سانحہ مری، دوسرا رُخ

سانحہ مری پر بہت بحث ہو چکی،حکومت کو ،مری کی انتظامیہ ، ٹریفک پولیس کو ، سڑکوں سے متعلقہ اور ریسکیو کے اداروں کو بہت بُرا بھلا کہا جا چکا ہے ، وزیر داخلہ اور وزیر اعظم کو ملزم تک ٹھہرایا جا چکا ہے، مری کے کاروباری حلقوں خاص طور پر ہوٹلز مالکان و منتظیمین کو بے حساب بے نقط سنائی جا چکی ہیں ، لیکن دو اصل ذمہ داران کو با لکل ہی نظر انداز کر دیا گیا ہے،عوامی غصہ اب اُتر رہا ہے اور اب میڈیا کی طرح عوام کے دلوں کی آگ بھی خود بخودٹھنڈی ہوتی چلی جا رہی ہے اور سوشل میڈیا کا بخار بھی صاف اترتا دکھائی دے رہا ہے،سوال پیدا ہو تا ہے کہ کیا مرنے والوں کا ہم زندوں پر اتنا ہی حق تھا ؟ نہیں ہر گز نہیں انسانی جان اتنی کم قیمت نہیں ہو سکتی اور نہ ہی ایسے حادثے اتنی جلدی بھلائے جانے چاہئیں، مری کے ہوٹل والوں نے کیا کیا، کیسے پانچ ہزار روپے کے کمرے کا پچاس ہزار طلب اور وصول کیا، اس کی ذمہ داری ہوٹل والوں سے زیادہ مری کی انتظامیہ کے سر پر آئد ہوتی ہے، ایک تھانیدار سے لے کر اے سی مری اور ڈی ایس ہی مری تک اس لُٹ میں شامل ہیں ، ورنہ اتنی کھلی لا قانو نیت،اور لُوٹ تو صرف ڈاکو کیا کرتے ہیں ،میں ہمیشہ سے کہتا ،لکھتا چلا آیا ہوں کہ لوٹنے والا صرف لُٹیرا اور مجرم ہوتا ہے ،اس کی ظاہری حیثیت چاہے پولیس کی ہو ، سول انتظامیہ کی ہو ،یا ہوٹل مالکان کی ،لیکن وہ دراصل ثور لُٹیرا اور ڈاکو ہی ہوتا ہے اور اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جانا چاہئے، کیا مری میں ایسا کچھ اب تک ہوا، نہیں ، اس لئے کہ یہ لوٹ کا مال اور اوپر تک جاتا ہو گا، اور اوپر تک لُٹیرے نقاب پہنے بیٹھے ہونگے،ان لُٹیروں کو بے نقاب کرنا اور ان کا احتساب کرنا ہی ہمارا ،حکومت کا کام ہونا چاہئے، لیکن اب تک اس ضمن میں حکومت خاموش ہے، زب زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا ، انتظامیہ کریک ڈاؤں کا ناٹک کرے گی ،جرمانے کرے گی، اور اس سانحے پر مٹی ڈال دی جائے گی، اگلے سال بلکہ ابھی دو ہفتے بعد پھر سے بھرپور لوٹ مار شروع ہو جائے گی،اور انتظامیہ کو حرام سے ان کا بھرپور حصہ ملنا شروع ہو جائے گاجو اوپر اور اوپر را ولپنڈی تک جائے گا، شاید مزید اوپر بھی تحفے جائیں، قارئین روایتی طور پر مری اپو زیشن کا علاقہ ہے اس سانحے کے بعد جب یہ سارا استحصال طاہر ہو گیا تو اپو زیشن کو کم از کم انسانی ہمدردی کے طور پر اپیلیں تو کرنی چاہئیں تھیں کہ مری والو یہ لُوٹ چھوڑ دو ایسا نہ ہو کہ دست قدرت حرکت میں آئے اور کسی ذلذلے کے ایک جھٹکے میں ہی مری میدان بن جائے، مگر وہ تو صرف حکو مت کو ہی معتوب کرنے میں لگے ہیں اور حکومت والے تو اس برفانی طوفان کو بھی اپو زیشن کی سازش اور ان کے پچھلے تیس سالوں کا شاخسانہ ثابت کر دینا چاہتے ہیں ، میری نظر میں اس ضمن میں حکومت اور اپوزیشن دونوں غیر سنجیدہ اور ناکام ہیں ،اس لئے اب خود عوام کو، حقیقی علما کو سول سو سائٹی کو آگے بڑھنا ہوگا، اور اس بُرائی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنا ہو گا،ورنہ مری اور چولستان ِ بیابان میں کوئی فرق باقی نہ رہے گا، اور یہ انسانوں کا جنگل کسی ناگہانی آگ میں جل کر بھسم ہو جائے گا،تب اس کی ذمہ دار حکومتِ وقت اور گذری ساری حکومتیں ٹھریں گی،اور پھر قدرت ہی اس کا احتساب کرے گی، قارئین ایک تو احتساب کا لفظ ہمارے ہاں ایک مزاق بن کر رہ گیا ہے،اسے اب لوگ سچی جھوٹی انکوائری اور تفتیش کا نہ ختم ہونے والا عمل سمجھتی ہے ،حالانکہاحتساب کا مطلب گرفت اور سزا ہے، لیکن افسوس کہ آج تک پاکستان میں کسی بھی بڑے مجرم کو سزا نہ مل سکی،( میں سیاسی نہیں اخلاقی مجرموں کی بات کر رہاہوں)جس کی وجہ سے جُرم نچلی سطح تک پھیل کر قوم اور خاص طور پر مری جیسے علاقوں کے کاروباری اور معاون حلقوں میں سر ئیت کر گیا ہے، اور قوم کے جسم کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے، اور اب یہ عمارت کسی وقت بھی ملبے کا ڈھیر بن سکتی ہے۔۔۔ جی جنا ب اب آئیے سنحہ مری کے اصل مجرمان کی طرف ،جن کا ابھی تک چرچا ہی نہیں ہو سکا ہے، دیکھیے ایک بات ذہن نشین کر لیجیے کہ مری کے ہوٹلوں کے جبر کا شکار ہونے والے سیاحوں میں سے ایک بھی کم ازکم موت کا شکار نہیں ہوا ہے،انہوں نے تکلیف آٹھائی ہے، پریشانی دیکھی ہے، وہ لُٹ پُٹ گئے ہیں ، مگر کوئی بھی جان سے نہیں گیا، جتنے بھی اس رات اﷲ کو پیارے ہوئے،وہ سب دور سڑکوں پر اور اپنی کمعلمی، آگاہی اور سمجھ نہ ہونے کی بنا پر جان سے گئے،اس میں پہلا مجرم لائیسنسنگ اٹھارٹی، جنہوں نے لوگوں کو ڈرائیونگ لائسنس تو دے دیے لیکن وہیکل کے استمال اور خدشات سے متعلق آگاہی نہ دی، اس میں اُن کے ساتھ اعانت کے مجرم ٹھرے مری کے ٹریفک پولیس والے ، لیکن وہ بے چارے بھی کیا کرتے،وہ تو اس گاڑیوں میں ہیٹنگ ،اس سے بننے والے کاربن اور آکسیجن کی کمی پیدا ہونے کے نظام سے خود ہی بے بہرہ تھے، لا علم تھے بلکہ خود لائسنسنگ اتھارٹیوں نے اس صورت حال کا کبھی گمان بھی نہ کیا ہوگا،یہ سب گاڑیوں کی فراوانی کا نتیجہ بھی ہے،کہ گاڑی کی ڈرائیورز کی اہمیت ہی ختم ہو کر رہ گئی ہے، بہت سے لوگوں کو یاد ہوگا، اور میں تو خود گواہ ہو کہ جب نئی نئی باٹل گیس(سیلنڈروں والی گیس) پاکستان میں عام ہونے لگی تو احتیاطی تدا بیر کا بہت شور و غوغا تھا، لوگ گیس استمال بھی کرتے تھے اور اس کے آگ پکڑ لینے کی خصوصیت سے ڈرتے بھی بہت تھے، چنانچہ جب مظفرآباد آزاد کشمیر میں پہلی ایجنسی ٹائپ کھلی تو ہم نے کنکشن یعنی ایک سیلنڈر اور چولہا لیا تو اُس کو نصب اور چالو کرنے کے لئے ایجنسی سے ایک انجنیئر نما ایکسپرٹ ہمارے ساتھ آیا ،سلنڈر چولہا وغیرہ جوڑنے کے بعد جب وہ آزمائشی طور پر چولہا جلانے لگا تو سب بڑوں اور بچوں کو کچن سے خاصی دور بھیج دیا ،ہم جھانک جھانک کر دیکتھ رہے ، جب وہ مطمعن ہوگیا تو پھر ہدایات کا ایک لمبا سبق ہمارے کانوں میں اُنڈیلا اور رات کو پیچھے سے ریگو لیٹر کو بند کرنے کی سختی سے ہدایت بھی کی،ورنہ آگ اور دھماکے سے خوب ڈرایا، اب دیکھ لیں گلی گلی میں گیس فلنگ سینٹر بغیر کسی احتیاط کے لاپرواہی سے کام کر رہے ہیں حادثات بھی ہوتے رہتے ہیں اور دوسرے دن سے ہی اپنے کاموں اور انہی فلنگ والوں سے گیسیں بھرواتے نظرآتے ہیں، یہی حال گاڑیوں کا ہو گیا ہے ہر ایرا غیرا بغیر کسی ٹریننگ کے اور چند سینکڑوں یا ہزاروں میں لائسنس خرید کر سڑکوں پر چڑھ دوڑتا ہے، اور پھر نتیجہ۔۔۔ قارئین لائسنسنگ اٹھارٹی کے علاوہ گاڑیاں خرید و فروخت کرنے والے شو رومز ایجنسیوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر اور جنرل آگاہی سے متعلق اردو میں چپا ایک کتابچہ خریداروں کو مہیا کریں، پھر گاڑیوں میں اے سی اور ھیٹر وغیرہ لگا نے والے مکیننگ بھی اپنے پاس آنے والوں کو ان خطرات سے ہمہ وقت آگاہی دیتے رہیں، دیکھیں مری میں جتنی اموات بھی ہوئیں گاڑیوں میں گیس بھر جانے کے باعث ہوئیں، جو دیگر سینکڑوں رات کو سڑکوں پر پھنسے تھے وہ تھوڑی سی آگاہی اور عقل مندی کے باعث نہ گیس کا شکار ہوئے نہ سر دی سے مرے، تو مطلب یہ ہوا کہ ان ساری اموات کا باعث صرف اور صرف لاعلمی تھی، ورنہ تو خدا نہ خواستہ اگر لوگ سردی سے مرنے لگتیتو ہمیں سینکڑوں لاشے آٹھانے پڑتے اور پورے ملک میں صف ماتم بچھ جاتی،اس لئے ایک طرف تو ڈرائیونگ لائسنس (خصوصی طور پر پرائیویٹ لائسنس) جاری کرتے وقت یہ ساری آگاہی نصاب کا حصہ ہونی چاہئے، سکولوں کالجز میں یہ ساری تدابیر اور ٹریفک قوانین سکھائے پڑھائے جانے چاہئیں اور خاص طور پر ٹریفک والوں کو یہ سب سکھایا جا نا چاہئے، اس لئے ضروری ہے کہ حادثے کے اصل ذمہ داروں کا تعین کیا جائے، اور انہیں آگاہی دینے کا پورا احتمام کیا جائے، اور رہ گئی بات مری کے ہوٹلوں کی ،تو یہ ایک مافیا ہے، لُٹیروں کا ایک گروہ ہے جن کی سر پرستی مری کی انتظامیہ اور پاکستان و کشمیر و گلگت بلتستان کے منتظمین جانے انجانے میں کر رہے ہیں ، مری کے ہوٹلوں کے کرائے ،کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں اب ایک بار طے ہو جانی چاہئیں مگر اُس سے پہلے اے سی سمیت ساری انتظامیہ اور پولیس کو ایک بار تبدیل کر دینا چاہئے ور کنویں سے اگر مردار نہ نکالا گیا تو نہ چالیس ڈول پانی نکالنے کا کوئی فائدہ ہوگا نہ چالیس ہزار ڈول۔

 

Ishtiaq Atish
About the Author: Ishtiaq Atish Read More Articles by Ishtiaq Atish: 2 Articles with 830 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.