انٹرنیٹ سے مدد لی نہ ٹیوشن لی، کچی دیواروں والے گھر میں خاص طریقے سے پڑھنے والا بچہ جو میڈیکل کالج تک جا پہنچا

image
 
ہمارے ملک کی آدھی آبادی آج بھی اپنے بچوں کے حوالے سے یہی خواب دیکھتی ہے کہ ان کا بچہ بڑا ہو کر ڈاکٹر انجینئير یا پھر فوج میں جائے گا۔ زیادہ تر کم پڑھے لکھے لوگوں کو یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ ڈگریاں ایسی ڈگریاں ہوتی ہیں جو ان کے بچوں کو محفوظ روزگار فراہم کر سکتی ہیں اور ان کے مستقبل کو محفوظ کر سکتی ہیں-
 
یہی وجہ ہے کہ جو والدین افورڈ کر سکتے ہیں وہ اپنے بچوں کو بڑے نامور انگلش میڈیم اسکولوں میں بھاری فیسیں دے کر پڑھاتے ہیں جس کے ساتھ ساتھ مہںگی ٹیوشن کا بھی بندوبست کیا جاتا ہے تاکہ بچہ اچھی پرسنٹیج لے سکے اور اس کے بعد پروفیشنل کالج کی سیٹ حاصل کر سکے-
 
غریب مگر ذہین بچے بھی کامیاب ہو سکتے ہیں
ان تمام کوششوں کے باوجود ذہانت کسی ایک طبقے کی میراث نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات وسائل کی کمی کے باوجود غریب بچے بھی ایسی مثال قائم کر دیتے ہیں جو کہ ان جیسے باقی تمام بچوں کے لیے ایک مثال بن جاتے ہیں-
 
image
 
ایسا ہی ایک طالب علم عبداللہ آفریدی بھی ہے جس کا تعلق کے پی کے کے ایک مضافاتی گاؤں سے ہے۔ اس بچے کی غربت کا اندازہ اس کے کچے مکان کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے جو کہ آج کے دور میں بھی سیمنٹ کے بجاۓ کچی مٹی سے لیپا ہوا ہے-
 
عبداللہ آفریدی جس کا شوق ڈاکٹر بننا تھا انٹر میں امتیازی نمبر کے حصول کے بعد اس کے لیے ایم ڈی کیٹ کے امتحان میں کامیاب ہونا لازم تھا- مگر اس کے والدین اس کو نہ تو اس امتحان کی تیاری کے لیے کسی مہنگے انسٹیٹیوٹ میں داخل کروا سکتے تھے اور نہ ہی ان امتحانات کی تیاری کے لیے انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کی سہولت فراہم کر سکتے تھے-
 
امتحان کی تیاری کے لیے منفرد طریقہ
انسان کو اگر شوق ہو تو راستے بھی وہ خود ہی تلاش کر لیتا ہے ایسا ہی کچھ عبداللہ آفریدی نے بھی کیا جس نے امتحانات کی تیاری کے لیے نوٹس بنانے کے لیے کسی جدید طریقے سے مدد لینے کے بجائے اپنی کچی دیواروں کا استعمال کیا- جس پر اس نے بڑے بڑے کاغذوں پر اپنے ہاتھ سے اہم نوٹس تیار کر کے ان دیواروں پر چپکا دیا تاکہ اس کی نظر بار بار ان نکات پر پڑتی رہے اور وہ ان کو یاد کر سکے-
 
image
 
اپنی محنت کا صلہ
محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی ہے ایسا ہی کچھ عبداللہ آفریدی کے ساتھ بھی ہوا منفرد انداز سے امتحانات کی تیاری کے بعد جب عبداللہ ایم ڈی کیٹ کے امتحانات میں شرکت کی تو اس کے نتائج نے سب کو ہی حیران کر دیا کیوں کہ ان امتحانات میں 176 نمبر حاصل کر کے نہ صرف نمایاں پوزیشن حاصل کی بلکہ میڈیکل کالج کی نشست کے لیے میرٹ پر منتخب ہو گیا-
 
عبداللہ جیسے بچے ان تمام بچوں کے لیے ایک مثال ہے جو وسائل کی کمی کا رونا تو روتے ہیں مگر ان وسائل کی کمی کو اپنی محنت سے کرنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں- عبداللہ کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے اللہ عبداللہ آفریدی کو آئندہ آنے والی زندگی میں بھی بہت کامیابیوں سے نوازے-
YOU MAY ALSO LIKE: