گناہوں سے مغفرت کی رات شب برات

تحریر و تحقیق : محمداسلم لودھی

فارسی زبان میں شب کے معنی رات کے ہیں اور برات عربی کالفظ ہے جس کے معنی پاک ٬ بری ہونا ٬ نجات پانا٬ چھٹکارا حاصل کرنے کے ہیں۔ اسی مناسبت سے شب برات کو گناہوں سے نجات کی رات قرار دیاجاتا ہے۔کیونکہ اللہ تعالٰی اپنی خاص رحمت سے ان بے حد و حساب گنہگاروں کی بخشش فرماتا ہے جو اس مقدس رات کو سچے دل سے معافی کے طلب گار ہوتے ہیں۔یہ ماہ شعبان کی پندرھویں رات ہوتی ہے ۔حضرت عطار بن سار ؓ فرماتے ہیں لیلہ القدر کے بعد شب برات سے زیادہ افضل کوئی رات نہیں ہے۔ اس بابرکت رات کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے ۔ برکت والی رات٬ رحمت والی رات٬ نجات والی رات ۔ اس رات میں چونکہ غروب آفتاب سے طلوع آفتاب تک رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس شب کو شب رحمت بھی کہاجاتا ہے۔اس مقدس رات میں تقسیم امور ٬ نزول رحمت ٬ فیضان بخشش ٬ قبول شفاعت ٬ فضلیت عبادت جیسے امور انسانی سال بھر کے لیے طے کئے جاتے ہیں ۔۔

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام شعبان کی پندرہویں رات حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا محمد ﷺ آپ اپنا سر مبارک آسمان کی طرف بلند فرمائیں۔ آپ ﷺ نے پوچھا یہ کون سی رات ہے تو جبرئیل علیہ السلام نے کہا یہ مبارک رات ہے جس میں اللہ تعالٰی رحمت کے تین سو دروازے کھول دیتا ہے کافروں اور مشرکوں کے علاوہ تمام مسلمانوں کو بخشش دیتا ہے مگر شرک کرنے والوں ٬کسی انسان کو ناحق قتل کرنے والوں ٬ والدین کی نافرمانی کرنے والوں ٬ شراب پینے والوں ٬ زانی مردوں اور عورتوں ٬ تکبر اور غرور کرنے والوں٬ سود خوروں٬ کاہن / نجومیوں٬ گانے والوں اور مسلمان بھائیوں سے ناحق قطع تعلق کرنے والوں کو نہیں بخشتا ۔ہاں اگر یہ سب اپنے اپنے گناہوں سے توبہ کرلیں اللہ تعالٰی کی وحدانیت اور آپ ﷺ پر ایمان لے آئیں تو ان کی بخشش بھی ہوسکتی ہے۔پھر جب رات کا چوتھائی حصہ شروع ہوا تو جبرئیل علیہ السلام پھر حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول ﷺ اپنا سر اٹھائیے ۔ سرکار مدینہ ﷺ نے سر اٹھا کر دیکھا تو جنت کے سب دروازے کھلے ہوئے تھے۔ پہلے دروازے پر ایک فرشتہ ندا دے رہا تھا کہ اس رات میں رکوع کرنے والوں کو بشارت ہو ٬ دوسرے دروازے پر متعین فرشتہ آواز دیتا تھا کہ اس رات میں سجدہ کرنے والوں کے لیے بشارت ہو ٬ تیسرے دروازے پر ایک فرشتہ آواز دیتا تھا کہ اس رات میں دعاکرنے والوں کے لیے بھلائی ہو۔ چوتھے درواز ے پر موجود فرشتہ آواز دیتا تھا کہ اس رات ذکر کرنے والوں کو مبارک ہو ۔ پانچویں دروازے پر ایک فرشتہ آواز دیتا تھا کہ اس رات میں خوف خدا کی وجہ سے رونے والوں کو مبارک ہو ۔ چھٹے دروازے پر کھڑا ہوا فرشتہ آواز دیتا کہ آج کی رات کوئی مانگنے والا ہے جس کو اس سے بڑھ کر دیا جائے ۔نبی کریم ﷺ نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ دروازے کب تک کھلے رہتے ہیں ۔ جبرئیل علیہ السلام نے کہا یا رسول ﷺ شروع رات سے فجر کے نمودار ہونے تک ۔ پھر جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا ۔یا رسول ﷺ اس رات اللہ تعالٰی قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد کے برابر لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے۔( عرب میں بکریاں پالنے کا رواج عام تھا لیکن قبیلہ بنی کلب کی بکریاں سب سے زیادہ " بیس ہزار "تھیں ان بیس ہزار بکریوں کے بال کتنے ہوں گے جن کا شمار کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے ) حوالہ غنیہ الطالبین ص 377 جامع ترمذی ص 404 جلد اول ٬ ابن ماجہ شریف

نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگر شعبان کی پندرھویں رات زندگی میں حاصل ہو تو اس رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو کیونکہ اس رات میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ ہے کوئی مجھ سے بخشش مانگنے والا ٬ کہ میں اسے بخش دوں ٬ ہے کوئی مجھ سے رزق مانگنے والا کہ میں اس کو رزق عطا کروں٬ ہے کوئی مصیبت زدہ جس کو میں عافیت بخشوں ٬ ہے کوئی بیمار جو مجھ سے صحت اور تندرستی مانگے میں اسے شفا بخشوں ۔ ہے کوئی جنت کا طالب جس کو میں جنت عطا کرو ں ٬ رب کائنات کی جانب سے اس قسم کی ندائیں ساری رات آتی رہتی ہیں حتی کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے ۔( ابن ماجہ ص 398 جلد اول )

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت ہے کہ قام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من اللیل یصلی فاطال السجود حتی طننت انہ قد قبض 0 ۔ شعبان کی پندرھویں رات آپ ﷺ نے نفل نماز پڑھتے ہوئے اتنا طویل سجدہ کیا کہ مجھے گمان ہوا کہ آپ ﷺ کی روح قبض کرلی گئی ہے ۔حضرت عثمان بن محمد ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں کی عمریں ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک طے کی جاتی ہیں ( شعب الایمان ص 386 جلد 3)۔ حضرت راشد بن سعد ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ شعبان کی پندرھویں رات کو اللہ تعالٰی ان تمام روحوں کو قبض کرنے کی تفصیل ملک الموت کو فراہم کرتا ہے جو اس سال قبض کی جائیں گی۔ ( روح المعانی ص 113 جلد 25)۔ گویا اس بابرکت رات کو انسانوں کی موت اور زندگی کے فیصلے بھی کئے جاتے ہیں اور توبہ کے دروازے بھی کھول دیئے جاتے ہیں۔یہ انسان کے اپنے بس میں ہے کہ وہ اس رات کو غفلت بھری نیند سو کر گزار دے یا اپنی آخرت سنوارنے کے لیے عبادت کرتے ہوئے بسر کرے ۔

روض الافکار میں ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ایک پہاڑ پر تشریف فرما ہوئے۔ اس پر ایک سفید رنگ کا خوبصورت گنبد نما بلند پتھر دیکھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس گنبد کو چاروں طرف سے بغور دیکھا اوربڑے تعجب سے اس کے گرد گھومنے لگے۔ اللہ تعالٰی نے وحی نازل فرمائی اور فرمایا اے روح اللہ ٬ ( حضرت عیسی علیہ السلام ) کیا میں تجھ کو اس سے زیادہ عجیب چیز نہ دکھاﺅں تمہاری خواہش ہے کہ اس کا راز تم پر ظاہر کردوں ۔ آپ علیہ السلام نے عرض کی ۔ الہی ۔ میری تمنا تو یہی ہے ۔پھر اچانک وہ پتھر شق ہوگیا اس کے اندر آپ علیہ السلام کو ایک انسان عبادت میں مشغول دکھائی دیا جس کے قریب انگور کی بیل پڑی تھی قریب ہی ایک چشمہ بہتا ہوا نظر آیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تعجب بھرے انداز میں عبادت میں مصروف اس انسان سے پوچھا کہ تم کب سے یہاں مصروف عبادت ہو ٬ اور عبادت کرتے ہوئے تمہیں کتنی مدت گزری ہے تو اس نے کہا میں یہاں چار سو سال سے عباد ت کررہا ہوں جب بھوک لگتی ہے تو انگور کھالیتا ہوں پیاس محسوس ہوتی ہے تو چشمہ سے سیراب ہوجاتا ہوں۔ یہ سن کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں عرض کی اے تمام جہانوں کے مالک ۔ اس شخص جیسی عبادت شاید تیرے کسی بندے نے نہیں کی ہوگی ۔اللہ تعالٰی نے فرمایا اے عیسیٰ علیہ السلام میرے حبیب حضرت محمد ﷺ کا غلام اور آپ ﷺ کا امتی جو شعبان المعظم کی پندرھویں رات میں صرف دو رکعت نفل نماز پڑھ لے گا وہ اس شخص کی چار سو سالہ عبادت سے بہتر اور افضل ہوگا۔حضرت عیسی علیہ السلام ٬ امت مصطفے ﷺ کی شان و شوکت سن کر پکار اٹھے اور دعا کی کہ اے اللہ تو مجھے حضرت محمد ﷺ کی امت میں داخل فرمالے ۔(نزہتہ المجالس ص 132 جلد 1)

