کیا واقعی اورنگزیب مندر شکنی کے مرتکب ہیں؟

یوسف الدین سرمست
مغل تاریخ میں اورنگزیب اس لحاظ سے یقینا ایک بدنصیب بادشاہ ہے کہ اس کے دامن پر تعصب،بت شکنی اور ہندو کشی کے بے شمار داغ لگائے گئے ہیں۔حالانکہ اورنگزیب دوسرے مغل بادشاہوں کی طرح انصاف پسند اور روادار بادشاہ تھا۔لیکن افسوس اس نیک نفس بادشاہ کو مندروں کو مسمار کرنے کے بیشمار الزامات کا نشانہ بنایا گیا اور آج کل یہ بات سارے ملک میں موضوع بحث ہے، اور وجہ ہے گیان و اپی مسجد میں سروے کے دوران شیو لنگ ملنے کی خبر۔اورنگ زیب پر جن مندروں کو توڑ کر مسجد بنانے کا الزام لگایا جاتا ہے ان میں ایک گیان واپی مسجد ہے۔

زیر نظر مضمون میں ہم تاریخی حوالہ جات کے ساتھ اس بات کو ثابت کریں گے کہ اورنگزیب پر ہندو دشمنی اور مندر توڑنے کے سارے الزامات بے بنیاد ہیں۔اورنگزیب واقعی ایک کٹر مذہبی انسان تھا۔ لیکن ہندو مخالف نہیں۔ ایسے کئی واقعات تاریخ میں ملتے ہیں کہ اورنگزیب نے مندروں کو جاگیریں عطا کی ہیں۔

''جرنل دی رائل ایشیا ٹک آف بنگال 1911'' میں تفصیل سے درج ہے کہ بنارس میں اورنگزیب عالمگیر کے جاری کردہ فرمان کے مطابق ایک ہندو کی شکایت پر ایک مسلمان مندر توڑ کر باغ بنانا چاہتا ہے اورنگزیب نے 16 مارچ 1659ء کو ایک فرمان جاری کیا کہ ہندو کی زمین اسے واپس دلائی جائے۔

بی این پانڈے جو الہ آباد میں میونسپلٹی کے چیئرمین (53-1948) رہے۔ان کے سامنے ایک اراضی کا جھگڑا آیا یہ زمین سومیشور ناتھ مہا دیومندر کو دان کی گئی تھی۔مہنت کے مرنے کے بعد دو شخص اس کے دعوے دار تھے۔جن میں سے ایک نے اپنے حق میں اپنے خاندان کے پاس محفوظ اورنگزیب کے کاغذات پیش کیے۔ان کا غذوں کی رو سے عالمگیر نے مندر کی ایک بڑی اراضی اور نقد اس شرط پر دان کی تھی کہ اس مندر سے حاصل شدہ آمدنی کو دیوتا پر چڑھاوے اور پوجا کے لئے استعمال کیا جائے گا۔

کئی صوبوں میں قاضیوں نے پرانے مندر توڑنے یا ان کی مرمت میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تو اورنگزیب نے انہیں سخت تاکید کی۔بنارس اور ورنداون کے برہمنوں کے نام جو فرمان جاری کئے وہ آج بھی موجود ہیں۔اورنگزیب نے الہ آباد میں سومیشور ناتھ مندر کے نام دو فرامین جاری کئے۔اورنگ زیب نے ملتان کے قوت مالاء مندر کے لیے مشرا چکیان داس کو سو روپیے کا وظیفہ دیا۔یہ مندر اب تک موجود ہے۔

اورنگزیب نے الہ آباد کے سو میشور ناتھ مندر، مہا دیو مندر،بنارس کے کاشی وشوناتھ مندر، چیئرکوٹ کے بالاجی مندر،گوہاٹی کے اومانتد مندر،شنرونجی میں جین مندر اور دیگر بے شمار چھوٹے مندروں کو جاگیریں وقف کیں۔گجرات کے شہشرانگ سروور (Shahshrang Sarowar) کے گندے پانی کو صاف کرنے کا سارا خرچہ سرکاری خزانے سے ادا ہوا۔

