میرا پہلا پہلا پیار

وہ پہلی بار مجھے کالج جاتے ہوئے نظر آئی۔ میں نے ایک نظر اُس کی طرف دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ کیا خوبصورت آنکھیں تھیں اس کی میں تو اس کی آنکھوں کے سحر میں جیسے گرفتار سا ہوگیا تھا۔ لیکن وہ انجان بنی میرے پاس سے گزر گئی۔ میں دل میں کچھ سوچا اور اس کا پیچھا شروع کردیا۔ لیکن وہاں بھیڑ بہت زیادہ تھی اور وہ اس بھیڑ میں کھو گئی۔ اب میں نے اسی رستے سے روزانہ گزرنا شروع کردیا تھا لیکن کتنے ہی دن وہ مجھے نظر نہیں آئی۔ میرا دل تھا کہ اس کو دیکھنے کو بے چین ہوئے جارہا تھا۔ لیکن اس نے بھی جیسے تہیہ کیا ہوا تھا مجھے تنگ کرنے کا۔ میں خوامخواہ ہر کسی پہ ناراض ہورہا تھا اور مجھے خود نہیں پتہ چل رہا تھا کہ یہ میرے ساتھ کیا ہورہا ہے اور گھر والے میرے رویے کی وجہ سے الگ پریشان تھے۔ آخر کار ایک دن اس کو بھی اور قدرت کو بھی میری حالت پہ ترس آگیا اور وہ مجھے جاتے ہوئے اچانک نظر آگئی۔ آج اُس کی نیلی آنکھیں اس دن سے بھی زیادہ خوبصورت لگ رہی تھیں۔ اور ایک بار پھر میں اس کی آنکھوں کے سحر میں گرفتار ہوچکا تھا۔ میں پوری طرح اس کے خیالوں میں گم تھا اور اس کو اپنا بنانے کے طریقے سوچ رہا تھا۔ لیکن وہ مجھے اگنور کرتے ہوئے ایک سائیڈ پہ ہوکے میرے پاس سے گزر گئی ۔ لیکن میں نے دل میں پکا تہیہ کرلیا تھا کہ میں آج اس کے گھر کا پتہ لگا کر رہوں گا تو میں نے اس کا پیچھا شروع کردیا۔ دل میں ایک خوف بھی تھا کہ اگر کسی کو پتہ چل گیا تو بہت بدنامی ہوگی لیکن میں دل کے ہاتھوں بہت مجبور تھا۔ میں اس کے پیچھے پیچھے اس طرح انجان بن کہ چل رہا تھا کہ اس کو پتہ نہ چلے کہ میں اس کا پیچھا کررہا ہوں۔ لیکن وہ میری ذات سے بے خبر اپنی ہی مستی میں چلے جارہی تھی۔ اور اس کو اس بات کی کوئی خبر نہیں تھی کہ میرے دل پہ کیا گزرر ہی ہے۔ آخر کار تھوڑی دیر چلنے کے بعد وہ رُکی اور اِدھر اُدھر دیکھنے کے بعد وہ ایک گھر کے اندر چلی گئی اور میں سڑک پہ اکیلا رہ گیا اور اچانک مجھے دنیا ویران سی لگنے لگی۔ میں کافی دیر سوچوں میں گُم وہیں کھڑا رہا کہ شاید وہ دوبارہ باہر آئے لیکن وہ نہیں آئی۔میں بوجھل قدموں کے ساتھ واپس اپنے گھر کی جانب چل پڑا اور میں سوچ رہا تھا کہ میں اپنے گھر والوں کو اس کے متعلق سب کچھ بتادوں شاید گھر والے ہی میری کچھ مدد کرسکیں اور میں اس کو ہمیشہ کےلئے اپنا بنالوں۔ میں تھکا ہارا اور بوجھل قدموں کے ساتھ گھر میں داخل ہوا تو دروازے پہ ہی میرا ٹکراﺅ امی جان سے ہوگیا اور مجھے بوجھل اور نڈھال سا دیکھ کر انہوں نے پریشانی سے مجھے سے پوچھا علی بیٹا کیا بات ہے طبیعت تو ٹھیک ہے ناں؟ بہت سست دکھائی دے رہے ہو۔ میں نے جھوٹ بول کر انہیں ٹالنا چاہا لیکن وہ بھی ماں تھیں اور ماں سے بہتر اپنی اولاد کو کون سمجھ سکتا ہے۔ جب انہوں نے زیادہ اصرار کیا تو میں نے بھی انہیں اب کچھ سچ سچ بتانے کا فیصلہ کرلیا کیونکہ میں اس کے بناء زیادہ دیر نہیں رہنا چاہتا تھا۔ تو میں نے امی کو سب کچھ سچ سچ بتا دیا ۔ میری بات سن کر امی سوچ میں پڑ گئیں ۔ میں نے بے چینی سے امی سے پوچھا کہ آپ کس سوچ میں پڑ گئیں ہو۔ انہوں نے کہا میں آج تمہارے ابو سے اس کے متعلق بات کروں گی۔ اور میں سوچ رہی ہوں کہ پتہ نہیں اس کے گھر والے مانیں گے کہ بھی نہیں۔ امی کی یہ بات سن کر میں مایوس سا ہوگیا اور میرا چہرہ لٹک گیا لیکن امی نے مجھے تسلی دی کہ بیٹا پریشان نہ ہواگر وہ تمہاری قسمت میں ہوئی تو تم کو ضرور مل کر رہے گی بس تم اپنی پڑھائی پہ دھیان دو ۔

شام کو جب ابو گھر آئے تو میں نے امی کے کان کھانے شروع کردئیے کہ وہ ابو سے بات کریں۔ میں بار بار امی سے ایک ہی سوال کررہا تھا کہ انہوں نے ابو سے بات کی کہ نہیں اور امی میری حالت دیکھ کر مسکرا رہی تھیں اور مجھے ساتھ ساتھ ڈانٹ بھی دیتی کہ صبر کرو کرتی ہوں بات اپنے ابو کو کھانا تو کھا لینے دو پھر موقعہ دیکھ کر ہی ان سے بات کروں گی۔ کھانا کھانے کے بعد ابو ٹی وی لاﺅنج میں بیٹھ گئے اور ٹی وی پہ نیوز دیکھنا شروع کردیں اور ساتھ ساتھ مجھ سے بھی باتیں کررہے تھے اور میں بے دھیانی میں ان کی باتوں کے جواب دے رہا تھا اس بات کو ابو نے بھی محسوس کرلیا کہ میرا دماغ اس وقت آﺅٹ ہے جس پہ انہوں نے مجھے ایک دو بار ڈانٹا بھی لیکن مجھ پہ ان کی ڈانٹ کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا کیونکہ میں تو اپنے اور اس کے بارے میں حسین خواب دیکھ رہا تھا اور من ہی من میں دعائیں مانگ رہا تھا کہ ابو مان جائیں اور وہ جلد سے جلد میری زندگی میں میرے گھر میں آجائے۔ میں انہی سوچوں میں غرق تھا کہ اسی دوران امی چائے لے کر آگئیں اور مجھ سے کہنے لگی کہ علی بیٹا آپ زرا اپنے کمرے میں جاﺅ میں نے آپ کے ابو سے کوئی بات کرنی ہے۔میں فوراً وہاں سے اٹھ گیا لیکن اپنے کمرے میں نہیں گیا بلکہ ساتھ والے کمرے کے پردے کے پیچھے چھپ کہ کھڑا ہوگیا اور امی ابو کی باتیں سننے لگا۔ امی نے میرے جانے کے بعد بناء کوئی تمہید باندھے ابو سے ساری بات کہہ ڈالی جو میں نے ان سے کی تھی۔ امی کی بات سننے کے بعد ابو خاموش ہوگئے اور تھوڑی خاموشی کے بعد انہوں نے مجھے آواز دی علی بیٹا اِدھر آﺅ۔ اس وقت میرا حال یہ تھا کہ کاٹو تو لہو نہیں۔ میں مردہ قدموں کے ساتھ چلتا ہوا لاﺅنج میں آکر ابو کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ ابو نے مجھ سے کہا کہ بیٹھ جاﺅ اور شکل ٹھیک کرو۔ میں ڈرتا ڈرتا بیٹھ گیا اور تقریباً دس منٹ تک تمام وہاں خاموشی کے ساتھ بیٹھے رہے۔ اس یہ دس منٹ مجھے دس صدیوں کی طرح محسوس ہورہے تھے اور میرا دل کررہا تھا کہ ابو سے کہہ دوں کہ اب اور انتظار نہ کروائیں لیکن مارے ڈر کہ مجھ سے آنکھیں نہیں اٹھائی جارہی تھیں۔ آخر کار دس منٹ کی خاموشی کے بعد ابو نے ہی خاموشی کی فضا کو توڑا اور پوچھا جی برخودار آپ کی والدہ سے میں کیا سُن رہا ہوں۔ کیا یہ حقیقت ہے؟ لیکن مجھ میں بولنے ہمت ہی نہیں رہی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کسی نے میری بولنے کی قوت سلب کرلی ہواور میں ہونقوں کی طرح ابوکے منہ کی طرف دیکھے جارہا تھا۔ ابو نے تھوڑی دیر میری طرف دیکھا اور پھر آخر انہیں بھی مجھ پہ ترس آگیا ۔ اور مجھ سے پوچھا کہ وہ کہاں رہتی ہے۔ تو میں نے ہمت جمع کر کے انہیں اس کا ایڈریس بتادیا۔ جس پہ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے سنڈے کو ہم لوگ ان کی طرف جائیں گے اور ان سے بات کریں گے۔

