تحقیق کے کلچر کو فروغ دیں

اس وقت سائنس و ٹیکنالوجی کا کوئی بھی شعبہ اٹھایا جائے تو چین آپ کو صف اول میں نظر آئے گا. اس کی ایک بڑی وجہ ملک میں سائنس دوست رویے ہیں جن کی بنیاد پر حالیہ برسوں میں چین نے اس شعبے میں بے مثال کمالات حاصل کیے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ چین کی سائنس و ٹیکنالوجی نے گزشتہ ایک دہائی میں تاریخ کی کسی بھی دوسری دہائی کے مقابلے میں تیزی سے ترقی کی ہے۔اس عرصے کے دوران سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں چین کی تاریخی پیش رفت "جامع تو ہے ہی" مگر اس کی بدولت آج چین اختراعات کی نمایاں ترین اقوام اور عالمی اختراعی نظام کا اہم ترین حصہ بن چکا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی میں چین کی تیز رفتار ترقی کے پیچھے جو قوت کارفرما ہے وہ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر مسلسل توجہ دینا ہے۔

حالیہ برسوں میں چین نے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ میں اپنی سرمایہ کاری کے حوالے سے کئی اہم سنگ میل عبور کیے ہیں۔ ملک نے سائنسی اور تکنیکی جدت طرازی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئےمستقبل کے لئے ایک جرات مندانہ نقطہ نظر بھی پیش کیا ہے۔چین کے نزدیک ملک کی آئندہ ترقی کے لیے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کا فروغ ، انوویشن کی بنیادی قوت محرکہ ہے اور پالیسی سازی میں جدت طرازی کو قومی ترقیاتی حکمت عملی کے مرکز میں رکھنا ہوگا۔چین کی اعلیٰ قیادت نے اس بات کا اعادہ بھی کیا ہے کہ ملک کو تکنیکی خود انحصاری کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے اور سائنسی اور تکنیکی کامیابیوں کو پیداواری صلاحیت میں تبدیل کرنے میں تیزی لانی چاہئے۔ اس کی عکاسی چینی حکومت کی جانب سے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ ملک کے آر اینڈ ڈی نظام کی کارکردگی کو بڑھانے کی کوششوں سے ہوتی ہے۔

چین کے قومی شماریات بیورو کے مطابق 2020 میں حکومت نے آر اینڈ ڈی میں 441.3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جو جی ڈی پی کا 2.4 فیصد ہے جس میں سال بہ سال 14.2 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔اس اہم سنگ میل نے چین کو امریکہ کے بعد دنیا میں آر اینڈ ڈی پر خرچ کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک بنا دیا ہے۔ نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کی جانب سے شائع کردہ اسٹیٹ آف یو ایس سائنس اینڈ انجینئرنگ 2022 کے مطابق، امریکہ اور چین کا آر اینڈ ڈی سے متعلق عالمی اخراجات میں شیئر بالترتیب 27 فیصد اور 22 فیصد ہے جبکہ دیگر ممالک میں جاپان 7 فیصد، جرمنی 6 فیصد اور جنوبی کوریا 4 فیصد کے ساتھ شامل ہیں۔ چین کی جانب سے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ میں سرمایہ کاری کے نمایاں ثمرات بھی برآمد ہوئے ہیں۔ 2022 میں چین ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن کے گلوبل انوویشن انڈیکس میں ایک درجہ ترقی کے ساتھ 11 ویں نمبر پر آ چکا ہے۔ چین یہ کارنامہ سر انجام دینے والا واحد ترقی پزیر ملک ہے جبکہ بقیہ ٹاپ فہرست میں ترقی یافتہ ممالک کا غلبہ ہے۔بنیادی تحقیق اور تزویراتی سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی میں چین کی کامیابیوں کو بیان کرنے کے لیے حالیہ خلائی مشنز ، گہرے سمندر کی کھوج اور کوانٹم کمپیوٹنگ کی مثالیں دنیا کے سامنے ہیں۔

سائنس و ٹیکنالوجی کے انتظامی نظام میں اصلاحات گزشتہ دہائی میں چین کے لیے ایک اہم کام رہا ہے، کیونکہ چینی صدر شی جن پھنگ نے خود ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے سائنس اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے بے شمار ادارہ جاتی اصلاحات کی تجاویز اور اہم ہدایات جاری کی ہیں۔ اس ضمن میں چین نے سائنس ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے کاروباری اداروں کی طاقت کو بھی بھرپور طریقے سے استعمال کرنے میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔قابل زکر امر یہ ہے کہ آر اینڈ ڈی کے حوالے سے مجموعی سرمایہ کاری کا تقریباً تین چوتھائی کاروباری اداروں نے فراہم کیا ہے۔ مختلف انٹرپرائزز نے قومی نوعیت کے 79 فیصد اہم تحقیقی منصوبوں میں حصہ لیا ہے اور مالی معاونت فراہم کی ہے۔

ملک نے تاریخ میں پہلی بار سائنس ٹیک ایڈوائزری اور اخلاقیات کے لیے قومی کمیٹیاں بھی تشکیل دی ہیں۔سائنس و ٹیکنالوجی کے نئے نظام نے سائنسدانوں کو پیچیدہ اور غیر ضروری سرخ فیتے سے آزاد کرنے کے لیے بجٹ اور تحقیقی سمت پر مزید کنٹرول بھی دیا ہے۔تاہم، اس قدر ترقی کے باوجود چین یہ سمجھتا ہے کہ مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔چینی قیادت کوشش کر رہی ہے کہ اس نظام میں اصلاحات کے ذریعے کچھ دیرینہ مسائل کو حل کیا جائے اور صحیح سمت میں آگے بڑھتے ہوئے نہ صرف چینی عوام بلکہ دنیا بھر کے عوام کو سائنس و ٹیکنالوجی کے نئے ثمرات سے مستفید کیا جائے۔
 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 962 Articles with 413685 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More