یوم دفاع اور دفاع وطن کے جدید تقاضے

قومی دفاع صرف افواج کا ہی نہیں عوام کا بھی فریضہ ہے !
ووٹ کا ہتھیار عوام کو اندرونی غداروں سے ملک کو محفوظ بنانے کی طاقت فراہم کرتا ہے ۔
آج یعنی6ستمبر کا دن پاکستان کی عسکری تاریخ کا وہ قابل فخر دن ہے جب 1965ءمیں بزدل پڑوسی ملک بھارت نے رات کی تاریکی میں پاکستان پر حملہ کرکے ہمیں اپنا غلام بنانے کی ناپاک جسارت کی مگر افواج پاکستان نے بھارتی حملے کو پسپا کرکے اور اسے دردناک و ہزیمت آمیز شکست سے دوچار کرکے بتادیا کہ پاکستان نا قابل تسخیر ہے کیونکہ اللہ کی تائید و مدد کے ساتھ پاکستان کا دفاع پیشہ ورانہ صلاحیت اور جذبہ شہادت سے سرشار ایسی افواج کے ہاتھوں میں ہے جو کبھی غافل نہیں ہوتیں !
6ستمبر 1965ءکو افواج پاکستان نے سرفروشی ‘ قربانی ‘ ایثار ‘ خلوص ‘ جذبہ شہادت ‘ فرض شناسی اور پیشہ ورانہ صلاحیت کا بے مثال مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان پر حملہ آور ہونے والی بھارتی بری اور فضائی افواج کو اپنے تباہ شدہ طیاروں ‘ ٹینکوں ‘ توپوں اور فوجیوں کی لاشوں کو چھوڑ کر الٹے قدموں واپس بھاگنے پر مجبور کرکے ثابت کردیا کہ افواج پاکستان وطن عزیز کا دفاع یقینی بنانے میںمیں ماہر وفعال ہیں ۔
6ستمبر کا دن 1965ءکے افوج پاکستان کی اس صلاحیت کے اظہار کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے ”یوم دفاع “ کے طور پر منایا جاتا ہے ۔
افواج پاکستان کی پیشہ ورانہ صلاحیت ‘ جذبہ شہادت ‘ سرفروشی کی روایت اور قومی خدمت اپنی جگہ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک و قوم کے دفاع ‘ تحفظ ‘ استحکام اور آزادی کیلئے اس ملک وقوم کو پیشہ ور فوج کیساتھ ایسی مخلص سیاسی قیادت کی بھی ضرورت ہوتی ہے جوقومی وحدت کو قائم رکھتے ہوئے اقوام عالم میں قومی مفادات کا تحفظ یقینی بنائے اور ملک میں آئین وقانون کی پاسداری یقینی بناتے ہوئے انصاف و مساوات کا معاشرہ قائم کرے !
