تعلیم کامیابی کی کنجی ۔۔۔۔مگر

تعلیم کامیابی کی کنجی ہے اگر ہم غور کریں تو مغربی اقوام کی مادی ترقی کے پیچھے اسی درخت (تعلیم )کو پائیں گے جس کی جڑیں کڑوی مگر پھل میٹھا ہوتا ہے قوم کو تعلیم کے حصول میں مدد کرنا ،اسکول،کالج اور یونیورسٹی مہیا کرنا خالصتاً ریاست کی ذمہ داری ہے کیونکہ عوام اپنے طور پر تھوڑی بہت تعلیم تو حاصل کر سکتے ہیں مگر اعلیٰ تعلیم کا حاصل کرنااکثرعوام کے بس کی بات نہیں۔عوام کوتعلیم کے زیور سے پیراستہ کرناریاست کی ذمہ داری ہے اور ریاست ہی اس ذمہ داری کو خوش اسلوبی سے پورا کر سکتی ہے بشرطیہ کہ حکمراں قوم سے کچھ خلوص رکھتے ہوں۔

تعلیم ایک قومی معاملہ ہے ناکہ افرادی اور قومی معاملات میں تمدن کا بہت خیال رکھنا پڑتا ہے برطانیہ نے اپنا سیاسی نظام اپنے کلچر سے مطابقت رکھتے ہوئے بنایا تو اسے دستورکو لکنھے کی ضرورت بھی نہیں پڑی کیوں کہ انہوں نے قوانین کو اپنے رسوم و ورواج کے مطابق بنایا تاکہ لوگ عزت کرتے ہوئے قانون پرعمل پیرا ہوں۔

ہمارے ملک میںتعلیم کے معاملے میںجہاں بے ایمانی ،بدعنوانی اور کرپشن جیسے معاملات آڑے آتے ہیں وہاں اسکولوں کو (خاص کر شمالی علاقہ جات میں)دھماکہ سے اڑایا جانااوربلوچستان میں اساتذہ کاقتل بھی ایک مسئلہ ہے۔کبھی ہم نے سوچا ایسا کیوں ہوتا ہے کبھی ہم نے غور کیا کہ شمالی علاقہ جات میں کیوں لڑکیوں کے اسکولوں کو بم سے اڑادیا جاتا ہے کیوں بلوچستان میں وہاں کے لوگ تعلیم کو آنے نہیں دیتے جواب بڑا سادہ سا ہے مگر غور کرنے پر ہی پتا چل سکتا ہے اگر نیت خراب ہو اور شدت پسندی کو مورد الزام ٹھرا کر ذمہ داریوں سے جان چھڑانی ہے تو پھر کچھ نہیں ہوسکتا۔مسئلہ یہ ہے کہ ہم انہیں تعلیم نہیں بلکہ تعلیم کی شکل میں ایک نیا کلچر دینے کی کوشش کرتے ہیں جسے وہ قبول نہیں کرتے اگر ہم ان کے خدشات اور تحفظات کو دور کریں تو میرا نہیں خیال کہ وہ اس کی مخالفت کریں گے۔

ایک بلوچی دوست سے پوچھا کہ وہ کیوں نہیں برداشت کرتے ان لوگوں کو جو انہیں پڑھانے آتے ہیں تو وہ کہنے لگاکہ جب یہ لوگ ہمارے پاس آتے ہیں تو کچھ تو اچھی باتیں ہمیں سکھاتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ بے حیائی اورہمارے کلچر کے خیلاف رسوم ورواج بھی آتے ہیں یعنی کہ ان لوگوں کے کچھ تحفظات ہیں جنہیں اگر دور کر دیا جائے تو یہ لوگ علم کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں کیوں کہ یہ علم کے دشمن نہیں ہیں انہیں اگر یہ یقین دلایا جائے کہ ان کی عورتوں کے پردے کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا تویہ اپنی عورتوں کو بھی تعلیم دلوانیں کے لئیے تیار ہیں۔انہیں اسکولوں میں داخل کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جیسے جیسے ہماری موجودہ تعلیم کسی علاقہ میں عام ہوتی جاتی ہے ہیں وہاں دینی شعائر اور اپنے کلچر کی مخالفت ہونے لگتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری تعلیم ،تعلیم نہیں بلکہ بلکہ کوئی بیرونی ایجنڈا ہے جو ہم سے ہماری اقدار چھین لینا چاہتا ہے یہ ایک خطرے کی علامت کی ہے ۔

اگر ہم سنجیدہ ہیں تو جو مدارس بچوں کو پہلے سے ہی تعلیم دے رہے ہیںجہاں قبائلی اپنے بچوں اور بچییوں کو بلا ججھک بیجتے ہیں وہاں عصری علوم کے استاذہ مقرر کر دیں وہاں کا تعلیمی نصاب وقت اور دین کے تقاضوں سے لیس کر دیں تو میرا نہیں خیال کہ کوئی چیز تعلیم کے راستے میںمانع ہوگی لیکن شرط پھر وہی ہے کہ یہ اساتذہ وہاں جاکر تعلیم دیں نہ کہ کچھ اور،نہیں تو پھر وہی دھماکہ اور پھر ٹی وی پر نام نہاد دانشورطالبان کا رونا روتے نظر آئیں گے ۔
usman hanif
About the Author: usman hanif Read More Articles by usman hanif: 2 Articles with 2254 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.