میاں نواز شریف کو اپنی من مانیوں کی سزا ملی

سربراہ باروزئی قبیلہ اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان
نواب غوث بخش باروزئی سے خصوصی نشست

بلوچستا ن کا مسئلہ پاکستان بننے کے ساتھ ہی چلا آرہا ہے اگر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بلوچستان کے لوگ پاکستان سے علیحدہ ہونا چاہتے ہیں تو ایسے کئی مواقع آئے کہ ایسا ہوسکتا تھا لیکن بلوچستان پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے، سب سے بڑا صوبہ ہے، بلوچستان کی عوام کبھی نہیں چاہتے کہ پاکستان سے ان کا تعلق ختم ہو۔ ان خیالات کا اظہار باروزئی قبیلے کے سربراہ و سابق نگراں وزیراعلیٰ بلوچستان نواب غوث بخش باروزئی نیقادر خان یوسف زئی کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں کیا۔ نواب غوث بخش باروزئی کے والدنواب محمد خان باروزئی بلوچستان اسمبلی کے پہلے اسپیکر بننے کا اعزاز رکھتے ہیں، بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بھی رہے۔ مضبوط سیاسی بیک گراؤنڈ اور اپنی ثقافت روایات اور پاکستان سے حب الوطنی سے جڑے نواب غوث بخش باروزئی ایک مضبوط اعصاب اور تحمل و متانت مزاج شخصیت ہیں، جو اپنے خیالات کو صاف گوئی اور ٹھوس انداز میں ہیش کرنا کا ہنر جانتے ہیں تو دوسری جانب اپنی اسی صاف گوئی اور بے باکی کی وجہ سے ان کے سیاسی مخالفین بھی زیادہ ہیں، ان کا خاندان موثر اثر رسوخ اور سیاست میں اہم مقام رکھتا ہے، یہی وجہ تھی کہ 2013میں جب بلوچستان میں نگراں وزیراعلیٰ کے طور پر ان کا نام آیا تو حکومت اور حزب اختلاف نے متفقہ طور پر نواب باورزئی کا انتخاب کیا۔

بلوچستان 2013میں دہشت گردی کی کاروائی کی وجہ سے ایک حساس ترین صوبہ بن ہوا تھا، ان حالات میں کہ بلوچستان میں انتخابات کے التوا کی خبریں سامنے آنے لگی تھی اور نواب باروزئی بتاتے ہیں کہ ہائی لیول کی میٹنگز میں بلوچستان کے انتخابات کو تین مراحل میں کرانے کی تجویز دی گئی تھی لیکن انہوں نے اسے رد کرتے ہوئے کہا کہ اس عالمی برداری کو اچھا تاثر نہیں جائے گا اور بالخصوص پاکستان کے دیرینہ دشمن بھارت کو موقع مل جائے گا کہ وہ پاکستان کے خلاف منفی پراپیگنڈے کرسکے کہ بلوچستان کے حالات پاکستان کے قابو میں نہیں، یہ تو انتخابات بھی نہیں کراسکتے، حقوق کیا دیں گے، ان کا کہنا تھا کہ سیکورٹی فورس کی کمی اور دہشت گردی بڑے واقعات کے باوجود پاکستان کے امیج کو مثبت رکھنے کے لئے انہوں نے بروقت انتخابات کرائے اور یہ ان کا اہم کارنامہ تھا۔