حضرت مالک بن دینار ؓ کاشمار نہایت متقی اور پرہیز گارتابعین میں ہوتا ہے آپ کو شراب نوشی کی پرانی عادت تھی پھر ایسے تائب ہوئے کہ دوبارہ شراب کو ہاتھ تک نہ لگایا اور پوری زندگی اللہ کی عبادت میں گزار دی ۔ کسی نے آپ ؒ سے اچانک توبہ کا سبب پوچھا ۔ تو آپ ؒ نے فرمایا میری چھوٹی سی بچی تھی جب میں اس کے سامنے شراب پینے لگتا تو میرے سامنے ہی شراب کی بوتل کو انڈیل دیتی تھی وہ دو سال کی ہوئی تو فوت ہوگئی ۔ مجھے اس کے انتقال کا بہت صدمہ تھا اور میں اسے اکثر یاد کرتا ۔ شعبان المعظم کی پندرھویں رات آئی تو میں نے خواب میں دیکھا کہ قیامت قائم ہوگئی ہے ایک بڑا اژدھا ( سانپ) منہ کھولے میرے پیچھے نگلنے کے لیے بھاگ رہا ہے اس سے جان بچانے کے لیے میں نے بھاگنا شروع کردیا ۔ راستے میں ایک بزرگ نظر آئے جن سے بہت عمدہ خوشبو آرہی تھی میںنے ان سے کہا کہ خدا کے لیے مجھے اس سانپ سے بچائیے ۔ میری پکار سن کر وہ بزرگ رو پڑے اور کہنے لگے میں بہت کمزور اور ضعیف ہوں تمہیں نہیں بچا سکتا ۔لیکن تم آگے جاﺅ شاید اللہ تعالٰی تیری نجات کا کوئی اور ذریعہ بنا دے ۔ فرماتے ہیں کہ میں بھاگتے بھاگتے دوزخ کے کنارے پر جاپہنچا ۔ پھر مجھے آواز آئی کہ واپس پلٹو ۔ میں واپس ہوا تو وہی سانپ پھر میرے تعاقب میں نظر آیا۔ میں پھر اس بزرگ کے پاس سے گزرا اور اس سے پناہ مانگی ۔اس نے پھر کہا میں بہت کمزور ہوں تیری مدد نہیں کرسکتا۔ البتہ تو اس پہاڑ کی طرف چلا جا اس میں مسلمانوں کی امانتیں ہیں ممکن ہے تمہاری امانت بھی کوئی ان میں شامل ہو اور وہ تیری مدد کرسکے ۔

میں چلتے چلتے اس پہاڑ کے قریب پہنچا تو ایک فرشتے نے آواز دی کہ دروازہ کھول دو ۔ شاید اس کی تمہارے پاس کوئی امانت ہو تو وہ اس کو دشمن سے بچالے ۔ دروازہ کھلا تو وہاں مجھے وہاں اپنی مرحوم بیٹی نظر آئی اس نے دائیں ہاتھ سے مجھے پکڑا اور بائیں ہاتھ سے اژدھا (سانپ) کو ایسا ڈانٹا کہ وہ پلک جھبکتے میں نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔ اژدھا کے غائب ہونے کے بعد بیٹی مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگی ابا جان ۔ الم یان للذین امنو 0 کیا ابھی ایمان والوں کے لیے وقت نہیں آیا کہ توبہ کریں ان کے دل اللہ تعالٰی کے لیے نرم ہوجائیںاور ایمان کی چاشنی ان کے دلوں میں بھرجائے۔

