شریمد بھگوت گیتا پڑھنے پڑھانے کا منصوبے

شریمد بھگوت گیتا کو مذاہب عا لم کی مقدّس ترین کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ لیکن افسوس کہ سیاست دانوں کی ناعاقبت اندیشی نے اس مقدّس کتاب کو تنازعہ کا موضوع بنادیا ہے۔ سنگھ پریوار سے وابستہ کرناٹک اور مدھیہ پردیش کے جن وزیروں نے ’ ہندو ہندستان ‘کے نظریہ سے اپنی ذہنی وابستگی کے تحت اسکولوں میں گیتا پڑھانے کی ٹھانی ہے،ان کو شاید یہ اندازہ ہی نہیں کہ گیتا کس ذہن و عمر کے لوگوں کے پڑھنے سمجھنے کی کتاب ہے۔ ہرچند کہ ہم ہر شخص کے مذہبی جذبہ کا احترام کرتے ہیں مگریہ منصوبہ بنانے والوں کی فہم و فراست پر حیران ہیں۔ گیتا ہمارے ملک میں(بجز گروکل) کبھی شامل نصاب نہیں رہی اور وہ بھی اسکولی درجات میں۔ اس سے قبل کبھی کسی کویہ نہیں سوجھی کہ ہزار ہاسال پرانی سنسکرت کی اس منظوم کتاب کو پرائمری درجات میں پڑھا جاسکتا ہے۔ حالانکہ گیتا کے رمز شناسوں میں ڈاکٹر رادھا کرشن ،جیسے ماہرین تعلیم بھی شامل رہے ہیں۔اگر ہندستان جیسے سیکولر ملک کے پرائمری اسکولوں میں گیتا کو شامل نصاب کیا جانا کچھ مفید ہوتا تو وہ ماہر تعلیم جنہوں نے ہندو احیاءپرستی کے اپنے جذبہ کو کبھی چھپایا نہیں، کبھی تو اس کا مشورہ دیتے ۔ تاہم بعض یونیورسٹیوں کے اعلا درجات کی معاون کتابوں میں گیتا پر مضامین ضرور شامل رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گیتا میں زندگی اور فلاح اُخروی کا جوادق مذہبی فلسفہ بیان کیا گیا ہے، وہ بچوں کےلئے نہیں ہے اوراس کو پڑھنے سمجھنے کےلئے پختہ فکر و ذہن کی ضرور ت ہے ۔گیتا خود اپنے مصنف وید ویاس کے مطابق ایک ’پرازاسرار کتاب‘ ہے۔ چنانچہ اس کے اسرار کو بغیر تشریحات کے سمجھا ہی نہیںجاسکتا۔ یہ تشریحات بھی کچھ آسان نہیں ہیں۔ اس کی قدیم ترین تشریح آدی شنکرآچاریہ کی ’گیتا بھاشیہ‘ کو خود بغیر تشریحات کے سمجھ پانا ممکن نہیں۔ سب سے زیادہ مقبول اورعام فہم غالباً بال گنگا دھر تلک کی تشریح ’گیتا رہسیہ‘ہے۔ مگر معمولی پڑھے لکھے کےلئے تو اس کو سمجھنا بھی آسان نہیں۔ سوامی وویکانند کی تشریح ، جودو ہزار سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہے،اور بھی زیادہ انہماک اوردماغ سوزی کی طالب ہے۔ سری اروبندو اور ڈاکٹر رادھا کرشنن نے جو تشریحات قلم بند کی ہیںاور جن میں گیتا کے رموز کوکھولا گیا ہے وہ خود فلسفہ کی بلند معیار کتابوں میںشمار ہوتی ہیں اور ان کو سمجھنے کےلئے علم و فلسفہ کی ایک مضبوط بنیاد درکار ہے۔ ایسے مشکل مواد کو کمسن بچوں کے نصاب میں شامل کرنا ایسا ہی جیسے خلائی سائنس کو پڑھانے کی کوشش۔ اسکولی نصاب کےلئے اسباق کے انتخاب میں بنیادی نکتہ یہ ہوتاہے کہ ان میں روز مرّہ کے مشاہدات شامل ہوں، جو بچے کے اندر تجسس اوردلچسپی پیدا کرسکیں۔