ایک ہزار سال سے بیرونی طاقتوں سے حالت جنگ میں ہیں سے کیا مراد ہے؟ ہمارے دشمن صرف بیرون میں نہیں، اندربھی ہیں کا منشا کیا ہے؟ اور مسلمانوں کو احساس برتری کی ذہنیت کو ترک کر نے کا مشورہ کیوں دیا گیا ہے؟ وفد کے ارکان نے اس بات کو واضح کیا کہ آر ایس ایس اگر باہمی گفت شنید کی بابت سنجیدہ ہے تو ایسی باتوں سے غلط پیغام نہیں دینا چاہیے۔ اس نصیحت کے علاوہ جس پر عمل درآمد کی توقع نظر نہیں آتی مسلم ودفد نے چند ایسے سوالات کردیئے جس کے بعد آر ایس ایس ممکن ہے اس گفتگو کو جاری رکھنے پر سنجیدگی سے غور کرے اور بعید نہیں کہ ازخود یہ قصہ تمام کردے۔

مسلم وفد نے موجودہ حالات کی روشنی میں پوچھا کہ لا اینڈ آرڈر کی صورت حال اور مسلمانوں پر یک طرفہ مظالم پر سنگھ کیا سوچتا ہے؟ماب لنچنگ پر سنگھ کا کیا موقف ہے اور اس کو روکنے کے سلسلے میں کیا اس کے پاس کوئی منصوبہ ہے؟کیابلڈوزر کی سیاست سراسر ظلم و ناانصافی نہیں ہے؟ اورکیا اس عمل سے ملک کی شبیہ نہیں بگڑ رہی ہے؟ مسلم نو جوانوں کی بے جا گرفتاریوں کے بارے میں کیا سنگھ کی کیارائے ہے؟نفرت پر مبنی تقاریر پرسنگھ خاموش کیوں رہتا ہے؟کیا اس کا ارتکاب کرنے والوں پر کارروائی نہیں ہونی چاہیے؟ نسل کشی پر اکسانے والے بیانات پر کارروائی ،مسلمانوں کے ساتھ مختلف میدانوں میں غیر منصفانہ سلوک،تعلیمی سہولیات میں کٹوتی ، معاشی ترقی کی پالیسیوں میں امتیازی رویہ وغیرہ پر بھی استفسار کیا گیا۔ ا آر ایس ایس کی جانب سے ن سنجیدہ سوالات کے جوابات مضحکہ خیز تھے۔

آر ایس کے نمائندوں بلا واسطہ ماب لنچنگ کا جواز فراہم کرتے ہوئے کہا کہ گائے کی ہتیا سے ہندو بھاؤناؤں کو ٹھیس پہنچتی ہےاس لیے ہجومی تشدد کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اس کو روکنا تو درکنار مذمت کرنے زحمت بھی گوارہ نہیں کی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے نشست کے دوہفتوں بعد دہلی سے قریب میوات میں ایک ماب لنچنگ کا واقعہ ہوگیا اور 28 جنوری کو 22 سالہ نوجوان وارث ہجومی تشدد کا شکار ہوکر شہید ہوگیا۔ اس کے بعد سنگھ کی جانب سے پروچن شروع ہوگیا جس میں نیشنل ازم کے تحت مذہب و ذات پات پر ملک و قوم کو فوقیت دینے کا مشورہ دیا گیا۔طلاق کےذریعہ مسلم عورتوں کے ساتھ ناانصافی کے خلاف ان کے مطالبے پر قانون بنانے کا احسان تھوپا گیا حالانکہ وہ قانون اپنے آپ میں ایک ظلم ہے۔مسلم اکثریتی علاقوں کو منی پاکستان نہیں کہنے کی رائے دی گئی لیکن اس کا مقام غلط تھا اس لیے کہ مسلمان نہیں بلکہ سنگھ والے یہ کہتے ہیں۔ یہ ان کے داخلی اصلاح کا مسئلہ ہے۔ سنگھ اس رویہ پر حفیظ میرٹھی کا ایک شعر ترمیم کے بعد صادق آتا ہے؎
سنگھ والو تمہاری بھی اچھی کٹی
خوب وعدے کیے خوب دھوکے دئیے

