طالبان سے خوفزدہ بھارت کی بوکھلاہٹ

افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد بھارتی حکمران پر خوف و دہشت طاری ہو چکا ہے۔ وہ اسی خوف کے تحت اپنی حکمت عملی ترتیب دینے میں مصروف ہیں۔مقبوضہ جموں و کشمیر اور بھارت میں پاکستان کے ساتھ لگنے والی سرحد پر جنگی طیاروں کی ہنگامی لینڈنگ کے لئے شاہرائیں تعمیر کی جا رہی ہیں۔ سچ پر پردہ ڈالنے اور کشمیریوں پر مظالم تیز کرنے کے لئے کشمیری صحافیوں کے گھروں پر چھاپے ڈال کر انہیں گرفتار کیا جا رہا ہے۔ ان کے لیپ ٹاپ، موبائل ضبط کئے جا رہے ہیں۔ انہیں اور ان کے اہل خانہ کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ سیکورٹی صورتحال کا جائیزہ لینے کیلئے نئی دلی میں اجلاس ہو رہے ہیں۔ جس دوران افغانستان کے بدلتے حالات اور کشمیر میں بڑھتی ہوئی آزادی کی تحریک پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ جمعرات کو بھی جموں وکشمیر کی سیکورٹی صورتحال کاجائیزہ لینے کیلئے نئی دلی میں بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کی سربراہی میں خصوصی میٹنگ منعقد ہوئی جس میں بھارتی فوجی سربراہ لیفٹنٹ جنرل ایم ایم نروانے،جموں و کشمیر کے لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا، بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول، سیکریٹری را سمانت گوئل سمیت ڈی جی بی ایس ایف و ڈی جی سی آر پی ایف کے ،پولیس و قابض فورسز کے دیگر اعلیٰ آفیسران نے شرکت کی۔ میٹنگ میں جموں وکشمیر کے لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے بریفنگ دی۔سید علی شاہ گیلانی شہید کی جگہ مسرت عالم بٹ کو حریت کانفرنس کا چیئر مین مقرر کرنے کے اعلان پر بھی بھارت کو بلا شبہ تشویش ہو گی۔ کیوں کہ مسرت عالم بٹ چٹان کی طرح اپنے موقف پر قائم و دائم ہیں۔بھارت عسکریت پسندی کے بڑھتے واقعات پر بھی پریشان ہو گا۔بھارت کو یہ خدشہ ہو گا کہ طالبان کشمیر کا رخ کر سکتے ہیں۔ اگر طالبان ایسا نہ بھی کریں تو بھی بھارت امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں کو طالبان کی دراندازی کی آڑ میں بلیک میل کرے گا۔ بھارت دنیا کو طالبان کے خطرہ سے ڈرا کر اپنا الو سیدھا کرنا چاہتا ہے۔ وہ دنیا سے اس بنیاد پر پاکستان کے خلاف لابنگ کر سکتا ہے اور فوجی امداد بھی طلب کرے گا۔ بھارت طالبان کارڈ کو پاکستان اور کشمیر کی تحریک آزادی کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔ اس لئے بھارت کی اس سازش اور مہم جوئی سے بر وقت پردہ ہٹانے کی سفارتی اور سیاسی حکمت عملی تشکیل دینا مناسب قدم ہو گا۔

بھارت جنگی فضا قائم کر رہا ہے۔ پاکستانی سرحد کے قریب راجستھان میں پہلی ایمرجنسی ہوائی پٹی تعمیر کر دی گئی ہے جس کا گزشتہ روز افتتاح بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے کیا۔ وزیر دفاع نے اس موقعہ پرچین یا پاکستان کا نام تو نہ لیا مگر کہا کہ اس ہوائی پٹی سے ہم دشمن ممالک کو منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں۔ کشمیر کی پہاڑی و دشوار گزار سرحدیں ہوں، لداخ کی برفیلی چوٹیاں ہوں یا راجستھان کا ریگستان ہو،بھارتی فوج ہرمقام پر ناکام ہو چکی ہے۔ وہ پاکستان کا مقابلہ کرنے کی جرائت نہیں کر سکتی۔بھارت 1971کے پاکستان کو دو لخت کرنے کا گولدن جوبلی سال منا رہا ہے۔ اس کا مقصد اشتعال انگیزی ہے۔ یہ ہوائی پٹیاں دفاعی مقاصد کے لئے تعمیر ہو رہی ہیں۔ جس پر جیگوار، ہرکیولس، سخوئی طیارے اتارے گئے۔ راجھستان میں ہوائی پٹی ایمرجنسی لینڈنگ کی سہولت کے لیے بنائی گئی ہے جو بین الاقوامی سرحد کے قریب ہے۔ یہاں 3 کلومیٹر طویل شاہراہ کی تعمیر 19 ماہ میں مکمل کی گئی ۔ پاکستان کے موٹر ویز پر جنگی طیاروں کی ہنگامی لینڈنگ سے پریشان بھارت یہ ہوائی پٹیاں مقبوضہ کشمیر ، بھارت کے درجن بھر علاقوں میں تعمیر کر رہا ہے۔ بھارت آندھرا پردیش، مغربی بنگال اور اتر پردیش کے لکھنوء،آگرہ ایکسپریس وے پر بھی یہ ہوائی پٹیاں تعمیر کر رہا ہے۔یہ ہوائی پٹیاں ہوائی اڈوں پر دشمن کے حملوں کے پیش نظر کئی ممالک میں تعمیر کی گئی ہیں۔

طالبان سے خوفزدہ بھارت نے کشمیریوں پر مظالم اور کسی بڑے آپریشن کے لئے آزاد میڈیا کی آواز دبانے کا نیاسلسلہ شروع کیا ہے۔مقبوضہ کشمیر کے کئی صحافیوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ان کے خلاف مقدمات درج ہو رہے ہیں۔ قابض انتظامیہ کشمیریوں کو لا وارث سمجھ کر ان پر حملے کر رہی ہے۔جن صحافیوں کے لیپ ٹاپ، موبائل اور دیگر میڈیا آلات کو جبط کیا گیا ہے وہ عالمی میڈیا اداروں کے ساتھ وابستہ ہیں۔ قابض فورسز ان پر پاکستان، ترکی ، سعودی عرب سمیت دیگر ممالک میں رابطے رکھنے کا الزام لگاتی ہے۔ جب کہ صحافی اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے لئے دنیا بھر میں زرائع سے رابطے رکھنے کے لئے آزاد ہین ۔ مگر بھارت کشمیری صحافت کا گلا مزید گھوٹنے کے لئے قدغن لگا رہا ہے۔ جو کہ آزادی صحافت کے خلاف بلا جواز کارروائی ہے۔ بھارتی قابض انتظامیہ کی ہدایت پر پولیس دعویٰ کر رہی ہے کہ اس نے سرینگر کے پولیس تھانوں میں چار صحافیوں کے خلاف رپورٹ درج کی ہے۔یہ بھی گمراہ کن دعویٰ کیا گیا ہے کہ تحقیقات کے دوران، قابل اعتماد شواہد ملے جومیر ہلال ساکن بمنہ سرینگر،صحافی ٹی آر ٹی ورلڈ، محمد شاہ عباس ساکن یاری پورہ ،اننت ناگ حال راج باغ سرینگر، فری لانس صحافی، اظہر قادری ساکن بمنہ صحافی دی ٹریبیون اور شوکت احمدموٹا ، لال بازار سابق ایڈ ان چیف نریٹر کے گھروں کی تلاشی کے دوران کچھ موبائل فون، لیپ ٹاپ اور دیگر آلات ضبط کئے گئے۔تفتیش کے مقصد کے لیے مذکورہ بالا چاروں افراد کو پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا اور انہیں شام کوجانے کی اجازت دی گئی اورپھر دوبارہ پیش ہونے کی ہدایت دی گئی۔تحقیقات جاری ہے اور الیکٹرانک آلات کی جانچ پڑتال بھی جاری ہے۔پولیس کا بیان گمران کن ہے۔ جس کی سرینگر کی میڈیا برداری شدید مذمت کی ہے۔ سچ یہ ہے کہ بھارت حقائق کو دبانے کے لئے میڈیاپر پابندیاں عائد کر رہا ہے۔ صحافیوں کی گرفتاریوں اور انہیں ہراساں کرنے کا مقصد انہیں قابض بھارتی فورسز کے بدترین مظالم کی رپورٹنگ سے روکنا ہے۔ آزاد فضاؤں میں کام کرنے والے میڈیا اور سول سوسائٹی کو مقبوضہ کشمیر کے صحافیوں کے حق میں آواز بلند کرنا چاہیئے جن کی آواز بھارت بندوق کی نوک پر دبا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے صحافیوں کی جان و مال کو قابض بھارتی فورسز سے لاحق خطرہ ہے۔

 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 488192 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More