IMF یا کوئی عفریت

حکومتی حلقوں میں ضرورت سے کچھ زیادہ ہی پریشانی نظر آ رہی ہے۔ IMF کو کچھ یوں پیش کیا جا رہا ہے گویا وہ ایک عفریت ہے جو سب جگہ بگاڑ پیدا کر جائے گی۔سادہ سی بات ہے کوئی عام آدمی بھی کسی کو قرض دینے لگے تو سب سے پہلے یہی دیکھتا ہے کہ قرض لینے والا قرض واپس بھی کر سکتا ہے یا نہیں۔بنک تو قرض ہی اسے دیتے ہیں جس کے اثاثہ جات اتنے ہوتے ہیں کہ اسے قرض کی ضرورت ہی نہیں ہوتی ۔ IMF جو آپ کی ڈوبتی معیشت کو سہارا دے رہا ہے۔ا ٓپ کے بد ترین حالات میں آپ کو ڈالر فراہم کرنے لگا ہے ،ً اسے بھی حق ہے کہ ایسے اقدامات کی یقین دہانی حاصل کرے جس سے ہماری معیشت بھی بہتر ہو اور اس کے پیسے بھی اسے واپس مل سکیں۔اس انداز سے اگر آپ مثبت سوچیں تو پوری قوم کوIMF کا ممنون اور احسان مند ہونا چائیے۔ڈوبتے کو تو تنکے کا بھی سہارا بہت ہوتا ہے۔IMF کو ہمارے ملک میں لوٹ کھسوٹ پر بھی تشویش ہے۔حکمرانوں کا قومی خزانے کو شیر مادر سمجھنا اور بیوروکریسی کا ہر کام میں اپنا ہاتھ دکھاناایک عام روش ہے۔ اسے کنٹرول کرنا IMF کا ایک بڑا ٹارگٹ ہے۔ جو حقیقت میں IMFکا نہیں ہمارا مقصد اولیں ہے اورجس میں کامیابی IMF کا اس قوم پر ایک احسان عظیم ہو گا۔

انرجی سیکٹر میں سرکلر ڈیٹ کا اندازہ ایک ہزار ارب لگایا گیا ہے جس میں سے 600 ارب کنزومر یعنی بجلی استعمال کرنے والوں سے وصول کئے جائیں گے۔ فوری طور پر بجلی کی قیمت میں 7 روپے فی یونٹ اضافہ ہو جائے گا۔ باقی 400 ارب ادارے ادا کریں گے۔ جیسے اگر کوئی ادارہ نا دہندہ ہے تو اس کے شئیر منتقل کرکے یہ کمی پوری کی جائے گی۔ڈالر کو کھلی اڑان کی اجازت دے دی جائے گی۔ ڈالر اس وقت تقریباً280 روپے کے لگ بھگ ہے اگر اسحاق ڈارشروع میں اسے 180 پر لانے کی ناکام کوشش نہ کرتے تو ڈالرامید تھی کہ 220 پر رک جاتا۔ بہر حال امید ہے کہ اب یہ 300 کی حد چھونے کے بعد سبنبھل جائے گا۔
نواز شریف نے اپنے پچھلے دور میں جو بجلی کے پلانٹ لگائے وہ سارے یا تو امپورٹڈ کوئلے پر تھے یا پھر امپورٹڈ گیس RNG پر۔ اس وقت ہماری ٹوٹل امپورٹ کا تیس فیصد کوئلے اور RNG پر خرچ ہو رہا ہے جو قومی خزانے پر ایک مسلسل بوجھ ہے۔ نواز شریف کے پچھلے دور میں شاہد خاقان عباسی نے قطر سے RNG کے معاہدے بڑے اچھے ریٹس پر کئے۔ کووڈ کے دوران تیل کی قیمتیں انتہاہی گر گیئں۔ یہ قیمت بیس ڈالر فی بیرل سے بھی نیچے چلی گئی۔اس وقت RNG کی قیمت بھی بہت کم تھی۔ عمران خان حکومت کے اکابرین نے اس وقت بجائے اس کم قیمت کا فائدہ اٹھانے کے پچھلی حکومت پر الزام لگا دیا کی ان کے معاہدے بہت مہنگے ہیں، مگر خود کوئی معاہدہ نہیں کیا۔ آج ہم مہنگی RNG خریدنے پر مجبور ہیں۔CNG جو ہمارے لئے قدرت کا ایک عطیہ ہے ، اسے لوگوں کو گھروں میں فقط چو لہے جلانے کے لئے دیا گیا تھا۔ مگر لوگوں نے گھر بھر میں درجنوں گیس ہیٹر لگا لئے گیزر اور بہت سی دوسری چیزیں لگا کر گیس کا بے دریغ استعمال کیا۔ مشرف دور میں ہر طرح کی گاڑیوں میں CNG کے استعمال کی اجازت دے دی گئی۔ گیس کا وہ ذخیرہ جو مزید ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ ہماری ضروریات پوری کر سکتا تھا۔ ہم نے اسے چند سالوں میں بری طرح اڑا دیا۔آج IMF کے کہنے پرگیس کے استعمال کو محدود کرنے اور اس کی قیمت میں تیس سے ایک سو بیس فیصد تک بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایک سو پچاس سے زیادہ غیر ضروری اشیا کی نشاندہی کی گئی ہے جن پر سو سے چار سو فیصد ڈیوٹی عائد کی جائے گی۔