بچی نے کہا ۔ ابا جان ۔ کیا ابھی تک وہ وقت نہیں آیا کہ آپ شراب نوشی سے توبہ کرلیں ۔ حضرت مالک بن دینار ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب کی حالت میں ہی اپنی بیٹی سے سوال کیاکہ اے بیٹی ۔ کیا تو قرآن پاک کو پڑھنا جانتی ہے تو اس نے کہا ہاں ۔ پھر میں نے بیٹی سے اس سانپ کے بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگی کہ ابا جان ۔ یہ سانپ آپ کے عمل بد تھے اور وہ بزرگ آپ کے نیک عمل تھے جو بہت کم تعداد میں ہونے کی بنا پر کمزور تھے اور آپ کی ان بداعمالیوں سے نہ بچاسکے ۔حضرت مالک بن دینار ؒ فرماتے ہیں جب میں نے اتنی بات سنی تو میری آنکھ کھل گئی اور میں بیدار ہوگیا اس لمحے مجھ پر خوف کا سخت غلبہ طاری تھا میں نے فورا شراب نوشی سے توبہ کی اور عہد کیا کہ آئندہ میں شراب اور گناہوں کے قریب تک نہ جاﺅں گا۔حضرت مالک بن دینار ؒ نے 131 ھجری میں وصال فرمایا ۔ یہ واقعہ دور حاضر کے ہر مسلمان کے لیے ایک مثال کی حیثیت رکھتاہے جو گناہوں میں ایسے مشغول ہیں کہ انہیں نیکی کی توفیق ہی نہیں ملتی اور وہ یہ تصور کرتے ہیں کہ زندگی اسی طرح جار ی و ساری رہے گی ۔ لیکن نیک عمل کم ہونے کی بنا پر کمزور اور بد اعمالیوں زیادہ ہونے کی بنا پر سانپ کی صورت دھار کر موت کاانتظار کررہی ہیں۔حضرت مالک بن دینار ؓ تو خواب دیکھ کر ایسے تائب ہوئے کہ دوبارہ شراب نوشی اور گناہ کی جانب رغبت نہیں کی لیکن اگر ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو کتنی ہی مرتبہ ہم توبہ کرتے ہیں اور کتنی ہی مرتبہ اس توبہ کو پھر عمل بد سے توڑ بیٹھتے ہیں ۔

کبھی ہم نے کسی نابالغ بچی کی نماز جنازہ پڑھی ہے پڑھی تو یقینا ہوگی لیکن نماز جنازہ کے ترجمے پر ہم نے کبھی غور نہیں کیاہوگا ۔جو انتہائی قابل توجہ ہے ۔

الہی ۔ اس لڑکی کو ہمارے لیے آگے پہنچ کر سامان کرنے والی بنا دے اور اس کو ہمارے لیے اجر کا موجب بنا دے اور وقت پر کام آنے والی بنا دے اور اس کو ہمارے لیے سفارش کرنے والی بنا دے جس کی سفارش تیرے ہاں منظور ہوجائے ۔ حضرت مالک بن دینار ؓ کی مرحوم بیٹی نے کس طرح اپنے والد کو اعمال بد کے شر سے محفوظ کیا ۔گویا اللہ تعالٰی اپنے بندوں کی بخشش کے لیے بہانے تلاش کرتا ہے اور نابالغ حالت میں مرنے والے بچوں کو بھی والدین کے لیے بخشش کا سامان بنا دیتا ہے ۔ ( سبحان اللہ )

حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا پانچ راتیں ایسی ہیں کہ ان میں دعا رد نہیں ہوتی ۔ یعنی دعا قبول ہوتی ہے ۔جمعہ کی رات ٬ رجب کی پہلی رات ٬ شعبان کی پندرھویں رات ٬ عیدالفطر اور عید قربان کی رات ۔( فردوس الاخبار للدیلمی ٬ تاریخ دمشق لابن عساکر ٬ تہذیب )۔ ان راتوں سے غافل نہ ہونا کیونکہ اللہ تعالٰی ان راتوں میں اپنی رحمت نازل فرماتا ہے اور گناہگاروں کی بخشش فرماتا ہے ۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے تمام اعمال کا ثواب ختم ہوجاتا ہے مگر تین نیکیاں ایسی ہیں کہ ان کا ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے۔ صدقہ جاریہ ٬ وہ علم دین (جس سے دنیا میں لوگ فائدہ اٹھائیں) ٬ نیک اولاد ( جو مرنے کے بعد اس کے حق میں دعا کرتی ہے ۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ جو شخص قبرستان میں جا کر سورہ اخلاص ( قل اللہ احد ) دس مرتبہ پڑھ کر اس کا ثواب مسلمان مردوں کو بخش دے تو مردوں کی تعداد کے برابر پڑھنے والے کو بھی ثواب ملے گا۔(دارقطنی بحوالہ ما ئتہ مسائل)۔

