جشن عید میلادالنبیﷺ اور ہماری خون چوستی کہانی!

اے نبیﷺ! مسلمانوں سے کہہ دیجئے کہ اگر تمہیں اپنے باپ‘اپنے بیٹے‘ اپنے بھائی‘ اپنی بیویوں‘ اپنے خاندان اور وہ اموال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس کے کم ہونے سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے گھر جو تمہیں پسند ہیں؛ اللہ‘اس کے رسول ﷺاور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا امر لے آئے۔

ربیع الاول شریف وہ مبارک مہینہ ہے جس میں سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کائنات آب و گل میں ظہور فرمایاحضور اکرمﷺ کی تشریف آوری سے ہی ہمیں ایمان کی دولت نصیب ہو ئی۔ محبت اگر قرابت داری کی بنیاد پر ہو تو ”طبعی محبت“کہلاتی ہے اور اگر کسی کے جمال و کمال یا احسان کی وجہ سے ہو تو ”عقلی محبت“کہلاتی ہے اور اگر یہ محبت مذہب کے رشتے کی بنیاد پر ہو تو”روحانی محبت“ یا ”ایمان کی محبت“کہلاتی ہے۔ رسول اللہﷺ کے ساتھ”محبت ِ طبعی“بھی ہے‘عقلی بھی ہے اور روحانی بھی۔محبت کے اسباب میں سے ایک سبب کمال بھی ہے اور جمال بھی‘خواہ یہ ظاہری ہو یا باطنی۔ آپ کا کمال و جمال ظاہری بھیہے اور باطنی بھی۔ شکل و صورت میں بھی آپ سب سے حسین ہیں‘ جیسا کہ حضرت جابر نے فرمایا ہے کہ:کان مثل الشمس و القمر۔آپ ﷺکا چہرہ آفتاب اور ماہتاب جیساہے۔

آپ کے باطنی جمال و کمال کا کیا کہنا‘ آپ کو اللہ تعالیٰ نے خاتم النّبیین‘ سید المرسلین‘ امام الاوّلین و الآخرین اور رحمتہ للعالمین بنا کر اِس دُنیا میں بھیجا۔ آپ کے احسانات اُمت پر بے حد و حساب ہیں‘ بلکہ آپ محسن انسانیت ہیں۔ صاحبِ جمال و کمال کے ساتھ محبت رکھنا اور محبت کا ہونا بھی لازمی امر ہے۔ تاریخ میں بہت سے لوگ اپنے کمالات کی وجہ سے مشہور ہوئے۔تمام انبیاء (ع) میں جو جو خوبیاں ہیں، وہ تمام کی تمام رسول خدا کی ذات مقدس میں ہیں۔
بقول شاعر:
حسن یوسف، دم عیسٰی‘ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند‘ تو تنہا داری!

رسول خدا ﷺکے ساتھ سچی محبت کے کچھ تقاضے ہیں‘جن میں سے کچھ تو ایسے امور ہیں جنہیں بجا لانا ضروری ہے اور کچھ ایسے ہیں کہ جن سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔کیا عجیب جفاء ہے کہ ہماراکوئی بھی کام ان کے طریقہ کا نہیں‘ وہ جو محشر میں بھی اس اُمت کو یاد کریں گے‘ یہ امت روشن خیالی میں انہیں ہی بھول گئی۔اتباعِ سنت اور اطاعتِ رسول ﷺصرف چند عبادات تک محدود نہیں بلکہ یہ اطاعتِ رسول ﷺساری کی ساری زندگی پر محیط ہے۔ شادی بیاہ‘ خوشی و غمی ہر موقع پر اتباع سنت ضروری ہے۔ دشمن کے خلاف جہاد ہو یا حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا معاملہ ہو‘سنت رسول ﷺہر جگہ جاری و ساری ہونی چاہئے۔لیکن افسوس صد افسوس کے ہم نے راستہ ہی الگ چن لیا‘ ہمارے معاشرتی‘ معاشی‘ رسم و رواج‘ تہذیب سب غیروں کے‘ اتنے عظیم دستور کے ہوتے‘ ہم غیروں کے بنائے اصولوں پر انصاف کے دعویدارہیں‘ہم غیروں کے طریقے سے اسلامی ملک میں سودی نظام سے معاشی نظام درست کر رہے‘ جب کہ یہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ جنگ ہے۔ ہم سب مجرم ہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا:عشق قاتل سے‘ مقتول سے ہمدردی بھی‘یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟سجدہ خائق کو‘ ابلیس سے یارانہ بھی‘ حشر میں کس سے عقیدت کاصلہ مانگے گا؟

اُمت اسلامیہ کو آج علمی پیشرفت کی ضرورت ہے‘اللہ تعالی کی ذات پر مکمل اطمینان رکھنے کی ضرورت ہے۔ آپس میں صحت مند روابط اور اخلاق حسنہ کی ضرورت ہے۔ ہمیں آپس میں برادرانہ رویہ اختیار کرنا چاہئے‘ چشم پوشی اور درگزر سے کام لینا چاہئے۔ ان تمام خصوصیات کا بھرپور آئینہ پیغمبر اکرم ﷺکی ذات ہے۔ آپ کا علم‘آپ کا حلم‘آپ کی چشم پوشی‘آپ کی رحمدلی‘کمزور طبقے کے لئے آپ کی شفقت‘معاشرے کے تمام افراد کے حوالے سے آپ کا عدل و انصاف‘ان تمام خصوصیات کا مجسمہ پیغمبر اکرم ﷺکی شخصیت ہے۔ ہمیں پیغمبر ﷺسے درس لینا چاہئے‘ہمیں ان خصوصیات اور صفات کی ضرورت ہے۔یہ سب ہمارے لئے درس ہیں۔ اس کے بعد مدنی معاشرہ تشکیل پایا۔ آپﷺ نے دس سال سے زیادہ حکومت نہیں کی‘ لیکن ایسی عظیم عمارت تعمیر کر دی کہ صدیاں گزر گئیں مگر علم و دانش میں‘ تہذیب و تمدن میں‘روحانی ارتقاء میں‘اخلاقی کمالات میں اور دولت و ثروت میں انسانیت کا نقطہ عروج آج بھی وہی معاشرہ ہے۔ وہی معاشرہ جس کا خاکہ پیغمبر ﷺاسلام نے کھینچا اور جس کی داغ بیل آپ کے دست مبارک سے پڑی۔

ربیع الاوّل نبی برحق ختم رسل حبیب کبریا محمد مصطفی ﷺکی ولادت باسعادت کا مہینہ ہونے کی وجہ سے پوری بشریت کے لیے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں آپ کو رحمۃ للعالمین اور نذیر للعالمین قرار دیا ہے۔ آپ اللہ کی طرف سے نوع انسانی کے لیے دُنیا و آخرت کی کامیابی کا پیغام لے کر آئے۔

رسول اسلام کی ابتدائی زندگی‘خاندانی پس منظر‘ گھریلو زندگی‘ جدوجہد‘ انتہائی مشکلات کا زمانہ‘ہجرت‘ جنگیں‘دیگر اقوام سے معاہدے‘عالمی دعوت‘ انفرادی اور اجتماعی اخلاق‘ سیاسی و معاشی تعلیمات کے اصول۔ غرض آپ کی زندگی کے تمام گوشے اور آپﷺ کی رسالت کے تمام پہلو آج بھی روز روشن کی طرح تمام انسانیت کے لیے مشعل راہ ہیں۔ آپ کی زندگی اور سیرت پر جتنا تحریری کام موجود ہے‘ دُنیا کے کسی اور پر موجود نہیں ہے۔ آپ کی تعلیمات میں فطری سادگی ہے۔ یہی سادگی اور حسن آپ کی سیرت میں بھی جلوہ گر ہے۔ آپ کی تعلیمات کی سادگی کا یہ عالم ہے کہ ایک نو عمر مسلمان بچے سے بھی ان کے بارے میں پوچھا جائے تو نہ فقط وہ اس کی بنیادی باتوں سے آگاہ ہوتا ہے بلکہ وہ انھیں آسانی سے بیان بھی کر سکتا ہے۔ مثلاً توحید پرستی‘ آخرت پر ایمان‘ نیک لوگوں کا نیک انجام اور بروں کا برا انجام‘ ہمسائے کے دکھ سکھ میں شرکت‘کمزور اور مظلوم کی مدد‘غریب و محروم انسانوں کی دست گیری‘سچائی‘ پاکبازی‘حسن ظن‘غیبت سے اجتناب‘کوشش اور سعی کی اہمیت‘خالص اللہ کی عبادت‘ تمام کام اللہ کی رضا کے لیے کرنا‘ امر بالمعروف‘نہی عن المنکر‘ظالم سے نفرت‘انسانی مساوات۔ویسے بھی یہ تعلیمات اپنی فطری صداقت کی وجہ سے ایسی قوت رکھتی ہیں کہ تعصب کے پردے حائل نہ ہوں۔آپ نے غلاموں کو آزادی کا پیغام دیا اور غلام آزاد کرنے کے عمل کو اللہ کی عبادت قرار دے دیا اور آپ نے اپنے ہاتھوں سے جوتوں کو سیا اور پیوند لگا لباس پہنا۔

جشن عید میلاد النبی ﷺکے موقع پر ہمیں اسوہ رسولﷺ کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ 12ربیع الاول کے جلسے جلوس میں ہمیں اتحاد‘ اتفاق‘ پیار‘ محبت اور یکجہتی کو اجاگر کرنا چاہئے۔ آج ہمیں اپنے نبی ﷺ کی اتباع کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں معاشی‘ اخلاقی‘ تہذیبی بدترین زوال کا شکار ہیں۔اس کی بنیادی وجہ اسوہ حسنہ سے دوری‘ اور غیروں کی پیروی ہے۔ اتباع رسولﷺسے دوری کے باعث ہمسب وسائل کے ہوتے بھی رسواہیں اور یقیناً ہم نے اگر آج بھی اپنا قبلہ درست نہ کیا تو بروز محشر بھی انہیں کے ساتھ اٹھائیں جائیں گے جن کی ہم پیروی کر رہے ہیں۔اُمتی اللہ کے حبیب ﷺکے‘ غلام غیروں کے‘ یہ ہے ہماری خون چوستی کہانی!
 

Abid Zameer
About the Author: Abid Zameer Read More Articles by Abid Zameer: 185 Articles with 142338 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.