تمہارے دل کیوں نہیں پسیج رہے!

ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ : نبی کریم ﷺ کے دور میں جب مضر قبیلہ میں فاقہ کشی اور مصیبتوں نے ڈیرہ ڈال لیا تھا تو نبی مکرم ﷺ بے چین ہوگئے تھے ۔ آپﷺ نے صحابہ کرام کو تاکید فرمائی کہ ان کی مدد کریں ۔لیکن جب اشیاء خوردونوش کے سامان کے دوڈھیر اکٹھے ہوگئے تو آپ ﷺ کے چہرے کی رونق لو ٹ آئی تھی ۔ قارئین کرام جب اﷲ نارا ض ہوتا ہے تو دولت بخیلوں کو دے دیتا ہے ۔ حکمرانی نا اہل اور نکمے لوگوں کے پاس چلی جاتی ہے ۔ بارشیں بے وقت ہوتی ہیں ۔ قومیں داخلی سطح پر تقسیم کا شکار ہوتی ہیں ۔ دلیلوں کی جگہ تاویلیں لے لیتی ہیں۔ سچ کی جگہ جھوٹ کا بول بالا ہوجاتا ہے۔ میزان تباہ اور ناانصافی لپیٹ لیتی ہے۔ فتنے اور وبائیں پھوٹنے لگتی ہیں ۔ ایمان کمزور اور غیر حق کو خدا مانا جانے لگتا ہے ۔ ذخیرہ اندوزی قحط کی صور ت برسنے لگتی ہے ۔ انسانی زندگی حقیر اور اﷲ کی نعمتوں کا ضیاع بے دریغ ہونے لگتا ہے ۔ طاقت چالاک اور مکار لوگوں کے پاس چلی جاتی ہے۔ یہ سب عناصر اﷲ کے بھیجے گئے کتے ہوتے ہیں، جو بھٹکنے والوں کو دوبارہ ایک کر سیدھے راستے پر لاتے ہیں ۔ اور اس کا انکار کرنے والوں کا انجام تاریخ میں عبرت کی صورت رقم ہوتا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ کیا خوب فرماتے ہیں :اﷲ قادرہے اس بات پر کہ وہ تم پر عذاب نازل کرے تمہارے پاؤں کے نیچے سے اور تم پر آسمان سے مینہ برسا کر، یا یہ کہ تمہیں آپس میں لڑ وا کر ایک دوسرے کی طاقت کا مزہ چکھائے۔ کل بروز محشر ہم سے سوال کیا جائے گا کہ کیاتمہیں ڈرانے والا ہم نے نہ بھیجا تھا؟۔

آج پاکستان 70%سے زائد سیلاب کی زد میں ہے۔ کتنے ایکڑ وں پر فصلیں ، سبزیاں ،باغات رہائشی گھر سب کے سب سیلاب میں بہہ گئے ہیں ۔ بلوچستان میں تحریک اﷲ اکبر کے فلڈریلیف کیمپ میں کام کرنے والے ایک دوست سعداﷲ خان نے بتایا کہ ڈیرہ مرا د جمالی، لسبیلہ ، کوئٹہ ، صحبت پور ، جعفر آباد میں کوئی خشک زمین نہیں بچی ۔ لو گ سڑکوں پر چادر وں اور چار پائیوں کے ٹینٹ بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ تحریک ﷲ اکبر کے کیمپ بلوچستان سے ایک اور دوست نے ویڈ یو پیغام میں بتایا کہ تاحد نظر نگاہ پانی ہی پانی ہے ۔ ایک نا معلوم مقام پر پہنچے تو بہت دور کچھ ہیولے نظر آئے ۔ ہم نے سوچا ہمیں وہاں چل کر دیکھنا چاہیے ۔ خشکی پرکھڑے تھے تو پانی کی گہرائی کا اندازہ نہیں ہورہا تھا۔ لیکن جب گاڑی پانی میں ڈالی تو روڈ میں بڑے کھڈے میں پھنس گئی ۔ گاڑی آگے نہ جاسکی ۔ پھر ہم دوستوں نے پیدل جانے کا فیصلہ کیا ۔ جیسے جیسے چلتے گئے ویسے ویسے پانی کی گہرائی بڑھتی گئی ۔ پھر ہمیں تیرنا پڑا ۔ تقریبا دن کا چوتھا حصہ کی مسافت کبھی پیدل کہیں تیر کر طے کرنے کے بعد ہم ایک خشکی پر پہنچے ۔وہاں چھ خاندان کے لوگ پھنسے ہوئے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ آپ پہلے لوگ ہو جو یہاں پہنچے ہیں ورنہ ہم یہاں 7دن سے پھنسے ہوئے ہیں اور کوئی مد د کے لیے نہیں آیا ۔ 4دن ہوگئے ہم نے کھانا نہیں کھایا ۔ عورتوں کے کپڑے نہیں تھے۔ جو تھے وہ جگہ جگہ سے پھٹ رہے تھے ۔ ہم نے ان کو نکالا ۔ ان میں سے 3بچے تیز بخار میں تپ رہے تھے ۔ انہیں ریسکیوکرتے ہوئے ہمیں 1دن سے زیادہ کا وقت لگا ۔ اس وقت بلوچستان میں حافظ طلحہ سعید اور عبدالرؤف صاحب ، حافظ سیف اﷲ خالد اور تحریک اﷲ اکبر کی قیادت بذات خود موجود ہے۔ بلوچستان بھر میں 4خیمے بستیا ں اور ہر بستی میں 200گھر شامل ہیں قائم کی جا چکی ہیں۔ لوگوں کی مالی امداد دی جا رہی ہے ۔ 10000ہزار سے زائد گھروں کو راشن کے تھیلے تقسیم کیے گئے ہیں ۔ 3لاکھ افراد کا کھانا روزانہ کی بنیاد پر پکا کر تقسیم کیاجارہا ہے۔ مچھ اور کول پور کے اضلاع کم متاثر ہوئے ہیں ۔مواصلاتی نظام تباہ ہو چکا ہے۔ایک انداز ے کے مطابق بلوچستان بھر میں اس وقت 30لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہوئے ہیں ۔

تونسہ شہر کا مکمل انفراسٹر کچر تباہ ہوچکا ہے ۔ کئی مقامات پر موجود گھر پانی کی زد میں آکر مسمار ہوگئے ہیں ۔ بجلی ، ٹیلی فون اور دیگر مواصلاتی نظام درہم برہم ہے ۔ اشیائے ضرور یہ کا فقدان ہے ۔ تونسہ اور ڈی آی خان کے سیلابی علاقوں ، راجن پور وغیرہ میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 10لاکھ لوگ بے گھر ہوچکے ہیں ۔ 1200کے قریب ہلاکتیں پورے ملک میں سیلاب کی وجہ سے بتائی جارہی ہیں ۔ 1200 سے زائد رابطہ پل ٹوٹ چکے ہیں ۔ 8لاکھ جانورسیلاب میں بہہ گئے یا مرگئے ۔ حفا ظتی بندوں اور ریلوے ٹریکو ں کا ابھی تک کوئی شمار نہیں ہے۔ سندھ میں تحریک اﷲ اکبر کے ایک ساتھی جو مسلسل سیلاب زدگان کی امداد میں مگن ہیں نے بتایا کہ ابھی تک دریائے سندھ سے ملحقہ نہریں اور برساتی نالوں کا سیلاب بارشوں کی وجہ سے آیا ہے ۔ جسے نچلے درجے کا سیلاب کہا جاتا ہے ۔ مگر تمام علاقے اس وقت انتہائی سنگینی کا شکار ہیں ۔ این ڈی ایم اے کے مطا بق دریائے کابل اور دریائے سند ھ میں اونچے درجے کا سیلاب ہے ۔ اس طرح سے ایک انداز ے کے مطابق کراچی میں دریائے سند ھ سے ملحقہ شہر خاص طور پر سکھر اور لاڑکانہ تبا ہ ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ اگر نالو ں میں طغیانی مزید بڑھ گئی تو سندھ بھر کے 3کروڑ سے زائد لوگ متا ثر ہونگے ۔ صوبائی حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے ندیوں کے پاٹ بھی آبادی سے بھرے پڑے ہیں۔ اور یہ آبادیاں سیلاب کی سب سے زیادہ شکار ہونگی۔

دریائے چناب میں برسات کے بعد سے اب تک نچلے درجے کا سیلاب چل رہا ہے ۔ حکومتی اور سیاسی امیدوار سوائے از بانی جمع خرچے کے اور تصویروں اور ویڈیو کے کچھ نہیں دے رہے ۔ کینیڈا نے 5ملین ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا ہے۔ دوبئی اور متحدہ عرب امارات نے متاثرین کی بجلی کے لئے 4سامان سے بھرے جہاز بھیجنے کا وعدہ کیا؟۔۔۔ امریکہ کی کانگریس پرسن نے بھی امریکی حکومت سے پاکستان کیلئے امداد کی بات کی ہے ۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ پاکستان آزاد ہوئے تو 75سال بیت گئے لیکن کیا ہم تمام قومی ، لسانی اور مذہبی تعصبات سے ہٹ کر پاکستانی بن پائے ہیں ۔ کیا ہمیں اپنے ملک کے بھائیوں کی مصیبت میں دیکھ کر آگے بڑھ کر ان کی مدد نہیں کرنی چاہیے تھی۔ عمران خان نے 5ارب روپیہ بیرون ملک سے اکٹھا کیا مگر سوال یہ ہے کہ ہمارے ملک کے منتخب نمائندے ، وزاراء اور جماعتوں کے ذمہ داران مل جل کر فنڈز دیتے تو کیا ہمیں کسی سے مانگنے کی ضرورت پڑتی ؟سیلاب متاثرین کیلئے جب تحریک اﷲ اکبر، الخدمت فاؤنڈیشن اور دیگر فلاحی تنظیموں نے جب اتنا کچھ کر دیا ہے تو اب آخری مراحل میں حکومتی و سیاسی سطح پر جو چندہ جمع کیا جا رہا ہے اس کی منصفانہ تقسیم کیا ممکن ہو پائے گی؟ کیا ہمیں ایما ن ، اتحاد ، تنظیم اور یقین و محکم پر عملی طور سے چلنے کی ضرورت نہیں ؟؟؟
 

Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah : 235 Articles with 167867 views Pharmacist, Columnist, National, International And Political Affairs Analyst, Socialist... View More