اتوار آنے میں ابھی پورے چار دن تھے اور یہ چار دن مجھے پہاڑ جیسے لگ رہے تھے۔اور ایک ایک پل صدیوں جیسا لگ رہا تھا اور میں دعائیں کر رہا تھا کہ اللہ کرے جلدی سے اتوار آجائے اور ہم لوگ ان کے گھر جائیں اور وہ لوگ مان جائیں ۔ اور میں نے تو اس کے حوالے سے بہت سے خواب دیکھنا شروع کردیئے تھے ۔ اور ہروقت اس کی آنکھیں میری نظروں کے سامنے گھومتی رہتی ۔ آخر اللہ اللہ کرکے اتوار کا دن آیا اور اس دن میں صبح سویرے ہی اُٹھ گیا بلکہ یقین مانیئے کہ ایکسائیٹمنٹ سے مجھے ساری رات نیند ہی نہیں آئی ۔ میں ساری رات مستقبل کے حوالے سے خواب دیکھتا رہا اور اپنے خیالوں میں اس کو ہر جگہ اپنے ساتھ پایا۔ خیر جی دن کے تقریبا گیارہ بجے ہم لوگ گھر سے نکلے اور تقریبا پندرہ منٹ کی ڈرائیو کے بعد ہم لوگ ان کے گھر کے سامنے تھے۔ گھر کے سامنے پہنچ کر میں نے ابو سے کہا کہ بس یہیں گاڑی روک لیں اس کا گھر آگیا ہے۔ ابو نے پوچھا کون سا گھر ہے تو میں نے اشارے سے بتایا کہ یہ والا گھر ہے تو ابو بولے ارے یہ تو اپنے صدیقی صاحب کا گھر ہے ۔ میں نے پوچھا کہ صدیقی صاحب کون ہیں ؟ تو ابو نے کہا کہ صدیقی صاحب میرے کولیگ ہیں میرے ساتھ آفس میں ہوتے ہیں۔ یہ سُن کر مجھے بہت خوشی ہوئی اور میں نے سوچا کہ اب تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ خیر اگلے ہی لمحے ہم لوگ اس کے گھر ڈرائنگ روم میں موجود تھے ۔ صدیقی صاحب آئے اور وہ ابو کو دیکھ کر حیران ہوئے اور خوش بھی ہوئے اور بڑے تپاق سے ملے۔ سب لوگ بیٹھے باتیں کررہے تھے اور میری نگاہیں اِدھر اُدھر اس کو ڈھونڈھ رہی تھیں کہ شاید وہ کہیں نظر آجائے لیکن وہ کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔اسی دوران پُرتکلف سی چائے آگئی اور سب لوگ چائے پینے میں مشغول ہوگئے اور چائے پینے کے دوران ہی ابو نے صدیقی صاحب سے بات کرنا شروع کی اور میری طرف دیکھ کر مسکرا بھی رہے تھے۔

صدیقی صاحب نے ابو کی ساری بات سننے کے بعد کہا کہ پارو بہت چھوٹی تھی جب اس گھر میں آئی تھی ہم نے اس کو بہت پیار سے پالا ہے (مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ اس کا نام پارو ہے واہ کیا خوبصورت نام تھا بالکل اسی کی طرح) اور یہ کبھی بھی ہم سے دور نہیں رہی اور اگر میں اس کو آپ کو دے دو ں تو مجھے نہیں لگتا کہ یہ آپ کے گھر میں رہ پائے کیونکہ یہ ہمارے بناء کبھی رہی نہیں ہے۔ ان کی باتیں سن کر میرے دل کو ایک دھچکا سا لگا اور میں فوراً بول اٹھا کہ انکل میں اس کو بہت پیار سے رکھوں گا۔ اور اس کو آپ لوگوں کی کمی محسوس نہیں ہونے دوں گا۔ میری بات سن کر وہاں موجود تمام لوگ ہنسنا شروع ہوگئے اور میں بھی اپنی باتوں پہ غور کرنے کے بعد شرما گیا۔ صدیقی صاحب نے کہا کہ ٹھیک ہے بیٹا اگر تم اتنے یقین سے کہتے ہو تو میں اس کو آپ لوگوں کے کو دے دیتا ہوں لیکن ایک بات یاد رکھنا اس کو کسی قسم کا کوئی دکھ نہیں پہنچنا چاہیئے ۔ میں نے فوراً انہیں یقین دلایا کہ آپ کو کبھی کوئی شکایت نہیں ہوگی۔ صدیقی صاحب اس کو ہمارے ساتھ بھیجنے پہ تیار ہوگئے اور اس کے مختصر سے سامان کے ساتھ اس کو ہمارے ساتھ روانہ کر دیا۔

اس طرح سے وہ میری زندگی میں میرے گھر میں آگئی اور میں اس کو پاکر بہت خوش تھا، میرے پاﺅں زمین پہ نہیں ٹک رہے تھے۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میں نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی خوشی حاصل کرلی ہو۔
یہ سب پڑھنے کے بعد آپ لوگوں کے ذہن میں یہ آرہا ہوگا کہ وہ کون ہے جس کی پیچھے میں تنا پاگل ہوگیا تھا؟

تو دوستو وہ کوئی اور نہیں ہے وہ میری سب سے پیاری، اچھی دوست میری مانو بلی ہے جس کو ہم پیار سے پارو کہتے ہیں۔ اس کی آنکھوں کا رنگ نیلا ہے جو کہ مجھے بہت پسند ہے۔

آپ کیا سمجھے تھے؟
Adnan Shahid
About the Author: Adnan Shahid Read More Articles by Adnan Shahid: 14 Articles with 19073 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.