میرا باپ دنداسہ بیچتا ہے تو کیا ہوا، دنداسہ فروخت کرنے والے باپ کی بیٹی کا ایسا کارنامہ کہ سب کا سر فخر سے بلند کر دیا

image
 
کوٹلی آزاد کشمیر پاکستان کا کوٹلی ضلع میں واقع ایک چھوٹا سا شہر ہے جس کے مکین سب ہی ایک دوسرے سے واقف ہیں۔ دریائے پونچھ کے کنارے آباد یہ شہر اپنی خوبصورت آبشاروں کے سبب مشہور ہے اور دور دور سے لوگ اس شہر کی خوبصورتی کو انجوائے کرنے آتے ہیں-
 
کوٹلی کے سکڑے والے شاہ جی
اس چھوٹے سے شہر میں جہاں پر لوگ ایک دوسرے سے واقف ہیں یہاں کے رہنے والے سکڑے والے شاہ جی کو بھی بہت اچھی طرح جانتے ہیں جو کہ اپنے شاعرانہ انداز میں ہاتھوں میں سکڑے (دنداسہ) تھامے اسے فروخت کرتے نظر آتے ہیں-
 
سکڑے یا دنداسہ کوٹلی میں موجود اخروٹ کے درختوں کی چھال سے بنایا جاتا ہے اور اس علاقے کی خصوصی سوغات سمجھی جاتی ہے جس کو یہاں سیاحت کے لیے آنے والے لوگ بہت شوق سے خریدتے ہیں-
 
شاہ جی کا منفرد انداز
عام سکڑے بیچنے والوں میں سید اکبر گیلانی جن کو سکڑے والا شاہ جی کہا جاتا ہے اس وجہ سے منفرد شہرت کے حامل ہیں کہ وہ دنداسہ فروخت کرنے کے لیے عام انداز کے بجائے خاص شاعرانہ انداز استعمال کرتے ہیں-
 
image
 
نظم کی صورت میں سکڑے کے فوائد بیان کرتے ہوئے شاہ جی گلی گلی گھوم کر لوگوں میں سکڑے فروخت کرتے ہیں-
 
شاہ جی کی قابل فخر بیٹی
بظاہر تو دیکھنے والے کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایک گلی گلی دنداسہ بیچنے والے کے بچے بھی اسی کی طرح سے تعلیم سے نابلد ہوں گے- مگر سید اکبر گیلانی کی بیٹی سیدہ ثنا اکبر نے ریفا انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد سے ڈاکٹر آف ‌فزيوتھراپسٹ کی ڈگری امتیازی نمبروں سے حاصل کر کے نہ صرف اپنے والد کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے- بلکہ لوگوں کے اس خیال کی بھی نفی کر دی ہے کہ غریب گھر سے تعلق رکھنے والوں کے بچوں کو اور خصوصا لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں ہوتا ہے-
 
 
ایک مثال
سید اکبر گیلانی ان تمام افراد کے لیے ایک مثال ہیں جو کہ کمزور معاشی حالات کے سبب بیٹیوں کی تعلیم کو ترجیح نہیں دیتے ہیں یا پھر بچوں کی تعلیم کو اہمیت نہیں دیتے ہیں- مگر شاہ جی نے نہ صرف اپنی بیٹی کو اعلیٰ تعلیم دلوائی بلکہ اپنے پیشے یعنی دنداسہ بیچنے کے پیشے کو بھی ایک منفرد انداز میں پیش کر کے اس کام کو مثال بنا دیا-
YOU MAY ALSO LIKE: