فٹے منہ

ایک مزدور جو روزانہ سو روپیہ کماتا ہے یا ایک سرکاری ملازم جس کی تنخواہ ٨-٩ ہزار روپے ہے- وہ مہینے بعد واپڈا کو ٢-٣ ہزار روپے بجلی کا بل دے کر اپنے بچوں کو کھانا-تعلیمی اخراجات اور گھر کے دوسرے لوازمات کیسے پورا کرے- کوئی مائی کا لال حکمران قیامت تک جواب نہیں دے سکتا- گزشتہ سال خبر آئی تھی کہ نیا سسٹم آ رہا ہے جس کے تحت جتنی مالیت کا کارڈ لوڈ کریں گے اتنی بجلی استعمال کر سکیں گے- لیکن وہ سسٹم کیوں نہیں آ سکا- اس لئے کہ بڑی بڑی فیکٹریوں- ملیں اور بڑے گھروں کی بجلی کی کھپت بھی عام آدمی کے کھاتے میں ڈالی جاتی ہے- تمام بڑے اداروں کے میٹروں کی ریڈنگ میٹر ریڈر نہیں لیتے- بلکہ بڑے افسر لیتے ہیں- جو کہ لاکھوں کروڑوں میں بنتی ہے- اس پر ستم ظریفی یہ کہ ٹی وی کے پچیس روپئے کا اضافی بوجھ بھی ڈال دیا گیا- جبکہ پی ٹی وی لاکھوں روپئے اشتہارات سے کماتا ہے- وہ رقم کہاں جاتی ہے کوئی پتہ نہیں- اب جبکہ پی ٹی وی کی طرف لوگ دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے- پچیس روپئے دھکا ٹیکس لگا دیا گیا ہے- واپڈا کے چئرمین کے پاس محکمے کی طرف سے جہاز تھا- تاکہ وہ اس میں سوار ہوکر دور سے بجلی دیکھ سکے- جس کا ہر ماہ لاکھوں روپئے کا خرچ بھی صارفین کو ہی دینا پڑتا تھا- آج کل وہ جہاز کہاں ہے کچھ پتہ نہیں- البتہ واپڈا کے ستائے ہوئے لوگ خود جہاز بن رہے ہیں- ڈیم بنانا صارف کا کام نہیں- چند جعلی اور غیر انسانی سیاستدانوں نے اپنی ذاتی ساکھ کے لئے کالا باغ ڈیم جس پر کروڑوں کا خرچا ہو چکا تھا- بند کروادیا- ادھر ہندوستان نے تمام آبی گزرگاہوں پر ّبے شمار ڈیم بنا لئے- ہمارے سیاستدان صرف اپنے ذاتی گھروں اور بینکوں کے لئے (کیش ڈیم) بناتے رہے- پوری دنیا میں تھوڑی بہت کرپشن ہوتی ہے لیکن ہمارے پیارے ملک میں بے مثال ہے- ملک اور قوم کے لئے کوئی سوچتا ہی نہیں- سوچتا ہے تو صرف اپنے گھر اور خاندان کے لئے- چند لفظوں کی شعبدہ بازی کر کے عوام کو بے وقوف بنا لیا جاتا ہے- عام گھروں کی لڑائیاں- خود کشیاں- مایوسیاں- وجہ کیا ہے- مہنگائی- بجلی کے بےتحاشہ بل- اگر ہر آنے والے حکمران ملک کا سوچتے تو بہت سی جگہوں پر بے شمار ڈیم بنائے جاسکتے تھے- لیکن ہر ایک نے صرف مال اور مال ہی بنایا- وہ مال جو مرنے کے بعد اژدھا بن کر بار بار ڈسے گا- اور جن کے لئے اس نے مال بنایا- وہی اس کی قبر کو ٹھوکریں ماریں گے- جس نے بھی یہ سسٹم بنایا ہے- کیا کہوں- سوائے اس کے کہ ---------- فٹے منہ
Doctor Munir Ahmad
About the Author: Doctor Munir Ahmad Read More Articles by Doctor Munir Ahmad: 3 Articles with 6323 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.