دھماکوں کی سیاست اور سیاست کے دھماکے

گجراتی آج کل وطن عزیز کے ذرائع ابلاغ پر چھائے ہوے ہیں۔ ملک کے امیر ترین آدمی کے گھر سے قریب ایک لاوارث گاڑی میں کچھ دھماکہ خیز سامان ملا اور آگے چل کر پتہ چلا کہ وہ گاڑی پچھلے پانچ سال سے دوسرے گجراتی ہیرین من سکھ کے قبضے میں تھی۔ ہیرین من سکھ کا نام سن کر بہت سارے لوگوں کے ذہن میں ہیرین پنڈیا کا نام آگیا ہوگا جو ایک زمانے میں وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے وزیرداخلہ ہوا کرتے تھے ۔ انہوں نے مودی جی کے خلاف منہ کھولنے کی جرأت کی لیکن اس سے پہلے کہ کوئی بڑا نقصان کرپاتے صبح چہل قدمی کے بعد دہشت گردوں نے انہیں ہلاک کردیا ۔ یہ عجیب بات ہے ان مسلم دہشت گردوں کو احمد آباد کے اندر موجود سیکڑوں فسادیوں میں سے کوئی ایسا بدمعاش نہیں ملا جو بابو بجرنگی کی مانند قتل و غارتگری میں اپنے ملوث ہونے پر فخر جتاتا تھا۔ اس کے برعکس ایک ایسا شخص مل گیا جو فسادیوں کے خلاف گواہی دینے کی ہمت دکھا رہا تھا ۔ اس لیے اگر ہیرین پنڈیا کے والد نے اپنے ہی وزیر اعلیٰ پر شک کا اظہار کرکے ان کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھنے سے انکار کردیا تو اس میں حیرت کی کیا بات ؟

ہیرین پنڈیا کے مانند ہیرین من سکھ کی لاش بھی مشکوک حالات میں مل گئی ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اپنی موت سے قبل من سکھ نے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ و وزیر داخلہ اور ممبئی و تھانے کے پولس کمشنر کو خط لکھ کر ہراسانی کا الزام لگا یا تھا اور پولس تحفظ طلب کی گہار لگائی تھی ۔ وہ اگر کنگنا رناوت کی طرح دیش بھکت ہوتا تو مرکز سے تحفظ مل جاتا لیکن وہ ایسا خوش قسمت نہیں تھا۔ اپنےخط میں من سکھ نے تین لوگوں کی جانب انگشت نمائی کی تھی۔ ان میں سے ایک سی آئی ڈی سچن وزے اور دوسرے جوائنٹ کمشنر ملند بھرمبے تھے ۔ ان کے علاوہ مڈڈے اخبار کے نامہ نگار فیضان خان کا نام بھی تھا ۔ نیوز لانڈری میں شائع شدہ اس غیر مصدقہ خط کے مطابق 17؍فروری کو شہر جاتے ہوئے اس کی گاڑی خراب ہوئی تو وہ اسے ناہرُ پل کے پاس چھوڑ کر چلا گیا اور 18؍ کو جب لینے گیا تو وہ غائب تھی۔ اس نے پولس میں چوری کی شکایت درج کرائی مگر اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی ۔
25؍ فروری کو وہی گاڑی مکیش امبانی کی رہائش گاہ انطالیہ کے پاس دھماکہ خیز اشیاء کے ساتھ ملی اور پولس کے ذریعہ اس کی ہراسانی کا آغاز ہوا۔ اس میں آگے چل کر میڈیا بھی شامل ہوگیا۔ 4؍مارچ کی رات ہیرین کسی پولس افسرسے ملنے گھوڑ بندر گیا اورلوٹ کر نہیں آیا۔ اس کے بیٹے میت نے 5؍فروری کو دوپہر میں گمشدگی کی شکایت درج کرائی اور شام میں ممبرا ریتی بندر سےمن سکھ کی لاش ملی ۔ اس معاملے میں خطرناک موڑ من سکھ کی اہلیہ وملا کے ایف آئی آر سے آیا۔ وملا نے بتایا کہ پیٹر نیوٹن کی یہ گاڑی ہرین کے پاس 2016؍ سے تھی اور گزشتہ سال نومبر سے 5؍ فروری تک سچن وزے کے استعمال میں تھی ۔ اس طرح گاڑی سے وزے کا ایک تعلق بن گیا۔ وملا نے بتایا کہ اس کا خاوند 27-28 فروری اور 2؍مارچ کو وزے کے ساتھ تھا اور اس نے مذکورہ بالا خط کی اطلاع بھی اسے دے دی تھی۔ وملا کے مطابق من سکھ نے اسے بتایا کہ سچن وزے نے اس وعدے پر اسے گرفتار ہونے کا مشورہ دیا کہ وہ چند دنوں میں چھڑا لے گا۔ وملا نے وکیل سے پیشگی ضمانت کی بات کی تو اسے بتایا گیا چونکہ وہ ملزم نہیں ہے اس لیے وہ درخواست مسترد ہوجائےگی۔ 4مارچ کو من سکھ کاندیولی کے تاوڑے نامی کرائم برانچ افسر سے مشورہ کرنے کے لیے گیا اوراگلے دن اس کی لاش ملی ۔

وملا نے اپنی شکایت میں کہا ہے کہ اس کا شوہر اچھا تیراک تھا اس لیے وہ ڈوب نہیں سکتا ۔ اس کا بٹوا ، فون اور گلے کی چین وغیرہ نہیں ملا ۔حالات کو دیکھ کر اسے یقین ہے کہ من سکھ کو قتل کیا گیا ہے اور اسے شک ہے کہ سچن وزے نے یہ قتل کیا ہے ۔وملا کا یہ بیان اسمبلی کے بجٹ اجلا س میں حزب اختلاف کے لیے ایک نعمتِ غیر مترقبہ بن کر آگیا۔ ویسے سابق وزیراعلیٰ نے بر سر اقتدار پارٹی پر من سکھ کے انتقال کی خبر آنےسے ایک گھنٹہ قبل حملہ کرچکے تھے ۔ انہوں سچن وزے کے ساتھ من سکھ کے تعلقات بیان کرنے کے ساتھ ان ایک جگہ رہنا اور مقامی پولس سے پہلے سچن وزے کے جائے واردات پر پہنچ جانے پر حیرت کا اظہار کیا تھا ۔ لاش ملنے کے بعد انہوں نے کہا اس کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور کوئی اس طرح خودکشی نہیں کرتا ۔وزیر داخلہ نے اس کا انکار کیا اور یہ بتایا کہ من سکھ کے منہ میں رومال ٹھونسے ہوئے نہیں تھے بلکہ اس کے چہرے کو رومال سے ڈھکا گیا تھا۔ فردنویس نے ہیرین کی بیوی کا خط اسمبلی میں پڑھ کر سنایا اور مذکورہ بالا الزامات کو دوہرانے کے بعد کہا کہ سچن نے ہی یہ قتل کیا ہے اور لاش یہ سوچ کر کھاڑی میں پھینک دی کہ وہ بہہ جائے گی لیکن پانی اترنے پر لاش کنارے آگئی۔ ان الزامات کو پڑھ کر امیر مینائی یہ ضرب المثل شعر یاد آتا ہے؎
قریب ہے یارو روز محشر، چھُپے گا کُشتوں کا قتل کیونکر؟
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستیں کا

وطن عزیز میں کسی کا مشکوک حالت میں قتل ہو یا کہیں بم دھماکہ ہوجائے اور اس میں مسلمانوں کا ذکر نہ آئے یہ نا ممکن ہے؟ اس معاملے میں سب سے پہلے جیش الہند نامی تنظیم کا ایک خط اس گاڑی سے برآمد ہو جس پر لکھا تھا، ’’نیتا بھابی، مکیش بھیا، یہ تو صرف ٹریلر ہے، اگلی بار سامان پورا ہو کر تمہارے پاس آئے گا اور پورا انتظام ہو گیا ہے۔‘‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ برآمد ہونے والی گاڑی کی سیٹ پر مکیش امبانی کی آئی پی ایل ٹیم ’ممبئی انڈینز‘ کے بیگ میں یہ خط رکھا ہوا تھا۔ اپنے دوسرے بیان میں جیش الہند نے مکیش امبانی کے باہر پائی جانے والی گاڑی سے اپنے تعلق کا انکار کردیا ۔ مزے کی بات ہے جلیٹن اسٹک ناگپور کی کمپنی میں بنی تھیں ہے لیکن کسی کا ذہن سنگھ پریوار کے مرکزی دفتر کی جانب نہیں گیا۔ اس لیے گاندھی جی کا قتل کرنے کے بعد عدم تشدد کے فلسفے پر یہی پرویوار کاربند ہے ۔ تشدد کے کسی معاملے سے اس کا دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔ ان کا کپل شرما اگر کھلے عام پولس افسر کی موجودگی می دھمکی دے تب بھی اس کو گرفتار کرنے کی جرأت انتظامیہ نہیں ہوتی کیونکہ اپنی کارروائی دکھانے کے لیے بے قصور مسلمانوں اور ان کی حمایت کرنے والے ہندووں کمی تھوڑی نا ہے؟

جیش الہند کا نام کسی نے 30؍ جنوری 2021 سے پہلے نہیں سناتھا۔ وہ دلی میں اسرائیلی سفارت خانہ کے سامنے ہوئے حملے کی ذمہ داری لے کر راتوں رات ذرائع ابلاغ میں چھا گیا ۔ مبینہ طور پر میسیجنگ ایپ ٹیلی گرام کے ذریعہ اس کے ملوث ہونے کی تصدیق کا دعویٰ کیا گیا ۔جیش الہند کے پیغام میں کہا گیا تھا ' طاقتور ترین اللہ کی مہربانی اور مدد سے جیش الہند کے فوجی دلی کے ایک ہائی سیکورٹی علاقے میں دراندازی کرنے اور آئی ای ڈی حملے کو انجام دے پائے۔ یہ حملوں کے ایک سلسلے کی شروعات ہے جو اہم ہندستانی شہروں کو نشانہ بنائے گا اور حکومت ہند کے ذریعہ کئے گئے مظالم کا بدلہ لے گا'۔ جنوری کے اندر چونکہ کسانوں کی تحریک عروج پر تھی اس لیے اسے سمجھدار لوگوں نے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کے زمرے میں ڈال دیا گیا ۔ اس بابت طالبان اور داعش کے نام بھی آئے۔ ایران کے طیارے کی جانچ کرنے کے سبب تاخیر بھی ہوئی۔ دھماکے کے بعد ہندوستان نے اسرائیلی حکومت کو یقین دہانی کرائی کہ ان کے سفارتخانے اور اس کے سفارتکاروں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا اور قصورواروں کو پکڑنے کے لئےکوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔ اس طرح گویا ایک ایسے دھماکے کے ذریعہ جس میں کوئی نقصان تو نہیں ہوا مگر اسرائیل کے ساتھ دوستی و مفاہمت کا اظہار کردیا گیا۔

ممبئی پولس نے آگے چل کر اعلان کیا کہ اس کے پاس جیش الہند نامی کسی دہشت گرد تنظیم کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ وہ ایسی کسی تنظیم کو نہیں جانتی ۔ جیش الہند نے جو مونرو کا پتہ دیا تھا وہ بھی جعلی نکلا ۔ پولس نے یہ بھی کہا کہ ممکن ہے یہ تفتیش کو گمراہ کرنے کی ایک کوشش ہو لیکن اب اس معاملے میں ایک نیا موڑ آگیا ہے ۔ خفیہ ایجنسیوں کا دعویٰ کیا ہے کہ جیش الہند نے یہ منصوبہ دہلی کے تہاڑ جیل میں ٹیلی گرام چینل کے ذریعہ تیار کیا گیا تھا ۔ تفتیشی ایجنسیوں کے مطابق ٹیلی گرام چینلس @ جیش الہند کو استعمال کرنے والے آئی پی ایڈریس کا پتہ چلالیا ہے ۔ اس کیلئے انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کرنے سیم کارڈ کا استعمال کیا گیا ۔ خفیہ ذرائع کے مطابق تہاڑ جیل کے تین تا چار قیدیوں پر کڑی نظر رکھی جارہی ہے ۔یہ کتنی حیرت کی بات ہے کہ ہندوستان کی سب سے بڑی جیل کے اندر دھماکوں کی سازش ہوجاتی ہے۔ اب تو انڈین مجاہدین کے گرفتار شدہ تسنیم کے موبائل سے اسے جوڑ دیا گیا ہے۔ اس طرح گویا مسلمانوں کے خلاف ایک نادیدہ خوف پیدا کیا جارہا ہے۔ جس دہلی میں پروفیسر رونی ولسن کے کمپیوٹر میں واےرس دال کر انہیں پھنسایا جاسکتا ہے وہاں جیل کے اندر کسی قیدی کے موبائل سے ایک گروپ تشکیل دے دینا کون سی بڑی بات ہے؟ یہ عجیب و غریب بات ہے کہ بی جے پی ممبئی میں پولس پر سچن وزے کو بچانے کا الزام لگا رہی ہے۔ اس کے برعکس دہلی کی تفتیشی ادارے اس سازش کو تہاڑ جیل میں پہنچا کر وزے کو بلاواسطہ بچنےمیں مدد کررہے ہیں ۔ ایسے میں ہنس مکھ ہیرین کے گھر والوں کو انصاف کیسے ملے گا ؟ پھر بھی انجم خلیق کا یہ شعر امید کا ایک دیا روشن کر ہی دیتا ہے ؎
اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ہے
تو یاس کے موسم میں بھی امید کا فن سیکھ
( ۰۰۰۰۰۰۰جاری)
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1222335 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.