اس میٹنگ میں دونوں جانب پائی جانے والی غلط فہمیوں کی جانب توجہ دلائی گئی مگربی جے پی کا آئی ٹی سیل اور سنگھ کے لوگ تو دن رات غلط باتیں پھیلانے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ مہاراشٹر کے اندر لوجہاد اور لینڈ جہاد جیسے مصنوعی موضوعات پر ہندو جن آکروش ریلیوں کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ فی زمانہ غلط فہمی پیدا کرنے والوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جاتی ہے بلکہ ان کو سرکاری تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔جنتر منتر پر نفرت انگیزی کرنے والوں کے بجائے ان کی ویڈیو بناکر پھیلانے والوں کو نوٹس دیا جاتا ہے۔ اس نشست کے مقصد کے تعلق سے بلی بالآخر تھیلے سے باہر آگئی اور سنگھ کے نمائندوں نے تعلقات کو بہتری کو تین مساجد کی حوالگی سے مشروط کردیا ۔ آر ایس ایس کے رویہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ فی الحال اقتدار کے نشے میں مست ہیں اس لیے ان سے مسلمانوں کے مسائل پر گفتگو بے سود ہے مگر دو اورمقاصد ایسے ہیں جن کے لیے یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔

پہلا مقصد دعوت اسلام کی ذمہ داری ہے۔ انبیائے کرام نے اس معاملے دوست اور دشمن میں تفریق نہیں کی اور مسلمان بھی ایسا نہیں کرسکتے اس لیے دعوتی روابط لازمی ہیں ۔ ایسے فریق ثانی اگر بلواسطہ یا بلا واسطہ اس کا موقع دے تو اس کا استعمال کرتے ہوئے دعوت دین کا کام کیا جانا چاہیے۔ داعی کا کام دعوت کی ترسیل ہدایت دینا یا نہ دینا اللہ کی مرضی پر موقوف ہے اس لیے ہمیں حضرت یونس ؑ کی مانند عجلت سے گریز کرنا چاہیے۔ دوسری بات کلمۂ حق کو پیش کرنے کا جہاد ہے۔ بے کم و کاست اپنا واضح موقف رکھنے اور اپنے مخاطب کو اس کی غلطی کا احساس دلانے کی خاطر بھی رابطہ ضروری ہے ۔ تھوڑی بہت غلط فہمی دور بھی ہوجاتی ہے لیکن فی الحال اس سے زیادہ کی توقع کی جائے تو مایوسی ہاتھ لگ سکتی ہے۔

آگے چل اگر حالات بدل جائیں اور سنگھ بھی سرکار کی جانب سے معتوب ہونے لگے جیسا کہ ایمرجنسی کے دوران ہوا تھا تو اس وقت تعاون و اشتراک کا امکان ہو سکتا ہے ۔ اندرا گاندھی کی آمریت کے خلاف ایسا ہوا تھا۔ اس سے قبل کسی خیر کی توقع بظاہر محال ہے مگر اللہ کی مشیت سب کچھ کرسکتی ہے۔ آزادی سے قبل جب ہندو مہا سبھا کمزور تھی تو وہ ملک کے چار صوبوں کے اندر مسلم لیگ کی حکومت میں شامل ہوئی تھی۔ یعنی ہندوتوا نواز جب کمزور ہوتے ہیں تو اپنے مفاد کی خاطر مسلمانوں کے ساتھ اشتراک عمل کی بابت سنجیدہ ہوجاتے ہیں مگر جب انہیں طاقت و قوت حاصل ہوجاتی ہے تو ان کا رویہ بدل جاتا ہے اور رعونت کا مظاہرہ ہونے لگتا ہے۔ عمائدین امت کو اس کا پاس و لحاظ رکھ کر ان سے گفت و شنید کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے اپنی منصبی ذمہ داری ادا کرتے رہنا چاہیے۔ ویسے بغیر کسی خوش فہمی کے امت کا یہ رویہ ہوسکتا ہے کہ ؎
نفرت کی ہر فصیل گرانے کے واسطے
تم اس طرف سے ہاتھ بڑھاؤ ، ادھر سے ہم


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1227328 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.