مالِ ذات و اعمالِ ذات کی اختیاری جہنم !!

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالمطففین ، اٰیت 1 تا 17 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ویل للمطففین 1
الذین اذااکتالوا علی الناس
یستوفون 2 واذا کالوھم او وزنوھم
یخسرون 3 الا یظن اولٰئک انھم مبعوثون 4
لیوم عظیم 5 یوم یقوم الناس لرب العٰلمین 6 کلآ
ان کتٰب الفجار لفی سجین 7 وما ادرٰک ما سجین 8 کتٰب
مرقوم 9 ویل یومئذ للمکذبین 10 الذین یکذبون بیوم الدین 11
وما یکذب بهٖ الا کل معتد اثیم 12 اذا تتلٰی علیه اٰیٰتنا قال اساطیر
الاولین 13 کلا بل ران علٰی قلوبہم ما کانوا یکسبون 14 کلآ انھم عن
ربھم یومئذ لمحجوبون 15 ثم انھم لصالواالجحیم 16 ثم یقال ھٰذاالذی
کنتم بهٖ تکذبون 17 کلآ ان کتٰب الابرار لفی علین 18 وما ادرٰک ما علیون 19
کتٰب مرقوم 20 یشھده المقربون 21 ان الابرار لفی نعیم 22 علی الارٰئک ینظرون 23
تعرف فی وجوھہم نظرة النعیم 24 یسقون من رحیق مختوم 25 ختٰمهٗ مسک و فی ذٰلک
فلیتنا فس المتنٰفسون 26 و مزاجهٗ من تسنیم 27 عینا یشرب بھاالمقربون 28 ان الذین اجرموا
کانوا من الذین اٰمنوا یضحکون 29 واذا مروبھم یتغامزون 30 واذا انقلبوا الٰی اھلھم انقلبوا فکھین
31 واذا رواھم ان ھٰؤلآء لضالون 32 وما ارسلوا علیھم حٰفظین 33 فالیوم الذین اٰمنوا من الکفار یضحکون
34 علی الارٰئک ینظرون 35 ھل ثوب الکفار ما کانوا یفعلون 36
مالِ ذات کے اُن حریص اور اعمالِ ذات کے اُن حریف انسانوں کے لیئے خرابی ہی خرابی ہے جو یومِ حساب و مالکِ یومِ حساب کے مُنکر ہو کر اپنے بیچے ہوۓ مال کے بدلے میں رقم تو پُوری لیتے ہیں لیکن اُس رقم کے بدلے میں مال پُورا نہیں دیتے تو ہمارے اِس تحریری قانون کے مطابق موت کے بعد اُن بد کار انسانوں کا ٹھکانا وہ مقامِ سجین ہے جو یومِ حساب اور یومِ جزا و سزا کے سارے مُنکروں کا ایک اجتماعی قید خانہ ہے ، زمین کے یہ وہی مُنکر و مُتکبر انسان ہیں جو اپنی حد سے اتنے آگے نکل جاتے ہیں کہ جب بھی اُن کو ہمارے اَحکامِ نازلہ سناۓ جاتے ہیں تو وہ اپنے زنگ آلُود دل کی زنگ آلُودگی کی بنا پر اُن اَحکام کو افسانہ ماضی کہہ کر اُن کا انکار کر دیتے ہیں اور یہ وہ بد بخت انسان ہیں جو قیامت کے دن اپنے اِس انکار و استکبار کے باعث اپنے خالق و مالک کا سامنا نہیں کر سکیں گے بخلاف اِس کے جو انسان مالِ ذات کے حریص اور اعمالِ ذات کے حریف نہیں ہوں گے تو ہمارے اِس تحریری قانون کے مطابق اُن کا مقام علیین ہو گا جس کا ہمارے مُقرب نمائندے اِس خیال سے مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ اُس کو اُن انسانوں کے لیۓ زیادہ سے زیادہ آراستہ کیا جاتا رہے جو اللہ کے اَحکامِ نازلہ کے عامل بن کر اِس مقام تک آئیں گے اور اِس مقام کے ہر انعام کے مالک و مُختار بنا دیئے جائیں گے اور اِن انسانوں کے یہاں پر پُہنچتے ہی اِن کے چہروں پر اِس بنا پر ایک تازہ تازگی آجاۓ گی کہ اُس روز پہلی بار ہمارے وہ مُقرب نمائندے ہمارے