نشہ غازی ، ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس کا میلہ اور صاحبان کا پسندیدہ مولوی



وقت ، واقعات اور مفادات کیساتھ ہر چیز تبدیل ہوتی رہتی ہیں ، ایک مذہبی جماعت جن کے رہنما جوآج سے پانچ دہائی قبل افغانستان لے جانیوالے افراد کو جہاد ی سمجھتے اور واپس آنیوالوں کو غازی ، آج انہی کے زیرانتظام کام کرنے والا ایک غیر سرکاری ادارہ "نشے " کے علاج کرنے والوں کو "غازی "سمجھتا اور لکھتا ہے ، اور صوبائی دارالحکومت پشاور میں اس کے ریہیبلٹیشن سنٹرز میں نشہ کا علاج کرنے والوں کیلئے غازی سمجھتا ہے ، کیونکہ اس وقت امریکی اور برطانوی امداد ڈالروں میں آتی تھی اور انہی ملتی تھی اور آج ان نشیوں کے علاج کیلئے فنڈز مل رہے ہیں تبھی آج نشے والے بھی غازی ہیں ، یہ وقت ، واقعات اور مفادات کا چکر ہے جس میں آنکھیں بند کرکے ، شعور اور ذہن کے دروازوں پر پہرے لگا کر وہی کرنا اور کہنا پڑتا ہے جو سرکار کو اچھا لگے کیونکہ سرکار کے کرسی پر بیٹھے "عوامی ٹیکسوں پر پلنے والے" بھی تو اپنے آپ کو "زمین پر " خدا"سمجھتے ہیں اور اس زمین پر بیٹھے ان "خدائوں"کو خوش بھی تو کرنا پڑتا ہے.

ہمیں نشی افراد جو اب حکومت کی نظر میں غازی ہیں سے لینا دینا کچھ نہیں ، کیونکہ ایک پراجیکٹ میں انتظامیہ نے مختلف علاقوں میں سینکڑوں نشئی افراد کو اٹھایا ان کا علاج کروایا ، ان پر اخراجات کئے بہت اچھی بات ہے کہ ان افراد کو معاشرے کیلئے کار آمد بنایا جائے لیکن سوال یہ ہے کہ ان نشی افراد کے ساتھ ساتھ نشہ فراہم کرنے والے افراد کے خلاف کیا اقدامات اٹھائے گئے ، کیا کھلے عام اسی پشاور شہرمیں ریل کی پٹڑیوں پرآئس ، گلیوں میں چرس نہیں بک رہی ، ان نشیوں سوری ، غازیوں کیلئے آسمان سے تو منشیات نہیں آرہی تھی بلکہ اسی شہر میں ہی مل رہی تھی اور ملتی رہے گی ان کے خلاف انتظامیہ نے کیا اقدامات کئے ، اس بارے میں جواب کسی کے پاس بھی نہیں ، اگر انتظامیہ طلب کیساتھ ساتھ رسد کرنے والوں کے خلاف بھی کچھ کرسکتی تو بہت بہتر ہوتا ہے اور مستقبل میں نشہ کرنے والوں کی تعداد کم ہوتی لیکن شائد پھر اس طرح کے منصوبے نہیں چل سکتے..

خیر ہم تو یہی کہیں گے سہاگن وہی جسے پیا من چاہے ، ضلعی انتظامیہ نشہ کرنے والوں میں کسی کو غازی قرار دے یامجاہد ، یہ ان کا اپنا معاملہ ہے ہم شاہ طہماس فٹ بال سٹیڈیم پشاور میں ان نشہ کرکے علاج کرنے والے افراد کے مقابلوں پر حیران ہیں جس میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی ایک کوچ نے اپنے سکول میں جہاں پر وہ تعینات ہیں کی بارہ اور تیرہ سال کی بچیاں ثقافتی شو کے نام پر ڈانس کیلئے بلوائی تھی اور گورنمنٹ سکول کے بچوں کو انہی علاج کرکے آنیوالے افراد کے مقابلوں کو دیکھنے کیلئے بلایا گیا تھا .عجیب منطق ہے کہ جن سکول کے بچوں کو میدان میں مقابلوں کیلئے ہونا چاہئیے تھاکیونکہ یہ آنیوالے کل کا مستقبل ہیں انہیں نشہ کرکے علاج کرنے والوں کا مقابلہ دیکھنے کیلئے طلب کیا گیا تھا . یہ بھی ضلعی انتظامیہ کا کریڈٹ ہے کہ پہلی مرتبہ ان مقابلوں میں حصہ لینے والے "غازیوں" کو کٹ اور سپورٹس شوز یکساں طور پر دئیے گئے حالانکہ اگر ان"غازیوں" کو ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں روزگار دیا جائے ، کیونکہ سرکار کی نظر میں ان "غازیوں" میں بیشتر وہی ہیں جنہوں نے بیروزگاری اور حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے نشے کا سہارا لیا اگر ان کے کھیلوں کے مقابلوں کے بجائے انہیں کچھ رقم دی جائے ان کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کئے جاتے تو پھر یقینا بہتر ہوتا لیکن.

