ہڈیاں ہماری کھال آپ کی٬ پہلے شرارت پر مرغا تک بنایا جاتا تھا لیکن اس ٹیچر کی سزا سب پر بھاری

image
 
نوے کی دہائی کے بچے جب اسکول میں داخلہ لیتے تھے تو والدین استاد کے ہاتھ میں اس کا ہاتھ دیتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ہڈياں ہماری کھال آپ کی، اس کو انسان بنا دیں اس کے لیے آپ جتنی سختی کرنا چاہیں آپ کو اجازت ہے ہم شکایت لے کر نہیں آئيں گے۔
 
استاد کا مولا بخش
کلاس میں جب جاتے تھے استاد جی کی کرسی کے ساتھ ہی ایک بید کی لکڑی پڑی ہوتی تھی جس کے اوپر سرخ رنگ کی ٹیپ چڑھی ہوتی تھی اور معمولی غلطی پر استاد ہاتھ پر بید لگانے سے شروعات کرتے تھے اور جس کے بعد زيادہ غصے کی صورت میں یہ بید کولہے کی خبر لیتے تھے اور ایسی جگہ پر اس مہارت سے لگائے جاتے تھے کہ نشان تو نہیں ہوتا تھا مگر دو دن تک اٹھتے بیٹتھے یہ ڈنڈے اپنی یاد دلاتے رہتے تھے۔
 
مرغا بننا بھی ایک سزا تھی
جو استاد مارنے پر یقین نہ رکھتے تھے وہ مرغا بنوا دیا کرتے تھے جس کے لیے ٹانگوں کے نیچے سے ہاتھ لے جا کر جب کان پکڑے جاتے تو انسان بالکل ایک مرغا کی طرح کی شکل اختیار کر لیتا یہ سزا بظاہر بہت آسان مگر کچھ ہی دیر میں شدید اذیت ناک ہو جاتی تھی-
 
اٹھک بیٹھک
ویسے تو یہ اسٹیمنا بنانے کے لیے بہت بہترین ورزش ہے مگر جب استاد اس کو کرواتے تھے تو اس کی تعداد دس سے شروع ہو کر سو تک چلی جاتی تھی اور سو اٹھک بیٹھک کرنے کے بعد سیدھا چلنا ناممکن ہوتا تھا۔ درد جسم کے کس کس حصے سے پھوٹتا تھا بیان کرنے کی ہمت کسی کو نہ ہوتی تھی-
 
image
 
جسمانی سزاؤں پر پابندی
اگرچہ مغرب میں تو بچے کو جسمانی سزا دینے پر بہت پہلے سے پابندی تھی مگر اب ہمارے ملک میں بھی گزشتہ کچھ سالوں سے بچوں کو جسمانی سزا دینا قانونی طور پر جرم ہے بلکہ اس جرم کو کرنے پر جیل بھی جانا پڑ سکتا ہے- یہی وجہ ہے کہ آج کل کے استاد بچوں کو ہاتھ لگانے سے یا سزا دینے سے قبل سو بار سوچتے ہیں-
 
آج کل کے دور میں سزا دینے کا طریقہ
ایک اچھا استاد بچے کو سکھانے کے لیے مختلف طریقے استعمال کر سکتا ہے اور جب کوئی کوشش خلوص سے کی جائے تو اس کا اثر لازمی ہوتا ہے-
 
حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر ایک بچے کی اور اس کی استانی کی ویڈيو بہت وائرل ہو رہی ہے- نرسری کلاس کے اس معصوم بچے کو شرارتوں سے روکنے اور تربیت کے لیے استانی نے ایک انوکھی سزا دی جس نے دیکھنے والوں کو بہت متاثر کیا-
 
اس استانی نے بچے کو کسی قسم کی جسمانی سزا دینے کے بجائے اس سے بات کرنا چھوڑ دیا جس نے اس بچے پر اتنا اثر کیا کہ وہ استانی کی منتیں کر کے معافی مانگنے لگا کہ وہ آئندہ شرارت نہیں کرے گا اس کی استانی اس کو معاف کردیں۔
 
اس کے بعد اس معصوم بچے نے اپنی استانی کو منانے کے لیے اس کو منہ پر کئی بار پیار بھی کیا تاکہ اس کی استانی اس کو معاف کردے اور آخرکار اس بچے کو استانی نے اپنی بانہوں میں لے کر نہ صرف معاف کر دیا بلکہ اس کے چہرے پر پیار بھی کر لیا۔ جس کے بعد بچہ خوش ہو گیا۔
 
بچوں سے پیار کریں
یہ ویڈيو انڈیا کے آنند پور اچاریہ اسکول کی ہے۔ اور اس بچے کا نام اطہر ہے جو نرسری کلاس کا بچہ ہے۔ اس کی ٹیچر کا یہ کہنا ہے کہ وہ گزشتہ ایک سال سے اسکول میں پڑھا رہی ہیں اور ان کا یہ ماننا ہے کہ آج کل کے دور کے بچے سزا سے زيادہ پیار سے زيادہ متاثر ہوتے ہیں-
 
 
اس ویڈيو کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ ویڈیو کسی منصوبہ بندی کے بغیر بنائی گئی تھی اس دن اسکول میں ایکٹیوٹی ڈے تھا جس میں بچے شرارتیں کرتے ہیں تو اطہر بھی بہت شرارتیں کر رہا تھا تو انہوں نے اطہر کو مار پیٹ کی سزا دینے کے بجائے اس سے بات کرنا بند کر دی-
 
ان کی اس سزا نے اطہر کو بہت شرمندہ کر دیا اور اس نے ان کو منانے کے لیے رونا شروع کر دیا۔ عام طور پر ایکٹیوٹی والے دن یہ لوگ بچوں کی ویڈيوز بناتے ہیں تاکہ ان کے والدین کے ساتھ شئير کی جاتی ہیں تاکہ وہ اپنے بچوں کے حوالے سے آگاہ رہ سکیں تو یہ ویڈيو بھی انہی ویڈيوز میں سے ایک ویڈيو تھی جو گروپ میں شئير کی گئی-
 
جہاں سے یہ ویڈيو سوشل میڈيا پر شئير ہوئی اور وائرل ہو گئی۔ تاہم ان کا یہ کہنا تھا کہ ان کی دی گئی سزا نے اطہر پر بہت مثبت اثر مرتب کیا اور پیار محبت سے وہ اطہر سے اپنی بات منوانے میں کامیاب ہوئیں بچے کی اس سزا نے ہمیں ملنے والی سزائيں یاد دلا دیں-
 
بچے کی اس سزا نے سب دل جلوں کو وہ ڈنڈے اور مرغا بننا یاد دلا دیا جس کا سامنا ان کو اپنے اسکول کے زمانے میں کرنا پڑا تھا اور بے ساختہ سب یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ کاش ہم بھی اس زمانے میں پیدا ہوتے-
YOU MAY ALSO LIKE: