شب برات

اتنا آجاﺅ پسند تم خدا کو
کہ تمہاری قبولیت کی یہ صورت ہو
بن مانگے تم کو مل جائے سب کچھ
کہ دعا کو خود تمہارے ہاتھ کی ضرورت ہو

”اہل کتاب میں ایک گروہ ایسا ہے جو دین پر قائم ہے‘ وہ رات کے اوقات میں آیات الہٰی کی تلاوت کرتے ہیں اور سجدے کرتے ہیں۔“ شعبان المعظم کی پندرہویں رات کو شب برات کہا جاتا ہے۔ برات کا مطلب نجات کی رات ہے۔ اس رات کی خصوصیت یہ ہے کہ اس رات میں اﷲ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو اپنی خصوصی رحمت سے نوازتا ہے اور اس رات ہر امر کا فیصلہ ہوتا ہے اور اﷲ تعالیٰ مخلوق میں تقسیم رزق فرماتا ہے۔ اس کے علاوہ پورے سال میں اُن سے سرزد ہونے والے اعمال اور پیش آنے والے واقعات سے اپنے فرشتوں کو باخبر کرتا ہے۔ لیکن انسان اتنا بے حس اور نا ڈر ہوتا ہے کہ یہاں مجھے اقبال کا خدا سے شکوہ جس میں تحریر ہے‘ روزحشر میں بے خوف گھس جاﺅں گا‘ جنت میں وہاں سے آیا تھا آدم وہ میرا باپ کا گھر ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ نے بھی کیا خوب جواب دیا کہ اِن اعمال کے ساتھ تو جنت کا طلب گار ہے کیا۔ وہاں سے نکلے گئے تھے آدم تو تیری حیثیت ہے کیا۔ حضور ایسی ہی بے خوف امت کے لیے ارشاد فرماتے ہیں: اٹھو شعبان مہینہ کی پندرہویں رات کو‘ یہ رات مبارک ہے فرماتا ہے اﷲ تعالیٰ اس رات کو ہے کوئی ایسا جو بخشش چاہتا ہو‘ مجھ سے تاکہ میں بخش دوں اور تندرستی مانگے تو تندرستی دوں اورہے کوئی محتاج کہ آسودہ مالی چاہتا ہو تاکہ اُس کو آسودہ کروں چنانچہ صبح تک ہی ارشاد ہوتا ہے۔ جیسے سورة رحمن میں ہے کہ اے لوگو! اور تم خدا کی کن کن رحمتوں کو جھٹلاﺅں گے۔ حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس نے ارشاد فرمایا کہ نصف شعبان کی رات میں اﷲ تعالیٰ قریب ترین آسمان کی طرف نزول فرماتا ہے اور مشرک دل میں کینہ رکھنے والے اور رشتہ داروں کو یا منقطع کرنے والے اور بدکار عورت کے سوا تمام لوگوں کو بخش دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ابونصر نے بالا سناد مروہ سے روایت کی کہ حضر عائشہ ؓ نے فرمایا کہ ایک رات میں نے رسول اﷲ کو بستر پر نہیں پایا‘ میں (آپ کی تلاش میں) گھر سے نکلی‘ میں نے دیکھا کہ آپ بقیع کے قبرستان میں موجود ہیں اور آپ کا سر آسمان کی جانب اٹھا ہوا ہے۔ حضور نے مجھے دیکھ کر فرمایا کہ تمہیں اس بات کا اندیشہ ہے کہ اﷲ اور اس کا رسول تمہاری حق تلفی کریں گے‘ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ میرا گمان تو یہی تھا کہ آپ کسی بی بی کے یہاں تشریف لے گئے ہیں‘ حضور نے فرمایا اﷲ تعالیٰ نصف شعبان کی رات میں دنیا کے آسمان پر جلوہ فرما ہوتا ہے اور اپنی کلب کی بکریوں کے بالوں کے شمار سے زیادہ لوگوں کی بخشش فرما دیتا ہے ایک اور جگہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے مجھ سے فرمایا! عائشہ یہ کونسی رات ہے؟ انہوں نے عرض کیا اﷲ اور اس کے رسول ہی بخوبی واقف ہیں۔ حضور نے فرمایا یہ نصف شعبان کی رات ہے۔ اس رات میں دنیا کے اعمال‘ بندوں کے اعمال اوپر اٹھائے جاتے ہیں‘ ان کی پیشی بارگاہ رب العزت میں ہوتی ہے۔ تو کیا تم آج کی رات مجھے عبادت کی آزادی دیتی ہو؟ میں نے عرض کیا ضرور! پھر آپ نے نماز پڑھی اور قیام میں تخفیف کی‘ سورت فاتحہ اور ایک چھوٹی سورت پڑھی‘ پھر آدھی رات تک آپ سجدے میں رہے۔ پھر کھڑے ہو کر دوسری رکعت پڑھی اور پہلی رکعت کی طرح اس میں قرات فرمائی اور پھر سجدے میں چلے گئے‘ یہ سجدہ فجر تک رہا‘ میں دیکھتی رہی مجھے یہ اندیشہ ہو گیا کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول کی روح مبارک قبض فرمالی ہے۔ پھر جب میرا انتظار طویل ہوا تو میں آپ کے قریب آئی اور میں نے حضور کے تلوﺅں کو چھوا تو حضور نے حرکت فرمائی میں نے خود سنا کہ حضور سجدے کی حالت میں یہ الفاظ ادا فرمارہے تھے“ الہٰی میں تیرے عذاب سے تیری عفو اور بخشش کی پناہ میں آتا ہوں‘ تجھ سے ہی پناہ چاہتا ہوں‘ تجھ سے ہی تیری رضا کی پناہ چاہتا ہوں تیری ذات بزرگ ہے‘ میں تیری شایان شان ثنا بیان نہیں کر سکتا تو ہی آپ اپنی ثناءکرسکتا ہے۔“

صبح کو میں نے عرض کیا کہ آپ سجدے میں ایسے کلمات ادا فرمارہے تھے کہ ویسے کلمات میں نے آپ کو کہتے کبھی نہیں سنا۔ آپ نے دریافت فرمایا؟ کیا تم نے یاد کر لیے ہیں‘ میں نے عرض کی جی ہاں آپ نے فرمایا خود بھی یاد کرلو اور دوسروں کو بھی سکھا دو۔ کیونکہ جبرئیل علیہ السلام نے مجھے ان کلمات کو ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ اگر اس رات (نماز خیر) پڑھی جائے تو انسان کے ستر گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس کی 100رکعتیں ہیں ہر رکعت میں 10مرتبہ سورة اخلاص پڑھی جائے اس طرح 100رکعتوں میں ایک ہزار سورة اخلاص پڑھی جائے گی۔ اس نماز کی بہت برکت ہیں۔ اس کے علاوہ اس شب میں قرآن شریف‘ درود شریف‘ صلوٰة التسبیح اور دیگر نوافل پڑھیں۔ پھر روزہ رکھیں۔ اﷲ اپنے حبیب پاک کے صدقہ میں تمام مسلمانوں کو خلوص کے ساتھ نیک عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آخر میں ان اشعار سے اختتام کرتی ہوں۔
ہر سجدہ مقبول خدا اہو جائے
تیری دعاﺅں کے سنگ رب کی رضا ہو جائے
ملے اس ماہِ مقدس میں تجھے وہ خوشیاں
کہ ہزاروں سال تک غم تجھ سے خفا ہو جائے
(آمین)
Sana Rana
About the Author: Sana Rana Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.