اس کو تفصیل سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کسی بھی زبان کی ابتدائی درجات کی کتابیں اٹھاکر دیکھ لیجئے، یہ نکتہ واضح ہوجائے گا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ گیتا ایک لائق مطالعہ کتاب ہے۔ لیکن اس کا موضوع خشک اور ادق ہے۔ اور اسکولی بچے اس کے سمجھنے کے متحمل ہرگز نہیں ہوسکتے۔ ایسا لگتا ہے کہ جن لوگوں کو یہ سوجھا ہے کہ گیتا کو اسکولی نصاب میں شامل کیا جائے ان کے پیش نظر نصاب تعلیم میں بہتری لانا یا جدّت پیدا کرنا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ کچھ مخصوص عقائد کو بچوں کے نازک ذہنوں میںٹھونس دیا جائے، بھلے ہی موضوع کی عدم فہم اکتساب علم سے ان کا دل اچاٹ کر دے۔ سائنسی دور میں ایسی غیر سائنسی تجویز روشن دماغی کی نہیں، فرسود مزاجی اور تاریک ذہنی کی دلیل ہیں۔

مدھیہ پردیش کے اسکولوں میں ’گیتا سار‘ کو داخل نصاب کئے جانے کے خلاف کیتھولک بشپ کونسل کی ایک عرضی پر سماعت کے دوران ایک فاضل جج نے کونسل کے وکیل کوتلقین کی ہے کہ آئندہ دو ماہ کے اندر مکمل گیتا کا مطالعہ کرکے پہلے یہ طے کریں کہ گیتا میں زندگی کا فلسفہ بیان گیا ہے یا یہ کسی مذہب سے وابستہ کتاب ہے؟جب انکا ذہن بن جائے تبھی وہ اس عرضی پر بحث کریں۔ محترم فاضل جج نے بڑا ہی اہم علمی نکتہ بیان فرمادیا ہے۔ہم تو اب تک یہی سمجھتے تھے کہ ہر مذہب زندگی کا ایک فلسفہ ہے، خصوصاً ہندو مذہب کی اساس تو بہت کچھ فلسفہ کے اوپر ہی قائم ہے۔ مورتی پوجا کا بھی ایک فلسفہ ہے اور اس کی مخالفت کا بھی ایک فلسفہ ہے۔ اکتساب زر اور ارتکاز زر کا بھی مقدس فلسفہ ہے اور ترک دنیا کا بھی۔ اب یہ غور کرنا ہوگا کہ فلسفہ کو جداکردینے کے بعد ہندو دھرم میں کیا بچے گا؟ مگریہ بات عدالت کو نہیں شنکرآچاریوں اور دیگر مذہبی رہنماﺅں کو طے کرنی ہوگی کہ ہندو مذہبی لٹریچر میں شریمد بھگود گیتا کا کیا مقام و مرتبہ ہے؟ اس مقدس کتاب کے بارے عام تصور یہی ہے کہ یہ ہندو دھرم کی ایک انتہائی اہم کتاب ہے۔ انٹرنیٹ پر دستیاب انسائکلو پیڈیا ’وکیپیڈیا‘ نے اس کو ’ہندو دھرم کی مقدس ترین کتاب‘ بتایا ہے۔ گیتا اگرچہ مہابھارت کا ایک حصہ ہے مگر ہندو اسکالرس یہ کہتے ہیں کہ خود اپنے آپ میں گیتا ایک مکمل اور انتہائی اہم ’اپنشد‘ ہے۔ گیتا کے آغاز میں چند اشلوک گیتا کی اہمیت بیان میں درج ہوتے ہیں جنکو ’گیتا مہتو‘کا عنوان دیا گیا ہے۔ ان میں چوتھے اشلوک میںکہا گیا ہے کہ’ گیتا وشنو کے دہن مبارک سے ظاہر ہوئی ہے‘۔ ہندو عقیدے کے مطابق شری کرشن کو وشنو کا اوتار مانا جاتا ہے۔ جنہوں نے کتاب کے شاعر مصنف وید ویاس کے بقول اس کو کروکشیتر کے میدان میں ارجن کو تلقین کیا تھا۔ ساتویں اشلوک میں کہا گیا ہے: دیوکی نندن بھگوان شری کرشن کا کہاہواگیتاشاسترہی واحد بہترین شاستر ہے۔ کرشن جی ہی ایک واحد عظیم دیوتا ہے، انکا نام ہی واحد منتر ہے اور ان بھگوان کی خدمت ہی واحد فرض کام ہے۔‘ یہ اور ایسی ہی دوسری بےشمار داخلی شہادتیں گیتا کے اندر موجود ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اس میں زندگی کے فلسفہ کے شانہ بشانہ ایک مخصوص عقیدے کی تلقین بھی کی گئی ہے اور قاری کے مذہبی جذبہ کو جگہ جگہ مہمیز کیا گیا ہے۔ وشنو کے اوتار کرشن کو دیوتا اور واحد رہبر قرار دینے کا مطلب کیا ہے؟ کیا یہ فلسفہ ہے یا ہندو دھرم کے مجموعہ عقائد میں سے ایک مخصوص مت کی تبلیغ ہے؟یقینا یہ کتا ب ہزار ہا سال سے مذہبی عقیدت کے ساتھ ہی پڑھی جاتی رہی ہے ۔ علمی نقطہ نظرسے اسکو پڑھنے والے تو بس چند ہی ہونگے۔اتنا ہی نہیں گیتا ہندودھرم کی کئی اہم تحریکات کی محرک بھی ہے۔ آدی شنکرآچاریہ کا ’ادویتیہ واد‘، دیانند سرسوتی کا ’آریہ سماج‘ اور سری اروبندو کا فلسفیانہ نظریہ اسی کی دین ہیں۔ اس اپنشد کی بنیاد پر ہند اور بیرون ہندہندو احیاءپرستی کی بہت سی تحریکات آج بھی چل رہی ہیں ۔ آشرم اور ادارے پھل پھول رہے ہیں۔آج جو صحت کےلئے یوگا کا غلغلہ ہے وہ بھی انہی اداروں کی بدولت ہے جو گیتا اور ویدک دھرم کی تلقین کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ کہنا درست نہیں کہ گیتا کسی مذہب سے وابستہ کتاب نہیں ہے۔ہاں یہ درست ہے کہ اس میں اعلا اخلاق کی کچھ نایاب تعلیمات بھی ہیں۔ مگر اس میںوہ کشش نہیں جو رام چرتر مانس کے اساطیری قصہ میں ہے۔

18ابواب اور 700 اشلوکوں پر مشتمل گیتا کے دنیا بھر کی مختلف ز بانوں میں ترجمے ہوئے ہیں ۔ اردو میں پروفیسر شان الحق حقی کا ترجمہ بڑا مشہور ہوا۔ ان کے علاوہ سید محمد مہدی معروف بہ رئیس امروہوی اور خواجہ دل محمد کے تراجم بھی کافی معروف ہوئے۔ گیتا کا پس منظر بظاہر جنگ کا میدان ہے جو بقول مہاتما گاندھی دراصل زندگی کا استعارہ ہے۔ اس میں توحید(ایک ایشور واد)، کرم یوگ( حق کےلئے جد و جہدیاجہاد) ،گیان یوگ (عظمت علم) اور بھکتی یوگ ( شری کرشن کی پیروی) کی تلقین کی گئی ہے۔کام( خواہشات نفس)، غصہ، لالچ ،موہ(غیر معمولی جذباتی وابستگی)، غرور و تکبر اور حسدجیسی اخلاقی عیوب پر گرفت بھی خوب کی گئی ہے۔ اس کی ان اصولی اخلاقی تعلیمات کی وجہ سے ہی غیر ہندو بھی اس کو دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔ اردو میں اس کے تراجم اس کا ثبوت ہیں کہ اہل اسلام نے ہندوﺅں کی اس کتاب کو کبھی تعصب کی نظر سے نہیں دیکھا۔ متعدد عیسائی اہل دانش نے بھی اس کا مطالعہ کیا ہے اور اس پروقیع مضامین اورکتابیں شائع کیں۔ لیکن اس پہلو پر اب تک کبھی دورائے نہیں رہی کہ یہ ہندوﺅں کی مذہبی کتاب ہے اور اہل ہنود اس کو اسی نظر اور عقیدت سے پڑھتے اور پڑھاتے ہیں۔