مگر افسوس کہ قائد اعظم محمد علی جناح اور خان لیاقت علی خان کی وفات کیساتھ ہی پاکستان ا یسی سیاسی قیادت سے محروم ہوگیا جس کے بعد عوام نے ہمیشہ رہبری و رہنمائی اور قیادت کیلئے اس طبقے کا انتخاب کیا جو انگریزوں سے وفاداری اور مسلمانوں و اسلام سے غداری کے صلے میں انگریزوں سے انعام و اکرام اور جاگیریں و جائیدادیں پاکر عزت دار ٹہرا ۔
عوام کی محرومیوں سے کھیل کر ‘ انہیں پر فریب نعروں اور جھوٹے وعدوں میں پھنساکر ایوان اقتدار اوراختیار تک رسائی حاصل کرنے والوں نے پاکستان کو مستحکم اسلامی و فلاحی ریاست بنانے کی بجائے اپنے مفادات کیلئے اسے جمہوری بنانے پر توجہ دی تاکہ ان کے خاندانوں کو ہمیشہ حکمرانی کا شرف حاصل رہے اور عوام ہمیشہ محکوم رہیں ۔
اشرافیہ کی اس صفت و سمت نے پہلے مشرقی پاکستان کو ہم سے جدا کرایا ‘ پھر مسلکی تفاوت سے دوچار کیا ‘ اس کے بعد تعصب کی آگ میں جھلسایا اور مستقبل قریب میں سیاچن و کارگل کے معاملے پر بھارت سے کی جانے والی ”سوری “ نے عالمی برادری میں ہمارا مذاق بنوایا ۔
بات یہیں تک نہیں رکی بلکہ اقتدار کے نشے میں بد مست اختیارات کے سہارے کرپشن ‘ کمیشن ‘ نانصافی ‘ لوٹمار اور نا پسندیدہ افراد کو غدارقرار دینے والی اشرافیہ نے نہ صرف وطن عزیز کو قرضوں اور امدادوں کے ذریعے عالمی اداروں اور بیرونی طاقتوں کا غلام بنادیا بلکہ ذراعت ‘ صنعت ‘ تجارت ‘ تعلیم کو فروغ دینے اور صحت و روزگار کے شعبوں میں بہتری و اصلاح لانے کی بجائے نجکاری کے نام پرقومی اثاثوں کی خریدو فروخت کے ذریعے وطن عزیز کو اندرونی خطرات سے دوچار کیا ۔
اس کے علاوہ منظور نظر افراد کو نوازنے کیلئے انہیں پٹرول و گیس کے کوٹے فراہم کئے گئے تاکہ وہ بناءکسی سرمایہ کاری پٹرو ل و گیس پر کمیشن حاصل کرتے رہیں اور عوام مہنگائی کی چکی میں پس کر غریب سے غریب ترین ہوتے جائیں ۔ یہی نہیں آئی پی پیز کے نام پر توانائی کا شعبہ نجی پاورکمپنیوں کے حوالے کردیا گیا جس کے بعد عوام بجلی سے محروم رہنے کے باوجود بھی مہنگے ترین بجلی بل بھرنے پر مجبور ہیں ۔
یعنی وطن عزیز کو دولخت کرنے اور ملک و قوم کو عالمی اداروں کا باجگزار بنانے والی قیادتوں نے پٹرول ‘ گیس اور بجلی کو بھی عوام کی پہنچ سے دور کرنے اور دووقت کی روٹی سے محروم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔
اور اب پاکستان میں آنے والے سیلاب سے ہونے والی تباہی نے ثابت کردیا ہے کہ اقتدارو اختیار پر قابض اشرافیہ نے اپنی حکومت ‘ اقتدار ‘ اختیار ‘ زمین ‘ جائیداد اور سیاست بچانے کیلئے قومی مفادات پرذاتی مفادات کو ترجیح دیکر ڈیموں کی تعمیر سے گریز کیا جس کی وجہ سے آج پاکستان ہی سیلابی پانی میں ڈوبا ہوا نہیں ہے بلکہ اس کی معیشت بھی اسی پانی میں ہچکولے لیتی اور آہستہ آہستہ غرق ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔
کیونکہ سیلاب سے ہونے والی تباہ کاری کے اثرات سے باہر نکلنے اور سیلاب متاثرین کی امداد کیساتھ ان کی بحالی ‘ تباہ ہونے والی زرعی زمین کو پھر سے قابل کاشت بنانے ‘ بہہ جانے والی سڑکوں اور پلوں کو پھر سے تعمیر کرنے ‘ بجلی ‘ پانی ‘ گیس اور سیوریج کے نظام کو بحال کرنے ‘ تباہ ہوجانے والے اسکولوں اور اسپتالوں میں پھر سے تعلیمی سرگرمیاں اور علاج و معالجے کی سہولتیں مہیا کرنے کیلئے ہمیں کس کس سے اور کن کن شرائط پر امداد لینی ہوگی اور کیا کیا گروی رکھ کر یا فروخت کرکے پیسہ لانا پڑے گا؟
اس کا سوال جواب تو آنے والا وقت ہی دےگا !
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس وقت ملنے والی امداد و قرضے اور فروخت کئے جانے والے قومی اثاثوں سے حاصل ہونے والی دولت حقیقی معنوں میں ملک و قوم کی بقا و فلاح پر ہی خرچ ہوگی یا پھر یہ دولت بھی ماضی میں ملنے والی امداد وقرضوں کی طرح پھر سے اشرافیہ کے سوئس اکا¶نٹس میں منتقل ہوجائے گی ۔
ایسا ہو ا تو اس بار شاید عوام اس استحصال کو برداشت نہیں کر پائیں!
کیونکہ سیلابی تباہی سے سڑکوں پر تو ”وہ“ پہلے ہی آگئے ہیں ۔
اب انہیں زندگی قائم رکھنے کیلئے روٹی ‘ کپڑے اور مکان کی ضرورت ہے ۔
اگر انہیں سر چھپانے کیلئے چھت مل گئی ‘ جسم ڈھانپنے کیلئے کپڑا اور پیٹ کا دوزخ بھرنے کیلئے روٹی ملتی رہی تو ٹھیک ہے وگرنہ وہ پیٹ بھرنے کیلئے چھینا جھپٹی ‘ لوٹمار ‘ قتل و غارت پر مجبور ہونگے!
اگر ایسا ہوا تو اسے خانہ جنگی کا نام دیا جائے گا !
جو کسی بھی مملکت کوکمزور بناکر شکست وریخت سے دوچار کرنے کیلئے کافی ہوتی ہے!
جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ڈیموں کی ضرورت و اہمیت کو نظر انداز کرکے ڈیموں کی تعمیر سے گریز اور اس کی مخالفت کرنے والی اشرافیہ نے اس ملک کو سیلاب سے ڈبونے میں ہی اپنا کردار ادا نہیں کیا ہے بلکہ اب اگر قرض و امداد میں کرپشن کی روایت بھی برقرار رکھی گئی تو یہ ملک کو خانہ جنگی سے دوچار کرنے کی سازش بھی ہوگی ۔
دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ مفاد پرست ‘ کرپٹ ‘ا ستحصالی اور منافق اشرافیہ کو اختیار واقتدار تک پہنچاکر قوم کی تقدیر میں سیلاب و عذاب لکھنے اور خانہ جنگی کے اسباب پیدا کرنے کا موقع ہمیشہ خودعوام نے ہی فراہم کیا ہے۔
جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ افواج ملک کو صرف بیرونی حملوں سے بچاکر وطن عزیز کے دفاع کو یقینی بنانے کا فریضہ انجام دے سکتی ہیں جبکہ استحصالیوں ‘ ظالموں ‘ منافقوں ‘ملک وقوم دشمنوں اور اپنے مفادات کیلئے خانہ جنگی کے اسباب پیدا کرنے اور قوم میں تفرقہ و انتشار پیدا کرکے ملک کو اندرونی طور پر کمزور بنانے والوں کو اختیار واقتدار کے ایوانوں سے دور رکھ کر وطن عزیز کو عدم استحکام سے بچانا عوام کا فریضہ ہے جس کیلئے آئین پاکستان عوام کو ”ووٹ کا ہتھیار “ دیتا ہے!
عوام اگر”ووٹ “ کے اس ہتھیار کا استعمال راست طریقے سے کریں!
تو یقینا ایوان اختیار واقتدار کو ملک و قوم کیلئے خطرہ بنانے والوں سے محفوظ بنایا جاسکتا ہے !
جس کا واضہ مطلب یہ ہے کہ افواج سرحدوں کی نگہبانی کرتی ہیں جبکہ اندورنی قومی دفاع عوام کا فریضہ ہوتا ہے !
Imran Changezi
About the Author: Imran Changezi Read More Articles by Imran Changezi: 194 Articles with 130694 views The Visiograph Design Studio Provide the Service of Printing, Publishing, Advertising, Designing, Visualizing, Editing, Script Writing, Video Recordin.. View More