اگر ڈسٹرکٹ سپورٹس آفسر اور ریجنل سپورٹس آفسران سمیت ضلعی انتظامیہ اگر سپورٹس کے نام پر میلے کا اہتمام نہ کرتی تو پھر ان میںرضاکاروں کو کیسے کٹس اور شوز ملتے ، کیسے ضلعی انتظامیہ کی افسران کی واہ واہ ہوتی کیسے انہیں شیلڈز ملتے، اسی میلے کی آڑ میں تو بہت کچھ ہوا اور بہت کچھ ہوگا یہ الگ بات کہ پشاور کے ریجنل سپورٹس آفس اور ڈی ایس او کا بنیادی کام ٹیلنٹ کی تلاش اور کھیلوں کے میدان میں لانا ہے لیکن وہ نشے کے علاج سے جان چھڑانے والوں کو بھی " ٹیلنٹ "سمجھتے ہیں اور اسی " ٹیلنٹ" کو نکھارنے اور آگے لانے میں بھی انکی واہ واہ او ر پروموشن بھی ہوتی ہیں تبھی تو وہ سکول کی بارہ سال کی بچیوں سے ڈانس اور سکول کے طلباء کو میدان میں لانے کے بجائے انہیں تماشائیو ں کے طور پر لاتی ہیں.اب مستقبل کا اللہ کوپتہ ہے کہ ان سکول کے بچوں میں کتنے ان"غازیوں"کو دیکھ کر انہیں آئیڈیل ما ن کر ان جیسا بننے کی کوشش نہیں کرینگے. لیکن ہم اپنے آنیوالے مستقبل کیساتھ کیسا "کھلواڑ "کررہے ہیں یہ وہ سوال ہیں جو عوامی ٹیکسوں پر پلنے والے " سرکاری افسران" کو سوچنے کی ضرورت ہے.

سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ ڈائریکٹریٹ نے اگلے ایک سال کیلئے پانچ کروڑ روپے سے زائد پر این جی او کو پروموشن کا ٹھیکہ " آپریشنز"کرنے والے شخصیت کے دوست کو دیا ہے جنہیں نہ براڈکاسٹ کا تجربہ ہے نہ ہی سوشل میڈیا کا اور نہ ہی پرنٹ کا ، لیکن انہیں تجربہ ہے صاحب لوگوں کے آگے پیچھے ہونے کا ، اس لئے تو صرف تصاویر لیکر ڈی آئی خان سے لیکر پشاور تک سب پروگرام چلائے جارہے ہیں تاکہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اوررنگ بھی چوکا آئے والا حساب ہے جبکہ حساب تو یہ ہے کہ سینتیس کروڑ روپے کے انٹر یونیورسٹی کے مقابلوں میں پچیس کروڑ صوبے کے سرکاری بینک نے سپانسر کی مد میں دئیے ہیں لیکن اسی بینک کے پاس ملازمین کو دینے کیلئے تنخواہیں نہیں تبھی تو حیات آباد کے ڈیلی ویج ملازمین تین ماہ سے تنخواہوں کیلئے خوار ہیں .

خوار ہونے پر یاد آیا کہ ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس پشاور ڈائریکٹریٹ سے بھی آگے کی چیز ہے کیونکہ ڈائریکٹریٹ میں مسجد کے پیش امام کو ایماندار افسران ڈیلی ویج ملازم سمجھ کرخوار کرتی ہیں انہیں پچیس ہزار ماہانہ ملتا ہے اور ہر سال انہیں بھی دیگر کلاس فور ملازمین کی طرح نکالا جاتا ہے اور پھر نئی فہرست میں شامل کیا جاتا ہے حیران کن بات یہ ہے کہ ڈائریکٹریٹ میں پیش امام کیلئے کوئی رہائشی جگہ نہیں ، البتہ شاہ طہماس سٹیڈیم فٹ بال میں مسجد کا پیش امام مستقل ہے انہیں انتظامیہ نے مسجد کے بجائے پورا کمرہ الاٹ کیا گیا ہے جو گذشتہ کئی سالوں سے استعمال کررہا ہے اور چوبیس گھنٹے رہائش پذیر ہوتے ہیں جبکہ ان کے مقامی کالج میں صبح پڑھنے والے طالب علم بیٹے کو ڈیلی ویجز ملازمین کی فہرست میں شامل کرکے مستقل ملازمین کا انچارج بنا دیا گیا ہے ڈائریکٹریٹ اور ڈی ایس او آفس میں پیش اماموں میں فرق شائد اسی وجہ سے ہے کہ ایک طرف کا پیش امام مسجد میں"اللہ کی رضا "کی بات کرتا ہے اور دوسرے مسجد کا پیش امام ہر دعا میں " صاحب اور صاحبہ کی بہتری کیلئے دعاگو"ہوتا ہے تبھی ان دونوں پر پالیسی مختلف ہے.ہاں کبھی کبھار مستقل ملازمین کاانچارج " ملازمین " کی مخبری اور چغلی بھی کھا لیتا ہے اس لئے وہ بھی گڈ بک میں شامل ہیں. اور گڈ بک میں شامل افراد زیادہ تر "کار خاص"ہوتے ہیں ، انشاء اللہ اگلا بلاگ "کار خاص پر"

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 422126 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More