اورنگزیب نے کتنے مندروں کو مصارف کے لئے کء مواضعات وقف کر دیے تھے رام نارائن اپنی تصنیف''شاہ عالمگیر پر ایک تاریخی نظر'' میں لکھتے ہیں کہ:
''متھرا سے تھوڑے فاصلے پر بلدیو جی کا ایک مندر ہے۔اس مندر کے لیے بادشاہ عالمگیر نے کء مواضعات وقف کر دیے تھے۔جو آج بھی اسی مندر کے قبضہ میں ہیں۔اگر اورنگزیب مندروں کو مسمار کرنے کا شوقین ہوتا تو کیوں منادر کے لیے جاگیریں اور مواضعات وقف کر تا۔

اگر اورنگزیب منادر شکنی کاشائق ہوتا تو آج ہندوستان میں ایک بھی مشہور اور شاندار مندر نظر نہیں آتا۔مالوہ،بندیل کھنڈ،ایلورہ اور اجنٹا کے سارے مشہور و معروف مندر کھنڈرہو چکے ہوتے۔

اورنگ زیب نے تقریبا 50 سال اس ملک پر حکومت کی اگر وہ چاہتا تو اپنے طویل دور حکومت میں لاتعداد مندروں کو ڈھا سکتا تھا۔مشہور مورخ '' لی بان'' اپنی کتاب ''تمدن ہند'' میں ایک جگہ لکھتا ہے کہ:
'' اگر اورنگزیب بت شکن اور مندروں کو مسمار کرنے کا شوقین تھا تو تعجب ہے کہ اس نے اپنے 50 سالہ دور حکومت میں مالوہ اور بندیل کھنڈ کے شاندار منادر توڑ کر اپنا شوق کیوں پورا نہیں کیا۔''

درحقیقت اورنگ زیب نہ بت شکن تھانہ اسے مندروں سے کوئی بغض تھا۔اس کی رواداری اور بے تعصبی کا اس سے بڑھ کر ثبوت اور کیا ہوگا کہ دریائے جمنا کے کنارے واقع الہ آباد کے قلعے کے تہہ خانے میں آج تک ایک مندر موجود ہے۔اگر عالمگیر کو مندروں سے نفرت ہوتی تو وہ اپنے مقبوضہ قلعے میں کسی مندر کا وجود برداشت نہ کرتا۔

ان تاریخی حقائق کی روشنی میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اورنگزیب مذہبی معاملات میں متعصب اور تنگ نظر نہیں تمہارا دین تمہارے لیے اور ہمارا دین ہمارے لئے۔ کا قائل تھا۔

یعنی صحیح معنوں میں ایک سیکولر حکمران تھا جس کے دور میں ہندو مسلم شیر و شکر کی طرح مل جل کر رہتے تھے۔لیکن انگریزوں نے اپنی پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے اس ملک کی دو بڑی قوموں ہندؤں اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لیے اورنگزیب کو ہندو مخالف بنا کر پیش کیا اور اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہے اور کچھ تاریخ دانوں نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔

موجودہ حکومت بھی اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے لوگوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکا رہی ہے۔ اور گیان واپی مسجد بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔اور 2024ء کے لوک سبھا انتخابات کے لیے بی۔جے۔پی کا انتخابی ہتھیار۔لیکن چاہے جتنی کوشش کرلیں تاریخی حقائق کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔تاریخ ہمیشہ اورنگزیب کو ایک روادار حکمران کے طور پر ہی یاد رکھے گی۔
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
 

MD Mushahid Hussain
About the Author: MD Mushahid Hussain Read More Articles by MD Mushahid Hussain: 19 Articles with 27187 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.