کرناٹک اور مدھیہ پردیش کی بھاجپا سرکاروں نے ابتدائی درجات میں گیتا کو پڑھانے کا جو منصوبہ بنایا ہے وہ اس کے نظریہ اور فلسفہ کے پیش نظر نہیںبلکہ ہندور روایت میں اس کی مذہبی اہمیت کے پیش نظر ہے۔ کرناٹک کے وزیر تعلیم برائے پرائمری و ثانوی درجات مسٹر وشویشور ہیگڑے کا یہ کہنا کہ جس کو اپنے بچوں کو اسکول میں گیتا پڑھائے جانے پر اعترا ض ہے وہ ہندستان چھوڑ دے، بھاجپا لیڈر کی فسطائی ذہنیت کا غماز ہے۔ جس کی مذمت میڈیا میں ہورہی ہے۔ دراصل جوڑ توڑ کرکے وزیر بن جانا ایک بات ہے اور آداب سیاست اور حکومت کی نزاکتوں کا فہم الگ بات ہے۔ مدھیہ پردیش حکومت کی ذہنیت کا تو کہنا ہی کیا۔ اس کی ہر اسکیم کسی نہ کسی ہندو نام سے شروع ہوتی ہے۔ مثلاًبچیوں کےلئے لاڈلی یوجنا کی جگہ ’لاڈلی لکشمی یوجنا‘ ، تالابوں کی صفائی کےلئے ’بلرام تال یوجنا‘ اور آبپاشی کی اسکیم کو ’کپل دھارا یوجنا‘کا نام دیا گیا ہے۔ سرکاری سطح پر سارے نام اور سارے کام ایک مخصوص عقیدے کے مطابق کئے جارہے ہیں اور حکمرانوں نے بغیر اعلان کئے ریاست کو عملاًہندو ریاست میں تبدیل کردیا ہے۔ بھوپال کی ایک عدالت کو جب ریاستی حکومت کے اس رویہ کی طرف متوجہ کرایا گیا تو فاضل جج نے وکیل مدعیان کو مشورہ دیا کہ وہ پہلے گیتاکا مطالعہ کریں ۔ ابھی حال ہی میں سپریم کے ایک سابق جج عزت مآب کے ٹی تھومس نے آر ایس ایس کے بارے میںفرمادیا کہ وہ اقلیت دشمن نہیں ہے۔ چند روزقبل ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج نے بغیر کسی جواز اور موقع کے مودی سرکار کی تعریف فرمادی۔ مہاراشٹرا کی ایک معزز عدالت نے مالیگاﺅں بم دھماکے میںماخوذ سنگھ پریوار سے وابستہ دو ملزمان کو تو ضمانت دیدی مگر اسی ریاست کی حکومت ان 9بے قصور مسلمانوں کی ضمانت کی راہ روکے ہوئے جو بغیر کسی ادنیٰ ثبوت مالیگاﺅں بم دھماکہ2006 کیس میں جیل کی صعوبت جھیل رہے ہیں۔ان واقعات سے اقلیتی فرقہ میں اضطراب فطری ہے۔ اسی لئے نصاب میں مخصوص مذہبی کتابوں کے شامل کئے جانے پربھی بیچینی ہے۔

اس دوران ایک آواز بڑی حوصلہ افزا نشکال منڈپ کے سوامی نجاگنانند جی کی سنائی دی جنہوںنے بیلگام کے ایک جلسہ میںتقریر کے دوران گیتا کو شامل نصاب کئے جانے کے منصوبے کو ناقابل فہم قرار دیا ہے۔ کرناٹک میں سرکار نے ’شری بھگود گیتا ابھیان ، سرسی‘ کی تجویز کو منظور کرکے ایک سرکلر جاری کرکے اساتذہ سے کہا ہے کہ اس تنظیم کے تحت گیتا پڑھانے کی ٹریننگ حاصل کریں۔ اس سرکلر کی مخالفت کرنے کا اقلیت کو حق ہے مگر اس حق کا استعمال احتیاط سے کیا جانا چاہئے تاکہ فرقہ پرستی کی اس چنگاری کو ہوا نہ لگنے پائے جو سنگھ پریوارنے لگادی ہے۔ (ختم)

(مضمون نگار ’آل انڈیا ایجوکیشن موومنٹ کے نائب صدر اورفورم فار سول رائٹس کے جنرل سیکریٹری ہیں)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163747 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.