اسلامیہ کالج ، غیر معیاری ہاکی گراﺅنڈکی ابتر صورتحال


22 ستمبر 2021کو وزیراعلی خیبر پختونخواہ نے سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کے زیر انتظام کھیلوں کے ایک ہزار سہولیات منصوبے میں اسلامیہ کالج پشاور یونیورسٹی کے گراﺅنڈ میں ہاکی کے گراﺅنڈ کا افتتاح کیا جس پر کم و بیش 150 ملین روپے کی لاگت آئی تھی وزیراعلی محمود خان اسی وزارت کے وزیر بھی تھے یعنی وزیر کھیل کی حیثیت سے انہوں نے اسلامیہ کالج پشاور کے ہاکی ٹرف کا افتتاح کیا ، اسی کالج میں محمود خان نے بطور ہاکی کے کھلاڑی کے وقت بھی گزارا تھا اور اپنی وابستگی کی بناءپر انہوں نے یہاں پر آسٹرو ٹرف کے بنانے کی منظوری دی تھی.تاریخی اسلامیہ کالج کے گراﺅنڈ میں بننے والے اس ہاکی کے آسٹرو ٹرف پر دسمبر 2021 میں صرف ایک میچ کروایا گیا جوکہ کے پی ہاکی لیگ کا تھا اور اس کے بعد اس گراﺅنڈ پر خاموشی چھا گئی کم و بیش ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا ابھی تک کوئی بھی قومی اور بین الاقوامی میچ یہاں پر نہیں ہوا اور نہ ہی مستقبل میں ہونے کا امکان ہے کیونکہ..

شیرشاہ روڈ کنارے بننے والے اس آسٹرو ٹرف کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ، بس محمو د خان کی خواہش تھی اسی خواہش کے پیش نظر اس وقت کے پراجیکٹ ڈائریکٹر نے منظوری لی اور منصوبہ تیار کروایا لیکن یہ نہیں دیکھ سکے کہ سڑک کنارے بننے والے اس آسٹرو ٹرف سے شیرشاہ سوری روڈکا سارا گند اور ملبہ سمیت اسلامیہ کالج کے درختوں کے پتے بھی گر رہے ہیں جو نہ صرف گراﺅنڈ کو بلکہ ٹرف کو بھی مسلسل متاثر کررہے ہیں جبکہ دوسری طرف صورتحال یہی ہے کہ اس گراﺅنڈ کیلئے اسلامیہ کالج پشاور کے پاس پانی کی سہولت ہی نہیں اور کے پی ہاکی لیگ میں ہونیوالے پہلے میچ کے دوران کھلاڑی بالٹیوں میں پانی لیکر ڈالتے رہے تاکہ انہیں بھاگنے میں اور بال کو لے جانے میں آسانی رہے حالانکہ اس میں فوار ے بھی ہیں لیکن ی سب کچھ تصاویر کی حد تک ٹھیک ہے اور کچھ بھی نہیں.

کھیلوں کی ایک ہزار منصوبے کے پراجیکٹ ڈائریکٹر جو ایک نیم سرکاری ادارے سے ڈیپوٹیشن پر لائے گئے تھے انہیں کتابیں بیچنے کا تجربہ تو بہت تھا لیکن انہیں یہ سمجھ نہیں تھی کہ آسٹرو ٹرف کیلئے بنیادی ضرورت پانی ہوتی ہے اسی طرح صفائی سمیت معیاری کام بھی ضروری ہے تاکہ عوامی ٹیکسوں کے کروڑوں روپے جو ان کا خون چوس کر ان سے ٹیکسوں کی مد میں لئے جاتے ہیں انہیں صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے لیکن نہ جانے کیوں نہ صرف پراجیکٹ ڈائریکٹر نے اس معاملے پر آنکھیں بند رکھیں بلکہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے انجنیئرنگ ونگ نے بھی مکمل طور پر خاموشی اختیار کرلی.چلیں یہاں تو بات ٹھیک ہے لیکن اس تاریخی اسلامیہ کالج جو اب یونیورسٹی کی حیثیت اختیار کر چکی ہے کے سپورٹس سے وابستہ افراد بھی اس وقت منہ میں مینگنیاں یا شائد نسوار ڈالے بیٹھے تھے کہ انہوں نے عوامی ٹیکسوں کے پیسوں کے ضیاع سمیت میٹریل اور معیاری کام پر توجہ نہیں دی اور اب صورتحال یہی ہے کہ ...

کم و بیش چار دن قبل 150 ملین روپے کی لاگت سے بننے والے ہاکی کے آسٹرو ٹرف میں ڈرل لگا کر ٹرف کو کاٹ کر کنٹریکٹر کے ملازمین یہ جانچنے کی کوشش کررہے ہیں کہ کنٹریکٹر نے کتنی بھرائی کی، ان کا موقف ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنی رپورٹ جمع کروائیں گے تبھی انہیں پیمنٹ ملنے کا امکان ہے.

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کنٹریکٹر نے کیا اس وقت آنکھیں بند کرکے بھرائی کی تھی کیا اس کے پاس کوئی معلومات نہیں جو اب اس گراﺅنڈ کو کاٹ کرکے اس کو چیک کیا جارہا ہے ایک ایسے گراﺅنڈ کو جو تعمیر کے وقت ہی متنازعہ تھی کیونکہ متعدد جگہوں پر یہ ٹرف اپنی جگہ سے اٹھی ہوئی تھی جبکہ جو ٹرف ڈالا گیااس پر بھی اعتراضات کئے گئے .لیکن ان اعتراضات پر پر آنکھیں بند کردی گئی . سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے اپنی تعمیرات کی چیکنگ کیلئے ایک الگ انجنیئرنگ ونگ قائم کی ہے جس کا بنیادی کام نہ صرف تعمیرات کے معیار کو چیک کرنا بلکہ معیاری بنانے کی حتی الوسیع کوشش کرنا بھی ہے لیکن اس معاملے میں نہ جانے کیوں وہ خاموش رہے بلکہ انہوں نے تو اس بات پر بھی اعتراض نہیں کیا کہ ہاکی کے آسٹرو ٹرف کا ٹھیکہ کس طرح دو کنٹریکٹر کو دیا گیا کیونکہ ہاکی ٹرف کی انسٹالیشن ایک کنٹریکٹر کے پاس تھی تو اس کے سول ورک کا ٹھیکہ کسی اور کے پاس تھا جس کا حال اب یہ ہے کہ ایک سال گزرنے کے بعد سول ورک متعدد جگہ پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ، جس کا مشاہدہ چارسدہ کے عبدالولی خان سپورٹس کمپلیکس سمیت اسلامیہ کالج پشاور سمیت بنوں و ڈی آئی خان کے ٹرف کا وزٹ کرکے دیکھا جاسکتا ہے.کہ کس طرح عوامی ٹیکسوں کے کروڑوں روپے اڑائے گئے اور ابھی تک اس پر خاموشی ہیں.

سوال یہ بھی ہے کہ سیاستدانوں اور نااہل بیورو کریٹس کے مستیوں کی سزا کھیلوں کے میدان میں کیوں عوا م بھگتیں .تبدیلی والی سرکار اب تو بڑے دعو ے کرتی ہیں کہ انہوں نے صوبے میں ہاکی کے آسٹرو ٹرف کے جال بچھا دئیے ہیں اور انہیں اپنا اعزاز قرار دیتی ہیں لیکن کبھی انہوں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان غیر معیاری آسٹر وٹرف کا معیار کس نے گرایا ، کیسی ادائیگیاں کی گئی کیسے ایک سال میں صرف اسلامیہ کالج کے ٹرف کا یہ حال ہوا اس کی ذمہ داری کون لے گا اس معاملے میں تبدیلی والی سرکار سارا ملبہ بیورو کریٹس پر ڈالنے کی کوشش کرے گی اور بیورو کریٹس سب کچھ سابق حکمرانوں کے کھاتوں میں ڈالے گی .جو کسی حد تک حقیقت بھی ہے کہ یہ تحقیقات کی جائے کہ کس کے کہنے پر ایسے غیر معیاری منصوبے من پسند کنٹریکٹر کو دئیے گئے جنہوں نے کام بھی غیر معیاری کیا اور ابھی ایک سال گزرنے کے بعد نہ صرف اسلامیہ کالج کے آسٹرو ٹرف کا سمیت سول ورک کا برا حال ہے بلکہ عبدالولی خان سپورٹس کمپلیکس کی سول ورک بھی ابتری کی طرف جارہی ہیں .

کوئی تو خدا واسطے اس معاملےپر غور کریں کہ صرف گراﺅنڈ وں کی تعمیر نہیں بلکہ معیاری گراﺅنڈز کی تعمیر ضروری ہے اسی کے ساتھ ان معاملات میں کرپشن کی روک تھام کیلئے خواہ وہ کوئی بھی ہواس کی روک تھام کیلئے کوششیں کی جائیں تبھی صورتحال بہتر ہوسکتی ہے ورنہ دوسری صورت میں "مہنگائی "مہنگائی کا رونا رونے والی خیبر پختوا ہ کے عوام اگر احتساب کرنے پر آئی تو کیا بیورو کریٹس اور کیا سیاستدان سب کا بیژہ غرق کردے گی
#kikxnow #digitalcreator #islamia #hockey #ground #peshawar , #kpk #kp
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 422138 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More