نبی کریم ﷺ شب برات میں مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں تشریف لے جاتے اور مرنے والوں کے لیے دعائے مغفرت کرتے ۔ نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ یہ عمل اللہ تعالٰی کو سب سے زیادہ عزیز ہے کہ کوئی زندہ مرنے والوں کے لیے دعا خیر کرے ۔حدیث نبوی ﷺ ہے کہ جب کسی شخص سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو فورا اللہ تعالٰی سے اس گناہ کی اس طرح معافی مانگے ( اے اللہ ۔ میں تیرے حضور اس گناہ سے توبہ کرتا ہوں اور عہد کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی گناہ نہیں کروں گا۔)حضور ﷺ نے فرمایا سچے دل سے توبہ کرنے سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں بشرطیکہ دوبارہ گناہوں کا ارتکاب نہ کیاجائے ۔حدیث مبارکہ ہے جب کوئی شخص گناہ کربیٹھے تو اس کے بعد اچھی طرح غسل اور وضو کرکے دو رکعت نماز توبہ پڑھے اس کے بعد اللہ تعالٰی سے اپنے گناہ کی معافی مانگے تو اللہ تعالٰی ( جو انسان سے ستر ماﺅں جتنا پیار کرتا ہے ) ضرور معاف کردے گا۔

چنانچہ شب برات کی مقدس رات کو تلاوت قرآن پاک ٬ نوافل کی ادائیگی ٬ قبرستان میں مرحومین کے لیے دعائے مغفرت کرنا اور اللہ تعالٰی کی حمد و ثنا کرنا ٬ نبی کریم ﷺ پر کثرت سے درود پاک پڑھنا افضل ترین عبادت ہے ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو مسلمان پندرھویں شعبان دن کو روزہ رکھے گا اسے جہنم کی آگ نہ چھوئے گی۔ اس کے لیے جنت کے دروازے کھل جائیں گے اور دوزخ کے دروازے بند ہوجائیں گے۔حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب بھی کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کی قبر کی زیارت کرتا ہے تو قبر والے کو سکون اور راحت میسر آتی ہے اور وہ اس کے سلام کا جواب بھی دیتا ہے ۔( شرح الصدور ص 84)

اس مقدس رات کو صبح ہونے تک ایک جانب اللہ تعالٰی کی رحمت انسان کی بخشش کے لیے جوش میں رہتی ہے تو دوسر ی جانب نبی کریم ﷺ اپنی امت کی بخشش کے لیے اتنا لمبا سجدہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؒ کو یہ گمان گزرتا ہے کہ خدانخواستہ آپ ﷺ رحلت تو نہیں فرما گئے ۔لیکن ہم مسلمان ہونے کے باوجود اس بابرکت رات کے فیوض و برکات کو حاصل کرنے کی جستجو نہیں کرتے ۔ آتش بازی ٬ بازاروں میں فضول بیٹھنا اور ٹی وی پر فلمیں دیکھ کر نہ صرف اپنی آخرت خراب کرتے ہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی کوئی اچھی مثال قائم نہیں کرتے ۔ ایسی خرافات میں صرف بچے ہی شامل نہیں بلکہ بڑے بھی برابر کے شریک ہیں ۔ جو یہ تو تمنا رکھتے ہیں کہ اللہ تعالٰی انہیں بخش دے لیکن بخشش کے مواقعوں سے فائدہ اٹھانے کی جستجو نہیں کرتے ۔ بدقسمت ہے وہ شخص نے جس نے اپنی زندگی میں شب برات تو پائی لیکن اپنے گناہوں کی معافی کے لیے رب کائنات کے حضور سر نہیں جھکایا ۔ کسی نے کیاخوب کہا ہے کہ انسان کی تباہی تین باتوں میں ہے ۔ توبہ کی امید پر گناہ کرنا ٬ زندگی کی امید پر توبہ نہ کرنا اور توبہ کے بغیر رحمت کی امید رکھنا ۔ اللہ تعالٰی ہمیں نبی کریم ﷺ کے ارشاد مبارک کے مطابق زندگی گزارنے اور شب برات کے فیوض و برکات حاصل کرنے کی توفیق ارزانی عطا فرمائے ۔
( ماخوذ کتاب انوار شب برات از مولانا الحاج محمد جعفر ضیا القادری )
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 115676 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.