محبت کیا ہے؟

جب اس نے فون بند کیا تو اس کے ذہن میں ایک سوچ ابھری، کہ محبت کیا ہے؟ کیا اس نے جو سات سال آذر سے کی کیا وہ محبت تھی یا پچھلے ایک سال سے آذر جس کا مطالبہ کررہا تھا محبت وہ ہے۔ یہ سوچتے سوچتے اسے رات کا پچھلا پہر ہونے کو آیا تھا لیکن اسے اپنے سوال کا جواب نہیں مل رہا تھا۔ اور اسی پریشانی میں اس کی آنکھ لگ گئی اور اسے پتہ تک نہیں چلا اور جب اسے ہوش آیا تو اس نے اپنے آپ کو ہسپتال کے بستر پہ لیٹا ہوا پایا اور خاندان کا ہر فرد اس کے گرد جمع تھا اور اس کے ہوش میں آنے کی دعائیں مانگ رہا تھا۔ اور آج ان سب کی دعائیں رنگ لے آئیں تھی اور اس کو تقریبا چھے دنوں بعد ہوش آیا تھا اور وہ سب کو دیکھ دیکھ کر حیران ہورہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ وہ اس وقت کہاں ہے؟ اور تمام لوگوں کے چہرے اس کے ہوش میں آنے کے بعد کھل اٹھے تھے۔ اتنی دیر میں ڈاکٹر ایک نرس کے ہمراہ کمرے میں داخل ہوا اور اس کو بتایا گیا کہ عالیہ کو ہوش آگیا ہے، ڈاکٹر نے اس کا چیک اپ کیا اور سب سے کہا کہ اس وقت عالیہ کو اکیلا چھوڑ دیا جائے کیونکہ وہ اس وقت دواﺅں کے زیر اثر ہے اس لئے وہ کسی سے بات نہیں کرسکتی۔ ایک ایک کر کے سب لوگ کمرے سے جانے لگے کیونکہ اب اس کو ہوش آچکا تھا اس لئے سب کے چہروں پہ اب خوشی تھی۔ سب کے جانے کے بعد عالیہ کی امی ، ابو اور چھوٹی بہن عائشہ وہاں رہ گئے تھے۔ عالیہ اس وقت آنکھیں بند کئے لیٹی ہوئی تھی اور باقی تینوں نفوس بالکل خاموش بیٹھے ہوئے تھے ، اس وقت کمرے میں خاموشی کی یہ حالت تھی کہ اگر وہاں ایک سوئی بھی گرتی تو اس کی آواز صاف سنائی دیتی۔ سب کے سب بہت پریشان تھے اور اپنی اپنی جگہ کچھ نہ کچھ سوچ رہے تھے۔ خیر کافی دیر خاموشی کے بعد عالیہ کے ابو نے خاموشی کو توڑا اور وہ گلا صاف کرتے ہوئے عالیہ کی امی سے بولے بیگم تم اب عائشہ کو لیکر گھر جاﺅ میں یہیں عالیہ کے پاس رُکتا ہوں اور اب ویسے بھی عالیہ کو ہوش آچکا ہے اس لئے پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ، میں ہوں ناں یہاں۔ لیکن عالیہ کی امی کا دل نہیں کررہا تھا اپنی بیٹی کو چھوڑ کر جانے کو سو اس نے عالیہ کے ابوسے کہا نہیں میں یہاں رہتی ہوں اپنی بیٹی کے پاس آپ گھر جاﺅ اتنے دنوں سے آپ صحیح طرح سے سو بھی نہیں سکے۔ تھوڑی پس و پیش کے بعد عالیہ کے ابو راضی ہوگئے تو وہ ڈاکٹر سے ملنے کے بعد گھر چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد عالیہ کی امی ذکیہ بیگم نے بستر پر بے سُدھ پڑی ہوئی اپنی بیٹی کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ سوچ میں گم ہوگئیں کہ آخر ان کی بیٹی کے ساتھ کیا مسئلہ ہوا ہے کہ وہ ایک دم زندگی سے مایوس ہوگئی ، حالانکہ وہ لوگ تو گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے لئے شمالی علاقہ جات کو جانے والے تھے اور اس دفعہ ساتھ ان کا اکلوتا بھانجا آذر بھی جارہا تھا جس وجہ سے عالیہ بہت خوش اور پُرجوش تھی، وہ جانتی تھی کہ آذر اور عالیہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور وہ بھی خوش تھیں کیونکہ آذر گھر کا لڑکا تھا اور دیکھا بھالا تھا اس لئے انہیں کوئی پریشانی نہیں تھی بلکہ ان دونوں میاں بیو ی کا ارادہ عالیہ کے امتحانات ختم ہونے کے بعد ان دونوں کی منگنی کرنے کا تھا۔ انہوں نے اپنی ملازمہ کو عالیہ بی بی کو ان کے کمرے سے بلانے بھیجا تھا کہ وہ آکر سامان دیکھ لے جو اس نے ساتھ لیکر جانا تھا، لیکن جب ملازمہ نے آکر انہیں بتایا کہ عالیہ بی بی اپنے کمرے کے فرش پر بےہوش پڑی ہوئی ہے تو ان کے تو پیروں کے نیچے سے جیسے زمین ہی نکل گئی ہو۔ وہ عالیہ کو فورا ہسپتال لیکر پہنچے ، جہاں آج اس کو سات دن بعد ہوش آیا تھا۔ سوچ سوچ کر ذکیہ بیگم کا دماغ سُن ہونے لگا تھا لیکن ان کی سمجھ میں کوئی وجہ نہیں آرہی تھی، وہ سوچ رہی تھی کہ ایکدم ان کے ذہن میں جھماکہ سا ہوا کہ ان سات دنوں کے دوران جتنے دن عالیہ بےہوش رہی نہ تو آذر خود یہاں آیا اور نہ ہی اس نے فون کیا۔ انہوں نے سوچا کہ ہوسکتا ہے دونوں کے بیچ کوئی لڑائی ہوگئی ہو لیکن ایسی بھی کیا لڑائی کہ عالیہ کی جان پہ بنی ہوئی ہے اور آذر اس کا حال پوچھنے تک نہیں آیا ۔ وہ نتیجے تک تو پہنچ چکی تھیں لیکن انھیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ایسی کیا بات ہوئی ہے ، جس کی وجہ سے ان کی نازوں پلی بیٹی اس حال کو پہنچی ہے، سوچتے سوچتے وہ جیسے کسی نتیجے پر پہنچی اور آذر کے کان کھینچنے کا ارادہ کرکے وہ مطمئین ہوگئیں اور دوپٹے کے پلو سے اپنی آنکھیں رگڑنے کے بعد انہوں نے عالیہ کی طرف دیکھاجو دنیا و جہاں سے بے خبر بے سُدھ پڑی ہوئی تھی۔اس کی یہ حالت دیکھ کر ذکیہ بیگم کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ وہ کرسی سے اٹھیں اور عالیہ کے پاس گئی اس کے ماتھے پہ بوسہ دیا اور اس کی چادر درست کرنے کے بعد واپس اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گئیں اور یونہی بیٹھے بیٹھے انھیں اونگھ آئی اور پتہ ہی نہیں چلا کہ کب ان کی آنکھ لگی اور وہ سوگئیں۔ صبح ان کی آنکھ عالیہ کی آواز سن کر کھلی، عالیہ کچھ بڑبڑا رہی تھی۔ وہ فورا اٹھ بیٹھی اور عالیہ کے پاس جا کر کھڑی ہوگئیں اور عالیہ سے پوچھا کیا ہوا بیٹی؟ عالیہ ابھی تک بڑبڑا رہی تھی، انہوں نے جب غور سے سنا تو عالیہ ایک ہی فقرہ دہرائے جارہی تھی -"آذر تم نے اچھا نہیں کیا"، ذکیہ بیگم اس کی بڑبڑاہٹ سن کر پریشان ہوگئیں اور بھاگ کر ڈاکٹر کو بلانے چلی گئی۔ جب وہ ڈاکٹر کو لیکر کمرے میں پہنچی تو عالیہ ایک دفعہ پھر بےہوش ہوچکی تھی۔ ڈاکٹر نے اس کا معائنہ کیا اور انہیں تسلی دیکر چلا گیا۔ لیکن ان کو تسلی نہیں ہورہی تھی کیونکہ انہوں نے عالیہ کے منہ سے جو الفاظ سُنے تھے وہ ان کا ہوش اُڑانے کےلئے کافی تھے۔