میں ذاتی چور پر کچھ نوجوان بیوروکریٹ کو جانتا ہوں کہ جن کی نوکری جس وقت فقط تین چار سال سے زیادہ نہیں تھی اس وقت انہوں نے غیر ممالک میں کروڑوں کی انوسٹمنٹ کی ہوئی تھی ۔ ہم ان سے لاکھ پوچھتے رہیں کہ آپ کے کچھ اثاثہ جات، وہ مانتے ہی نہیں تھے۔ غیر ملک میں سرمایہ کاری کا کچھ پتہ نہیں چل سکتا تھاچنانچہ بیوروکریسی کو لوٹ مار سے روکنا ممکن ہی نہیں تھا۔بیوروکریسی نے آمدن کا ایسا خود کار نظام ڈویلپ کیا ہوا ہے کہ پیسے خو دبخود ان تک پہنچتے ہیں اور ہر بیوروکریٹ اب اس آمدن کو جائز سمجھنے لگا ہے۔ IMF نے گریڈ 17 سے22 تک کے سرکاری افسروں پر اثاثوں ظاہر کرنے کی پابندی عائد کرکے اس خود کار نظام پر کاری ضرب لگائی ہے ۔ اب غیر ممالک میں منتقل شدہ سرمایہ بھی IMF کی نظر سے چھپ نہیں سکے گا۔ یہ اس خود کار نظام کی حرام خوری پر ایک کاری ضرب ہے۔IMF نے مطالبہ کیا ہے کہ درآمدات پر پابندیاں فوری ختم کی جائیں۔ایل سیز کھولنے کے لئے چار ارب ڈالر فراہم کئے جائیں اور زر مبادلہ کے ذخائر کو 30جون تک 16 ارب20 لاکھ ڈالر تک لایا جائے۔بہتری کے حصول کے لئے قربانیاں تو دینا ہی پڑتی ہیں۔ اس سارے کھیل میں قربانیاں اب بھی عوام ہی دے رہے ہیں اس امید کے ساتھ کہ اس ملک کا مستقبل محفوط رہے۔

ایک طرف IMF کے فرمان ہیں، دوسری طرف لاہور ہائی کورٹ نے بجلی پر فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز سمیت دیگر سرچارجز کی وصولی کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔ IMF ہر طرح کی سبسڈی ختم کرنے پر زور دے رہا ہے مگر ہائی کورٹ نے عوام کی بیچارگی دیکھتے ہوئے 500 یونٹس تک سبسڈی دینے کا حکم دے دیا ہے۔انہوں نے بجلی کی بڑھتی قیمتوں کو ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ ٹیرف صارفین کی گنجائش سے زیادہ نہ رکھا جائے۔ یہ صورت حال حکومت کے لئے مزید مشکلات کا باعث ہو گئی ہے۔ دیکھیں اس صورت حال میں کیا فیصلہ ہوتا ہے۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 447271 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More