اُن مُقربین کے لیئے وہ سر بمُہر چشمہِ حیات کھولیں گے اور پہلی بار اُن کو اُس شفاف چشمے کا وہ شفاف مشروب پلائیں گے جس سے اِن کی اُس تازہ حیات میں اُس جنت کی تازگی آجاۓ گی جو جنت اُن کی اِس عارضی دُنیا کے بعد اُن کی اُس دائمی عُقبٰی کا ایک دائمی ٹھکانا ہوگی اور جس وقت وہ اہلِ جنت اُس جنت میں اپنے تختِ عزت پر بیٹھ کر اُس جنت کی اُن نعمتوں سے مُستفید ہو رہے ہوں گے تو حق و اہلِ حق وہ مُنکر بھی اُن کو دیکھ رہے ہوں گے جو دُنیا میں اِن کا مَضحکہ اُڑانے کے لیۓ ایک دُوسرے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں اُن کے بارے میں استہزایہ اشارے کیا کرتے تھے لیکن اُس روز اُن کو یقین ہو جائے گا کہ آج ہر اَچھے انسان کو اُس کے اَچھے عمل کا اور ہر بُرے انسان کو اُس کے بُرے عمل کا پُورا پُورا بدلہ مل گیا ہے مگر اُس روز اُس روز کی اُن کی یہ تصدیق اُن کے کسی کام نہیں آئے گی !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اللہ تعالٰی نے اپنی اِس دُنیا کا نظام انسان کے زَر کمانے اور زَر بچانے کے اصول پر قائم نہیں کیا ہے بلکہ اُس نے اپنی اِس دُنیا کا یہ نظام تبادلہِ زَر و مال کے اِس اصول پر قائم کیا ہے کہ جو انسان جو زَر کمائے وہ انسان اپنے اُس زَر کو انسانی معاشرے کے اُس دُوسرے انسان تک بھی پُہنچائے جو دُوسرا انسان اُس کو اُس کے اُس زَر کے بدلے میں وہ سہولت بہم پُہنچاۓ جو سہولت اُس کے کھانے پینے اور اُس کے پہننے اور اوڑھنے کے لیۓ کام آئے ، اِس اصولِ حیات کا پہلا مقصد اہلِ دُنیا کو اپنے اُس اجتماعی نظامِ حیات کا پابند بنانا ہے جس اجتماعی نظامِ حیات میں انسانی معاشرے کا جو انسان جو مال و زَر کماتا ہے اُس کا وہ مال و زَر اُس انسانی معاشرے کے ہر ایک انسان کے ہاتھ سے گزر کر ہر ایک انسان کے ہاتھ تک جاتا ہے جس سے انسان کا انسان کے ساتھ باہمی ضرورت و باہمی اعتماد کا وہ تعلق قائم ہو جاتا ہے جس تعلق کی بنا پر زمین کا ہر ایک انسان زمین کے ہر ایک انسان کے ساتھ مُنسلک ہو کر رہتا ہے جس کے بعد وہ انسانی معاشرہ اللہ وحدهٗ لاشریک کی وہ مخلوق بن کر سامنے آتا ہے جس مخلوق کی عملی زندگی اُس کی توحید کے تابع ہوتی ہے اور زمین پر جب تک جس معاشرے میں لین کا یہ موَحدانہ اصول قائم رہتا ہے تب تک زمین کا وہ انسانی معاشرہ خُداۓ واحد کی شفقت و پناہ میں رہتا ہے اور جس انسانی معاشرے میں یہ اصول ختم ہو جاتا ہے وہ انسانی معاشرے شیطان کے قبضے میں چلاجاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ معاشرہ سزاۓ جہنم کا مُستحق ہوجاتا ہے اور اِس اصولِ حیات کا دُوسرا مقصد انسان کو اِس اَمر کی تعلیم دینا ہے کہ جس طرح انسانی حیات کا انسانی حیات کے ساتھ مال کا تعلق ایک اَمرِ لازم ہے اسی طرح انسانی حیات کا اپنے خالق کے ساتھ اَمرِ حیات کا تعلق بھی ایک اَمرِ لازم ہے اور جس طرح کماۓ گئے مال کے بغیر انسان کا انسان کے ساتھ تعلق قائم نہیں رہتا اسی طرح انسان کے کیئے گئے مُثبت اعمال کے