ٓآذر تم نے اچھا نہیں کیا

اس بات کی حقیقت کیا تھا ؟ کوئی نہیں جانتا تھا سوائے عالیہ اور آذر کے یا پھر اللہ کے۔ ذکیہ بیگم کے ذہن میں نہ جانے کیا کیا خدشات ابھر رہے تھے۔اور وہ کسی انجانے خطر ے کو اپنے گھرانے کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔ اس شش و پنج میں دوپہر کے دو بج گئے اور گرمیوں کا موسم تھا، کمرے کا اے سی فل تھا جس کی وجہ سے کمرے میں کافی خنکی تھی، لیکن ذکیہ بیگم کے دل و دماغ میں جیسے آگ دہک رہی تھی ۔اور وہ سوچ سوچ کر پریشان ہورہیں تھی کہ اگر عالیہ کے والد اقبال صاحب کو اس بات کا علم ہوجائے تو وہ نہ جانے کیا کریں۔ اور ذکیہ بیگم دل میں دعائیں مانگ رہیں تھی کہ اقبال صاحب کے آنے سے پہلے عالیہ کو ہوش آجائے تو وہ اس سے ساری بات پوچھ سکیں کہ اس کے آذر کے مابین ایسا کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے اس کی یہ حالت ہوگئی ہے، لیکن عالیہ تھی کہ ہوش میں آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ ذکیہ بیگم نہ جانے کن خیالوں میں گم تھیں کہ اسی اثناء میں اقبال صاحب کمرے میں داخل ہوئے، لیکن ذکیہ بیگم کو ان کے آنے کی زرا بھر بھی خبر نہ ہوئی،کچھ لمحے تو اقبال صاحب اپنی بیگم کی اس کیفیت کو دیکھتے رہے لیکن جب ان سے رہا نہ گیا تو انہوں نے ذکیہ بیگم کا کندھا ہلا کر پوچھا بھئی بیگم خیریت تو ہے تم بہت گم سم بیٹھی ہوئی ہو۔ جس پر ذکیہ بیگم نے کہا کہ بس بیٹی کی وجہ سے پریشان ہوں۔ اس پر اقبال صاحب مسکراتے ہوئے بولے، بیگم پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں میں ڈاکٹر سے مل کر آرہا ہوں ، انہوں نے بتایا ہیکہ عالیہ اب بالکل ٹھیک ہے جیسے ہی اس کو ہوش آیا اسے ہسپتال سے فارغ کردیا جائے گا۔ اقبال صاحب کی بات سن کر ذکیہ بیگم کو خوشی ہوئی لیکن وہ دل ہی دل میں ڈر رہی تھی کہ اگر اقبال صاحب کے ہوتے ہوئے عالیہ کو ہوش آگیا او ر اس نے وہی الفاظ دہرا دیے تو قیامت کھڑی ہوجائے گی۔وہ من ہی من میں دعا مانگ رہی تھی کہ کسی طرح اقبال صاحب یہاں سے ہٹ جائیں۔ وہ انہی سوچوں میں گم تھی کہ اقبال صاحب پرجوش آواز میں چلائے کہ بیگم دیکھو ہماری بیٹی کو ہوش آرہا ہے، ذکیہ بیگم کی تو جیسے جان ہی نکل گئی۔انہوں نے عالیہ کی طرف دیکھا تو عالیہ آنکھیں کھولے ان کی طرف دیکھ رہی تھی۔ چند ثانیے دیکھنے کے بعد عالیہ نے اُٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی لیکن اقبال صاحب نے اس کو ایسا کرنے سے منع کردیا، اور کہا کہ بیٹا ابھی مت اٹھو ابھی تو تمہیں ہوش آیا ہے، جس پر عالیہ لیٹ گئی اور پوچھنے لگی کہ :

میں کہاں ہوں؟

مجھے کیا ہوا ہے؟

جس پر اقبال صاحب نے بتایا کہ کچھ نہیں بیٹا آپ کی طبیعت تھوڑی خراب ہوگئی تھی اس وجہ سے آپکو ہسپتال لانا پڑا، بس تھوڑ ی دیر میں سب ٹھیک ہوجائے گا۔ عالیہ سے اتنی بات کرنے کے بعد اقبال صاحب ذکیہ بیگم سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ میں ذرا ڈاکٹر کو دیکھتا ہوں تم اس کا خیال رکھنا، ذکیہ بیگم اپنے رب کا شکر ادا کررہی تھیں کہ عالیہ نے دوبارہ وہ الفاظ نہیں دہرائے تھے۔تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر آیا اس نے عالیہ کا چیک اپ کیا اور اقبال صاحب سے کہا جناب ابھی آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے عالیہ بیٹی بالکل ٹھیک ہے ، لیکن ذرا کمزوری ہے لہذا میں اس کو ایک دو دن میں یہاں سے فارغ کردوں گا۔ ڈاکٹر کے جانے کے بعد اقبال صاحب تھوڑی دیر وہاں بیٹھے اور پھر شام کو آنے کا کہہ کر وہاں سے چلے گئے۔

ذکیہ بیگم نے سکون کا سانس لیا کہ سب کچھ ٹھیک رہا۔ عالیہ اب ہوش میں تھی لیکن آنکھیں بند کئے لیٹی ہوئی تھی، ذکیہ بیگم نے آہستہ سے آواز دی عالیہ بیٹا کی تم جاگ رہی ہو؟عالیہ نے فورا آنکھیں کھول دیں، ذکیہ بیگم نے پوچھا اب طبیعت کیسی ہے؟ عالیہ نے سر کے اشارے سے بتایا کہ ٹھیک ہے۔ جس پر ذکیہ بیگم نے کہا چلو شکر ہے ورنہ ہم سب لوگ تو بہت پریشان تھے۔ ذکیہ بیگم نے ابھی عالیہ سے کچھ پوچھنے سے گریز کیا تھا ، کیونکہ ابھی ابھی اس کو ہوش آیا تھا۔ ذکیہ بیگم عالیہ کو آرام کرنے کا کہہ کر وہاں سے چلی گئی تاکہ اپنے رب کے حضور شکرانے کے نفل ادا کرسکیں۔ جب نفل پڑھنے کے بعد ذکیہ بیگم کمرے میں داخل ہوئی تو عالیہ جاگ رہی تھی بلکہ اس کی حالت پہلے سے بہتر لگ رہی تھی۔ ذکیہ بیگم نے اس کے ماتھے کا بوسہ لیا اور کرسی کو بیڈ کے نزدیک کرکے بیٹھ گئیں۔ تھوڑی دیر کے بعد کمرے کی خاموشی کو عالیہ نے توڑا ، اس نے

پوچھا ماما مجھے کیا ہوا تھا

ہم لوگ تو سیر پر جانے کی تیاریاں کررہے تھے نا؟

اور میں بہت خوش تھی ، کیونکہ آذر بھی ساتھ جارہا تھا۔

اور پھر میری آذر کے ساتھ فون پر بات بھی تو ہوئی تھی۔

اور آذر............................اس کے بعد عالیہ خاموش ہوگئی اور سسکنا شروع کردیا۔

ذکیہ بیگم کچھ دیر تو انتظار کرتی رہی، لیکن جب عالیہ کچھ نہ بولی تو انہوں نے خود پوچھا۔

بیٹا: کیا ہوا آذر کو ؟

کیا کہا اس نے کہ تمہاری طبیعت اتنی خراب ہوگئی؟

ماں کی بات سننے کے بعد عالیہ نے اپنی آنکھیں صاف کیں اور کچھ دیر خلا میں گھورتی رہی اور پھراپنی ماں سے سوال کیا

ماں ! کیا آپ مجھے بتائیں گی کہ یہ محبت کیا ہے؟

ذکیہ بیگم عالیہ کی بات سن کر خاموش ہوگئیں، تو عالیہ نے اپنا سوال دوبارہ دہرایا

تو ذکیہ بیگم نے کہا کہ بیٹا! محبت ایک انمول جذبہ ہے جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا، محبت انسان کو انسان بنا دیتی ہے۔ محبت تو خدا نے بھی کی ہے ، اور محبت تو فرشتوں نے بھی کی ہے ، لیکن تم یہ سوال کیوں پوچھ رہی ہو؟ عالیہ نے کہا ماما کیا محبت صرف جسم کو پانے کا نام ہے، کیا محبت تبھی مکمل ہوتی ہے جب دو جسم آپس میں ملیں۔ بیٹی کی باتیں سن کر ذکیہ بیگم دنگ رہ گئیں اور بولی بیٹا کیا ہوگیا ہے۔
عالیہ نے جواب دیا ماما مجھے کچھ نہیں ہوا ، میں بالکل ٹھیک ہوں، بلکہ ابھی میں ٹھیک ہوئی ہوں۔

