سرخ محبت کے اسیر

ایم ایم علی ایک کالم نگار 'مصنف ' اور شاعری سے شغف رکھنے والے دھیمے مزاج کے انسان ہیں بچوں کے لئے کہانیاں لکھنے سے آغاز کرتے ھوئے وہ ''صدائے حق '' کے عنوان سے لاھور کے اخبارات میں کالم نگاری کا سفر شروع کرتے ھیں اور نہایت کامیابیاں سمیٹتے ہوئے ناول نگاروں کی صف میں کامیابی سے قدم جما رھے ہیں ایم ایم علی کی پہلی کتاب انکے کالموں کا مجموعہ '' صدائے حق '' کے نام سے شائع ہو چکی ھے اسکے بعد انہیں ناول نگاری پر طبع آزمائی کی اور '' سرخ محبت '' کے عنوان سے اپنا پہلا ناول لکھا ایم ایم علی نے آل پاکستان رائٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن (اپووا) کے نام سے ایک ادبی تنظیم کی داغ بیل ڈالی جو نئے لکھنے والوں کے لئے ایک راہنما تنظیم کی حیثیت رکھتی ھے اپووا صرف ادبی تنظیم ہی نہیں بلکہ سیاحتی ، ثقافتی اور فلاحی تنظیم کی بھی حیثیت رکھتی ھے۔

سیاحتی دوروں کے بعد تمام لکھنے والے اپنے سیاحتی دوروں کو سفر ناموں کے ذریعے عوام الناس تک پہنچاتے ھیں اور سیاحتی مقامات کے حسن کے ساتھ ساتھ وہاں کی ثقافت کی بھی بھرپور عکاسی کرتے ھیں ان سیاحتی دوروں کا اہتمام ایم ایم علی بذات خود کرتے ھیں

گزشتہ دنوں تنظیم کے سرپرست اعلی جناب زبیر احمد انصاری صاحب کے گھر ایک عشائیے میں علی نے مجھے اپنا پہلا ناول'' سرخ محبت '' کا تحفہ دیا عنوان سے اندازہ ھوا کہ محبت کی عظیم قربانی رقم کی گئی ھوگی اور ایسا ھی ھوا میں جیسے جیسے یہ ناول پڑھتی جاتی تھی ملک کی سرحدوں کے محافظوں کی عظمتوں کی مزید معترف ھوتی جاتی تھی سرحدوں کے ایک محافظ معاذ کی محبت کے ساتھ ساتھ وطن سے محبت کی جہتیں آشکار ھوتی چلی گئیں مٹی کا قرض ایسا قرض ھے جسے ایک فوجی جوان نے سب رشتوں اور محبتوں پر فوقیت دیکر چکا دیا ایک کھلنڈرا اور والدین کا لاڈلا بیٹا جو کہ یونیورسٹی کا طالب علم اپنی آنکھوں میں مستقبل کے حسیں خواب سجائے کسی اور ہی منزل کا مسافر تھا لیکن ایک فوجی گھرانے میں پیدا ھونے والے نے پرورش کے ہر قدم پر وطن سے محبت کا ہی درس سیکھا تھا اس تربیت نے اسکے اندر وطن سے محبت کا جو جذبہ جگایا تھا وہ ایک عام آدمی سے کہیں بڑھ تھا ہمارے فوجی جوان اسی جذبے سے سرشار سرحدوں کی حفاظت کا فریضہ انجام دیتے ھیں معاذ بھی اپنی محبت کو حاصل کرنے کے بعد ایک دن کی دلہن کو چھوڑ کر ملک دشمن عناصر کا قلع قمع کرنے نکل گیا اور جان جان آفریں کے سپرد کر کے سبز ہلالی پرچم میں لپٹ کر واپس اپنی محبت کو اپنا آخری دیدار کروانے آیا والدین کی اکلوتی اولاد عین شباب میں شہادت کے مرتبے پر فائز ھو چکی تھی علی نے محبت کی اس تقسیم سے انصاف کرکے اس داستان کولہو رنگ کر دیا ہماری سرحدوں پر ناجانے کتنے ھی معاذ خاموشی سے قربان ھو جاتے ھیں لیکن علی نے ان نوجوانوں کی لہو رنگ داستان کو صفحہ قرطاس پر بکھیر امر کردیا قاری جوانوں کی توقیر کیے بنارہ نہیں پاتا یہ علی کا قلم ہی ھے جو قاری کو محبت کی عمیق گہرائیوں تک لے جاتا ھے۔

وطن سے محبت کے ساتھ ساتھ علی نے صحرا کے حسن کی جو منظرکشی کی ھے جونہی قاری اس میں محو ھونے لگتا ھے صحرا کا خوف بھی طوفان کی شکل میں اپنا تعارف کروا دیتا ھے اس طرح صحرا نشینوں کی مشکلات کا تذکرہ کرتے ہوئے علی اپنے قاری کو سرخ محبت کی چھاؤں میں لے آتے ھیں علی نے اس ناول میں سادگی اور محبت کے حسین امتزاج کو پیش کیا ھے ۔اور محبت اگر سرحدوں کی محافظ بھی ھو تو اسے چار چاند لگ جاتے ھیں جب اپنی جوانی اپنی مٹی کی حفاظت پر قربان کر کے ہماری آزادی کو یقینی بناتے ھیں جس بنا پر ہم آزاد فضاؤں میں سانس لیتے ھیں اور کبھی کبھی تو شائد یہ سوچتے بھی نہیں کہ ہمارے اس آرام سکون اور اطمینان کے پیچھے کتنے جوانیاں مٹی میں سو گئیں اپنے پیچھے کتنی ہی رشنہ اور نومولود یتیموں کو چھوڑ کیسلام ان ماؤں کو جو اپنے لال اس مٹی پر قربان کر دیتی ھیں سلام ان سہاگنوں کو جو اپنے سہاگ اس دھرتی پر قربان کر کے کتنی ہی سہاگنوں کے سہاگ بچا لیتی ھیں سلام اس باپ کی عظمت کو جو بڑی ہمت اور جوان مردی سے بڑے فخر سے اپنے لخت جگر کے تابوت مٹی کے حوالے کرتے ھیں ۔
کوئی رشتہ کوئی جذبہ نہ روک پائے ہمیں
اے وطن تیری مٹی جب۔ بلائے ہمیں

ہم سے شاھیں کہیں دنیا میں نہ مل پائیں گے
اے شہادت تو کیا جام ھے پلائے ہمیں

پہاڑوں میں بیابانوں میں صحراؤں میں
کارگل کی جمی برف۔ بھی گرمائے ہمیں

اڑانوں میں زمانوں میں فسانوں میں بھی ھیں
ہم وہاں ھیں جہاں کوئی نہ سوچ پائے ہمیں

چند لمحوں میں فضاؤں سے زمین بوس کریں
عدو جب بھی جہاں جائے وہاں پائے ہمیں

ریحانہ عثمانی
 

M M Ali
About the Author: M M Ali Read More Articles by M M Ali: 18 Articles with 11844 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.