نواب باروزئی کا بلوچستان کا موجودہ حالات پر کئے جانے والے سوال پر کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں بلوچستان میں ناکام ہوچکی، اس کی وجہ مففی سیاست ہے، مٹبت سیاست کرنے والے بھی منفی سیاست کرنے لگے ہیں، اور جو پہلے ہی منفی سیاست کررہے ہیں وہ اسی صورت حال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں،ان کا مزید کہنا تھا کہ درحقیقت یہ مفادات کی جنگ ہے،، ہر ایک چاہتا ہے کہ وہ طاقت ور بنے، بلوچستان کو اپنی مٹھی میں لے۔ نواب باروزئی نے مزید کہا کہ بلوچستان 56فیصد مدنی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے، عوام کو قائل کرنے کے لئے انتظامی تبدیلیاں ناگزیر ہیں، عوام کے مسائل کو حل کرنا ہوگا، ان کے لئے جب تک کام نہیں کیا جائے گا، سہولت میسر نہیں ہوگی، بلوچستان کو خلفشار اور انتشار کا شکار بنانے کوشش کی جاتی رہے گی۔ انہوں نے جہان پاکستان کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ انہیں گورنر بنایا جانا تھا لیکن سیاسی ترجیحات اور مخالفین نے انہیں کام کرنے سے روکا، انہوں نے اپنے دور میں کابینہ کے بغیر کام کرکے ثابت کردیا تھا کہ عوام کے لئے کام کرنے کے لئے کابینہ کے فوج کی ضرورت نہیں ہوتی، ان کا کہنا تھا کہ ان پر کابینہ میں وزراء شامل کرنے کے شدید دباؤ گیا تھا لیکن انہوں نے پریشر کے بغیر اپنی صلاحیتوں و جذبے سے عوام کی خدمت کرکے ثابت کیا کہ کچھ بھی ناممکن نہیں، یہ میرے نظریات کے مطابق تھے جو مجھے میرے والد بابا سے ملے تھے، خاندانی ثقافت و روایات سے ملے تھے، مجھے اپنے خاندان کی عزت کا پاس تھا کہ کہیں کسی غلط غیر دانستہ عمل سے ہمارے آبا و اجداد کی قربانیوں اور خدمات پر آنچ نہ آئے اور اسی نظریئے کی وجہ سے انہیں مختلف دباؤ کا سامنا بھی رہا۔

جہاں پاکستان نے ان سے دباؤ کی نوعیت پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ بلوچستان ایک حساس صوبہ ہے، اس میں امن قائم کرنا پہلی ترجیح تھا، دوم انتخابات کے لئے غیر جانبدارنہ کردار کیونکہ حالات ایسے تھے کہ ہر ایک چاہتا تھا کہ اُسے کچھ ملے، یہاں تک کہ سرکاری ملازمتوں کے لئے اپنے پرائے سب آتے تھے لیکن میں ایسا کام نہیں کرنا چاہتا تھا کہ انہیں سبکی کا سامنا کرنا پڑتا، انہوں نے اس خبر کی سختی سے تردید کی کہ صوبے کے چیف سیکرٹری نے ان کے من پسند سیکرٹریز کی پوسٹنگ سے انکار کردیا تھا، نواب باروزئی کا کہنا تھا کہ کیا میں بے وقوف تھا کہ نئی حکومت آنے سے قبل اس طرح کرتا، یہ سراسر جھوٹ اور بہتا ن ہے اس کی میں سختی سے مذمت کرتا ہوں، انہوں نے حیرانگی سے کہا کہ میڈیا میں ایسی خبریں بھی موجود ہیں جس کا مجھے علم نہیں تھا، انہوں نے شکریہ ادا کیا کہ وہ 2013کی خبر کو سامنے لائے، انہوں نے کہا کہ آج تک کسی نے مجھ سے ایسا سوال نہیں کیا اس لئے مجھے علم نہیں تھا ورنہ وقت پر تردید کردیتا، ان کا مزید یہ کہنا تھا کہ چیف سیکرٹری میرے سامنے کچھ اور پیٹھ پیچھے کچھ اور ہوتے تھے، شائد ایسا رویہ بڑی سیٹوں والا کا ہوتا ہے کہ ان کے دل چھوٹے اور دماغ نہیں ہوتے۔
انہوں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے حوالے سے سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ کسی کا مشورہ نہیں سنتے تھے، میں تو صاف گوئی کا عادی ہوں جو مجھے اپنے بابا سے ورثے ملی تو اس کے مطابق ہی بے خوفی سے سچ کہتا ہوں، انہوں نے مزید کہا کہ یوم تکبیر 28مئی 2013کے موقع پر انہیں میں نے مشورہ دیا تھا کہ آپ دو مرتبہ وزیر اعظم بن چکے، تیسری بار بننے جا رہے ہیں، دو مرتبہ وزیراعلیٰ پنجاب بھی رہ چکے، آپ کے بھائی اب وزیراعلیٰ پنجاب ہیں، آپ نے نام بنا لیا، اب اپنے تیسرے ٹرم میں ملک کی خدمت کریں اور اس طرح کام کریں کہ تاریخ میں آپ کا نام سنہرے حروفوں میں لکھا جائے، لیکن اس کے لئے آپ کو آوارہ گرد وں کو چھوڑنا ہوگا۔ نواز شریف نے جب آوراہ گرد وں کا پوچھا کہ کون، تو انہوں نے کہا کہ یہ جو آپ کے ارد گرد جمع ہوگئے ہیں، انہیں اپنے ساتھ کیبن میں نہ بٹھائیں بلکہ پیچھے ڈالے میں بیٹھائیں کیونکہ ان کی یہی جگہ ہے۔ نواب باروزئی کا کہنا تھا کہ میں نے ان سے کہاتھا کہ میں آپ کو مشورہ دینا چاہتا ہوں اگر اس میں سے کچھ پر آپ نے عمل کرلیا تو یہ بھی بڑی بات ہوگی۔ میاں نواز شریف کو میری صاف گوئی پسند نہیں اور میرے جانے کے بعد موجود احباب سے پوچھا کہ یہ کیا کہہ رہا تھا تو ان کی مشیروں نے کہا کہ یہ درست کہہ رہے تھے، نواب باروزئی کے مطابق ان کی خجالت اور نخوت کا یہ عالم تھا کہ میرے جانے کے بعد پوچھتے ہیں کہ یہ کون تھا اور ان کا نام کیا تھا؟۔ اس پر موجود سینیٹر فصیح اقبال نے سخت ردعمل دیا کہ یہ ہمارے صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں، ان کے خاندان کا ایک نام ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ کون تھا؟۔ میاں صاحب سمجھ گئے کہ ماحول ناخوشگوار ہوسکتا ہے اس لئے خاموش ہوگئے۔

نواب باروزئی نے اپنے والد کا ذکر بھی بار بار کیا کہ انہوں نے اپنے حلقے کی عوام کو نظر انداز کئے جانے پر استعفیٰ دے دیا تھا، انہیں منانے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے کہا کہ لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ وزیراعلیٰ نیچے ہے اور میری سیٹ اوپر ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ میں پاور فل ہوں، جب مسائل حل نہیں ہوں گے تو میں عوام کو کیا جواب دوں گا۔ نواب اکبر بگٹی تو ان کے والد کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں تھے، ان کا اپنا بھی کہنا تھا کہ اگر اکبر خان کو مارا نہ جاتا تو وہ بستر پر ہی مرجاتا، مارنے کی وجہ سے وہ اب یاد کیا جاتا ہے، درحقیقت بلوچستان میں حالات کے خراب ہونے کا ذمے دار اکبر بگٹی بھی تھا، 73کے آپریشن میں بگٹی کی وجہ سے بڑے لوگ مارے گئے، NAPنے انہیں گورنر نہیں بنایا تھا اس لئے مخالفت میں انہوں نے بھٹو حکومت کافی نقصان پہنچایا۔ اگر اس وقت بگٹی گورنر نہ ہوتا تو شاید بلوچستان میں آپریشن بھی نہیں ہوتا۔ سیاست سے کنارہ کشی پر نواب باروزئی نے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ پی پی پی میرے والد کے پارٹی تھی، مجھے اصولاََ وہیں جانا چاہے تھا لیکن پی پی پی نے ہمارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا، 90، 93،97کے انتخابات میں بابا کے خلاف دھاندلی کی گئی، آصف زرداری سے ان کی ملاقات 12ستمبر2012کو ہوئی تھی، انہوں نے کہا کہ مجھے وقت بھی یاد ہے کہ 9بج کر45پر زرداری مجھ سے ملے تو میں نے اپنی بصیرت اور تجربے کی بنیاد پر کہا کہ بلوچستان میں پی پی پی کا کوئی مستقبل نہیں، آج وہ مجھے کبھی ملیں تو ان سے پوچھوں گا کہ کیا میں نے درست نہیں کہا تھا کہ بلوچستا ن میں پی پی پی گراؤنڈ میں صفر ہوگی۔ انہوں پنے پارٹی میں شمولیت پر کہا کہ آپ میری پارٹی میں شامل ہوجائیں، تو میں نے کہا کہ یہ آپ کی پارٹی کہاں سے ہوئی یہ تو میرے باپ (بابا) کی پارٹی تھی، لیکن آپ نے یتیم کے سر پر ہاتھ نہیں رکھا، فاتحہ تک نہیں پڑھی۔ زرداری نے کہا کہ بہن سے مل لیں، میں نے انہیں جواب دیا ان سے پہلے ہی مل چکا ہوں۔