بغیر بھی انسان کا اپنے خالق کے ساتھ تعلق قائم نہیں رہتا اور جہاں تک اُن انسانی اعمال کا تعلق ہے تو اُن اعمال سے وہ تسبیح و مناجات مُراد نہیں ہیں جو ابلہی خانقاہوں میں ہوتی ہیں بلکہ اُن اعمال سے مُراد فقط یہ ایک نُکتہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے انسان کو اپنی کتاب میں جن اعمالِ حیات کی اَنجام دہی کا حُکم دیا ہے وہ تا حیات اُن ہی اعمال کو انجام دے اور اِس کتابِ میں اُس کو جن اعمال سے منع کیا گیا ہے وہ تا حیات اُن اعمال سے اجتناب کرتا رہے ، اِس کتابِ نازلہ کے اَحکامِ نازلہ کے مطابق جو انسان اپنے خالق کے ساتھ اپنے خالق کے عائد کردہ اعمال کے اِس تعلق کو قائم رکھتا ہے وہ اُس کی اُس جنت کا مُستحق ہوتا ہے جس جنت کی وہ نعمتیں اور وہ برکتیں دُنیا سے آخرت تک انسان کے ساتھ جاتی ہیں جن کا اِس سُورت کے آخری حصے میں ذکر کیا گیا ہے اور جو انسان اللہ کے اِس حُکم و اتباعِ حُکم کے اِس تعلق کو توڑ دیتا ہے تو وہ انسان اُس کی اُس جہنم کا حق دار ہوتا ہے جس جہنم کی وہ ذلتیں بھی دُنیا سے آخرت تک انسان کے ساتھ جاتی ہیں جن ذلتوں کا اِس سُورت کے اُسی آخری حصے میں ذکر کیا گیا ہے جس آخری حصے میں جنت و اہلِ جنت کا ذکر کیا گیا ہے ، اِس سُورت کا موضوعِ سُخن زَرکمانے اور اُس زَر کو پُورے انسانی معاشرے تک پھیلانے کا وہی اصول ہے جس کا ہم نے سطورِ بالا میں ذکر کیا ہے اور اِس سُورت کے آغاز میں اِس اصول کے اُن حریف اور مال و زر کے اُن حریص انسانوں کا ذکر کیا گیا ہے جو اپنے بکنے والے مال کے خریدار سے اپنے بیچے ہوۓ اُس مال کی رقم تو پُوری لے لیتے ہیں لیکن اُس رقم کے بدلے میں جو پیمائشی مال دیتے ہیں تو اُس کی پیمائش میں کمی کردیتے ہیں اور تول کا جو مال تول کر دیتے ہیں تو اُس کے تول میں بھی کمی کر دیتے ہیں اور چونکہ دُنیا کی بیشتر قومیں ناپ تول کے اسی جرم کی بنا پر صفحہِ ہستی سے مٹائی گئی ہیں اِس لیئے قُرآن نے یہ خبردار کیا ہے کہ دُنیا و آخرت میں اُس انسان کے لیئے خرابی ہی خرابی ہے جو انسان لین دین کرتے ہوئے ناپ یا تول میں کمی کر کے انسانی معاشرے کو تباہ کرتا ہے اور قُرآن کی رُو سے اُس انسان کو موت کے بعد جو سزا ملنی ہے وہ تو ملنی ہی ملنی ہے لیکن اُس کو اِس دُنیا میں ملنے والی ایک سزا یہ بھی ہے کہ جس انسانی معاشرے میں ناپ اور تول میں کمی کا یہ ناپسندیدہ کام ہوتا ہے اور اُس کام کو اُس معاشرے کے اہلِ معاشرہ قبول بھی کرلیتے ہیں تو وہ معاشرہ زمین سے مٹا دیا جاتا ہے اور جب تک وہ معاشرہ زمین پر قائم رکھا جاتا ہے تو صرف اِس غرض کے لیئے قائم رکھا جاتا ہے تاکہ اُن لوگوں کو دُنیا میں خاطر خواہ سزا مل جائے جو اُس معاشرے کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کرنے کے بجائے خُدا کی طرف سے آنے والی کسی ناگہانی سزا کا انتظار کرتے رہتے ہیں !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 467800 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More