گورنر خیبر پختونخواہ غلام عل کا صحافیوں کو مشورہ اور توند والے صحافی


گورنر خیبر پختونخواہ غلام علی کھلے ڈھلے طبعیت کے آدمی ہیں پشاور پریس کلب کے بیشتر صحافیوں سے ذاتی تعلقات ہیں پارٹی معاملات کو الگ رکھنے کی انکی عادت ہے اسی باعث بیشتر صحافیوں سے ہر وقت رابطے میں رہتے ہیں ایک زمانے میں ناظم رہے ، زیرو سے سٹارٹ لینے والے غلام علی سیاست کے میدان کے ماہر بھی ہیں کچھ عرصہ قبل انہوں نے کھیلوں کے میدان میں بھی وقت گزارا جس کے باعث عدالتوں کے چکر بھی کاٹتے رہے .یہ ایک لمبی داستان ہے وہ پھر کبھی سہی لیکن انہوں نے ایک ہفتہ قبل پشاور پریس کلب میں آکر چند مخصوص صحافیوں کو مخاطب ہو کر کہا تھا کہ آپ بھی کھیلا کریں ورنہ پھر چلنے پھرنے سے بھی رہ جاﺅ گے یہ باتیں انہوں نے پشاور پریس کلب میں صحافیوں کو زلمی میڈیا لیگ کی کٹس دینے کی تقریب سے خطاب میں کیں. جس پر بہت سارے صحافیوں کی ہنسی بھی نکل گئی کیونکہ اپنا بڑھا ہوا پیٹ بہت کم لوگوںکو نظر آتا ہے.

گورنر سے کٹس لینے کے بعد زلمی میڈیا لیگ کی ٹیموں کے میچوں کا اعلان ہوا ، اس موقع پر راقم جیسے باریش بھی متعدد نظر آئے جو اپنے آپ کو ابھی تک "زلمی "یعنی جوان سمجھتے ہیں ، ویسے انسان کی یہی فطرت ہے کہ ستر سال کے کو زلمی کہہ کر پکارا جائے تو بہت خوش ہوتا ہے اسی طرح اگر کسی نوجوان کو بابا کہہ کر پکارا جائے تو بھی برا مان جاتے ہیںجس طرح آج کل خواتین انٹی کہہ کر بلانے پر برانگیختہ ہو جاتی ہیں.خیر . اسلامیہ کالج پشاور کے گراﺅنڈ پر زلمی کی جانب سے منعقدہ افتتاحی تقریب میں یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ گورنر خیبر پختونخواہ اس معاملے میں غلط ہوگئے ہیں کہ انہوں نے صرف دو یا تین صحافیوں کے نام لئے کہ وہ موٹے ہورہے ہیں یہاں آکر پتہ چلا کہ پیٹ بیشتر صحافیوں کا نکلا ہوا ہے ، کوئی ایک یا دو نہیں بلکہ متعدد صحافی ایسے ہیں جن کے پیٹ دیکھ کر حیرانگی ہوتی ہیں کہ یہ غریب نما ز کیلئے وضو کیسے کرتے ہونگے.

صحافیوں کو ملنے والے کٹس یا تو ایکسٹر لارج ہیں یا پھر انتہائی چھوٹے ، اتنے چھوٹے کہ ہمارے ایک صحافی دوست اس دن چھوئی موئی بن کر ہر ایک سے کتراتے تھے کیونکہ انہوں نے اتنی ٹائٹ کٹس پہن رکھی تھی کہ باولنگ کے ماہر ہونے کے باوجود بھی اس صحافی نے اپنی ٹیم کیساتھ باولنگ نہیں کی نہ ہی زیادہ بھاگ دوڑ کی کیونکہ یہ صحافی بھی بڑی عجیب مخلوق ہے کیونکہ جس چیز پر لوگ شرمندگی یا غصہ کرتے ہیں اسی کو ٹارگٹ کرتے ہیں اور ہمارے اس صحافی دوست کو راقم سمیت سب نے اتنا تنگ کیا کہ غریب جا کر ایک سائیڈ پر کرسی پر بیٹھ گیا اور اس دن کھیل میں زیادہ حصہ بھی نہیں لیا. اپنے آپ کو زلمی یعنی جوان سمجھنے والے ہمارے صحافیوں میں ایسے بھی ہیں جو اپنے آپ کو عمران خان یا وسیم اکرم جیسا باولر یا پھر جاوید میانداد لیول کا کرکٹر سمجھتے ہیں .یہ الگ بات کہ ایک دن کرکٹ ٹورنامنٹ میں کھیلنے کے بعد تین دن پریس کلب میں ملنے کے بعد یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ بھائی جسم بہت درد کررہا ہے اس لئے پونسٹان کی گولیاں کھا رہا ہوں.

زلمی کے پہلے دن کے میچ میں ہمارے ایک صحافی دوست نے چارسدہ وال چپلیاں پہن رکھی تھی اور اس میں انہوں نے باولنگ بھی کی ، یہ الگ بات کہ یہ چارسدہ وال چپلیاں متعدد افراد نے الگ الگ پہنی یعنی ایک صحافی سے بوٹ لیکر اسے چارسدہ وال چپلیاں دی اور کرکٹ کھیلی اور پھر میچ کے بعد وہی چپلیاں دوسرے کو واپس کرکے بوٹ میں کھیلے یہ بھی ایک عجیب تجربہ ہے . ہم ویسے ہی مفت میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو لتاڑتے رہتے ہیں کہ ان کی کھیلوں میں کھلاڑی مختلف شوز پہن کرآتے ہیں حالانکہ پھر بھی وہ شوز ہوتے ہیں کم از صحافیوں کی طرح چارسدہ وال چپلیاں تو نہی پہنتے.انڈر گارمنٹس پہننے کا رواج تو اب شائد سپورٹس سے وابستہ بیشتر کھلاڑی اب ترک کر چکے ہیں لیکن اس معاملے میں صحافی بہت ہوشیار ہیں کہ بعض نے عام کپڑوں کے اوپر ٹراﺅزر اورشرٹ پہن کر کھیل میں حصہ لیا.جبکہ بعض ایسے علاقوں سے تعلق رکھتے تھے جہاں پر ٹراﺅزر اور شرٹ پہننا شائد معیوب سمجھا جاتا ہے اسی باعث اسی دن بیشتر صحافی شاپرز میںاپنے ساتھ کٹس لیکر آئے تھے جو انہوں نے کپڑوں کے اوپر پہن لئے اور کرکٹ مقابلوں میں حصہ لیا.

زلمی میڈیا لیگ میں حصہ لینے والی ٹیموں کے ممبران کی تعداد اٹھارہ رکھی گئی تھی راقم کا نام جس ٹیم میں آیا تھا اس میں تعداد چونکہ پوری ہوگئی تھی اسی باعث رضاکارانہ طورپر ہم پیچھے ہٹ گئے کہ ہمیں غم روزگار نے اتنا بھگا دیا ہے کہ اب ایک بال کے پیچھے بھاگنے کی ہمت بھی نہیں . .کپتان نے معذرت کی کہ چونکہ ناک آﺅٹ سسٹم ہے اس لئے ہمیںٹیم پر توجہ دینے کی ضرورت ہے سو اس پر ایک اور دوست بھی پیچھے ہٹ گئے زلمی کے میچ کے دوران پتہ چلا کہ بعض صحافی مفت میں اپنا کیرئیر صحافت میں خراب کررہے ہیں اگر وہ کھیلوں کے میدان میں آجائیں تو شائد صحافت کی طرح کرکٹ کے میدان میں چوکے چھکے ماریں لیکن شائد وہ یا تو اپنے ٹیلنٹ سے باخبر نہیں یا پھر انکی صحافت سے دلی وابستگی ہے.تبھی وہ صحافت کو کیرئیر بنائے ہوئے ہیں.سو راقم نے اسلامیہ کالج میں بننے والے ہاکی ٹرف کی حالت پر سٹوری کرلی. جو 150ملین روپے سے غیر معیاری بنائی گئی اور ایک سال میں اس کا بیڑہ غرق کردیا گیا.راقم کی ٹیم اس دن مقابلہ جیت گئی تھی تبھی رات کو ٹیم کے بیشتر افراد نمک منڈی پہنچ گئے تھے اور راقم یہاں بھی گھر میں "پالک ساگ "کے پیچھے گھر چلا گیا ویسے جو مزا پالک ساگ اور انڈے کے مکسچر کا ہے وہ نمک منڈی کے گوشت میں کہاں.

زلمی میڈیا لیگ کے دوسرے دن میچز جاری تھے اور پشاور پریس کلب کے بیشتر صحافی اسلامیہ کالج پشاور یونیورسٹی میں موجود تھے کہ اس دن پشاور پولیس لائن کے مسجد میں دھماکہ ہوا اورصحافی میچ چھوڑ کر پشاور یونیورسٹی سے شہر کی طرف بھاگنے لگے کہ حادثہ کی کوریج کرنی بھی تھی اور زلمی میڈیا لیگ کو آرگنائزر کرنے والے جو ٹورنامنٹ کو تین دن میں ختم کرانے کے خواہشمند تھے صحافیوںکے یوں بھاگ کر آنے پر حیران بھی ہوئے لیکن یہ صحافی اچھے بھلے میچز کو چھوڑ کر دھماکے کی طرف بھاگ رہے ہیں .ہمیں اس دن صحافیوں کی عقلمندی کا پتہ چلا جنہوں نے کپڑوں پر ٹراوزر پہن کر کرکٹ کھیل رہے تھے دھماکے کا سن کر صحافی گراﺅنڈ میں ہی ٹراوزر اتار کر کپڑ وں میں بھاگنا شروع کردیا کہ کوریج بھی ضروری ہے.تبھی ہمیں اندازہ بھی ہوا کہ بیشتر صحافیوں کی پیٹ کیوں نکلے ہوئے ہیں کیونکہ نہ تو ان کے کھانے کا پتہ اور نہ ہی ان کے کھیل کا پتہ ، تبھی تو ہمارے بعض صحافی دوستوں کی توندیں نکلی ہوئی ہیں جنہیں کنٹرول کرنا ان کے بس میں بھی اب نہیںرہا . اورتین دن کے مقابلوں سے یہ توندیں ختم ہونے والے بھی نہیں..
#zalmi #media #league #sports #sportsnews #kpk #kp #peshawar #sportsnews #mojo #mojosports

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 422095 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More