میں اس آذر سے بے پناہ محبت کرتی تھی، اپنے آپ سے بڑھ کر، اپنے ماں باپ سے بھی زیادہ بلکہ میں اس کو اپنا خدا مانتی تھی، اس کی پوجا کرتی تھی لیکن شاید وہ اس لائق ہی نہ تھا۔اس نے اپنی اصلیت دکھا دی ، شکر ہے میری اس سے شادی نہیں ہوئی۔ ماں بیٹی کی باتیں سن کر سکتے میں آگئی اور پوچھا بیٹا بتاﺅ تو سہی ہوا کیا ہے؟ ایسی کیا بات ہوگئی ہے؟

عالیہ نے بتایا کہ پچھلے ایک سال سے آذر اس سے عجیب قسم کی ڈیمانڈز کررہا تھا، لیکن میں نے اس کا مذاق سمجھ کر منع کردیا۔ اور ایک دن وہ مجھے اپنے ایک دوست کے گھر لے گیا اور مجھ سے کہا کہ میں اس کے ساتھ وہ کام کروں جس کام کی اجازت اسلام شادی سے پہلے نہیں دیتا۔ میں نے اس کو بہت سمجھایا لیکن وہ نہیں مانا، جس پر میں اس سے ناراض ہوکر وہاں سے چلی آئی ، اور اس نے بھی مجھے بلانا چھوڑ دیا بلکہ جہاں کہیں بھی ملتا ، مجھے اگنور کرتا اور اس نے اپنے تعلقات غلط قسم کی لڑکیوں سے استوار کرلئے تھے۔

میرا خیال تھا کہ وہ مجھے جیلس کرنے کے لئے یہ کام کرتا ہے ،اور اس رات میں نے اس کو فون کیا کہ میں اسے بتاﺅں کہ ہم لوگ اکھٹے سیر کرنے جارہے ہیں ، اور مجھے لگتا تھا کہ شائد وہاں جا کر وہ ٹھیک ہوجائے گا۔ لیکن جب میں نے اس کو جانے کے بارے میں کہا تو اس نے پھر مجھ سے وہی ڈیمانڈ کی۔ میں نے منع کیا تو اس نے کہا ایک تو تم مجھ سے محبت کرنے کا دعویٰ کرتی ہو لیکن میری اتنی سی بات نہیں مان سکتی۔ میں اس کی بات سن کر سکتے میں آگئی۔ میں نے اس سے کہا کہ اگر تم مجھے کہو تو میں تمہاری خاطر اپنی جان دے دیتی ہوں لیکن یہ کام مجھ سے نہیں ہوگا۔

اس پر آذر نے کہا! جو کبھی رانجھا، مجنوں، اور فرہاد سے زیادہ محبت کرنے کے دعوے کرتا تھا۔ کہ میں نہیں مانتا محبت کو ، محبت کچھ نہیں ہے ، آج کے دور میں کوئی کسی سے محبت نہیں کرتا، نہ ہی میں، نہ تم اور نہ ہی اور کوئی اور ہاں جوباتیں میں نے تم سے کیں تھی وہ صرف تمہیں متاثر کرنے کےلئے۔ اس لئے ان باتوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ اور تم آج سے میرے لئے مرگئی۔ اور میں آئندہ تمہاری شکل نہیں دیکھنا چاہتا۔

اس کی یہ باتیں سن کر میرا دل چاہا کہ کاش! اسی وقت زمین پھٹے اور میں اس میں سما جاﺅں، میرے ہر سو اندھیرا ہی اندھیرا تھا اور اس کے بعد مجھے ہوش ہی نہیں رہا۔

اپنی بات مکمل کرنے کے بعد اس نے اپنی ماں کے کندھے پر سر رکھ دیا اور ذکیہ بیگم نے بھی اس کو نہیں روکا ، کیونکہ وہ چاہتی تھیں کہ اس کے دل کا جتنا بھی غبار ہے وہ نکل جائے۔
Adnan Shahid
About the Author: Adnan Shahid Read More Articles by Adnan Shahid: 14 Articles with 19071 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.