نواب غوث بخش باروزئی کا کہنا تھا کہ میرے والد (بابا) کے ذوالفقار علی بھٹو سے بہترین اور دیرینہ تعلقات اور دوستی تھی بھٹو صاحب ان پر اندھا اعتماد کرتے تھے۔ لیکن مارشل لا ء کے بعد جب نیب کو ختم کیا گیا اور بابا پر الزامات لگے تو میں اب بھی چیلنج کرتا ہوں کہ کوئی بھی ایک روپے کی کرپشن ثابت کردے۔ بلوچستان میں اسٹیبلشمنٹ کے ملوث ہونے کے سوال پر ایک واقعے کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب میرے بابا 1976میں وزیراعلیٰ تھے اور اطہر من اللہ کے والد نصر من اللہ صوبے کے چیف سیکرٹری تھے تو انہوں نے خود بابا کو کہا کہ آپ کو یاد ہے کہ جب میں کوئٹہ ڈویژن کا کمشنر تھا تو بابا نے ٹوکتے ہوئے کہا کہ ہاں مجھے یاد ہے کہ آپ نے میرے کہنے پرجائز کام نہیں کیا تھا اور بگٹی کے کہنے پر ناجائز کام کردیا تھا، جس پر چیف سیکرٹری نصر من اللہ کا کہنا تھا کہ وہ مجبور تھے اوپر سے دباؤ تھا۔ نواب باروزئی کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کا دباؤ ہوتا ہے، لیکن وہاں کے لوگوں کو اصل حالات سے بے خبر رکھا جاتا ہے۔ جس طرح مارشل لاء دور میں ایک تحریک چلی تھی اور نعرے لکھے جاتے تھے کہ آمریت کے تین نشان، بھٹو، بگٹی اور ٹکا خان۔ جمالی نے اپنے ڈر کی وجہ سے اسمبلی توڑی تھی، اس وقت بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ یہ اچھا نہیں ہوا، میں سپریم کورٹ جاؤں گی، لیکن وہ گئی نہیں۔ انہوں نے کہا کہپی پی پی نے ظفر اللہ جمالی کو وزیراعلیٰ بلوچستان بنا دیا گیا کہ وہ منیج کرلیں گے، لیکن وہ ڈیلیور کرنے میں ناکام رہے۔ نواب باروزئی نے مزید کہا کہ میں نے پاکستان کے لئے ووٹ دیا، میرے والد نے میرے دادا نے پاکستان کے لئے خدمت کی، میں چاہتا تو قوم پرستی کی سیاست کرسکتا تھا لیکن میرے نزدیک پاکستان کی سا لمیت و بقا پہلے بھی ترجیح تھا اور آج بھی۔ان کا ماننا ہے کہ بلوچستان میں نظام اور انتظام کو نیک نیتی سے درست کردیا جائے تو بلوچستان کے عوام کے مسائل حل ہوسکتے ہیں اور حقیقی ترقی و امن آسکتا ہے۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 660499 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.