متحدہ کی حکومت سے علیحدگی کا حتمی فیصلہ

متحدہ قومی موومنٹ 27جون کو بالآخر حکومت سے علیحدہ ہوگئی اور اب اس کی حکومت میں واپسی کے امکانات بھی نہیں ہیں متحدہ نے ماضی قریب میں حکومت سے علیحدگی کی دھمکیوں سے ہٹ کر اس مرتبہ ایک ہی نشت میں ہر سطح سے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا اور اس فیصلے پر تیزی سے عمل درآمد بھی شروع کردیا ، گورنر سندہ عشرت العباد اپنا استعفیٰ صدر کو بھجوانے کے ساتھ ہی نہ صرف گورنر ہاؤس بلکہ ملک کو ہی چھوڑ دیا لیکن وہ پاکستان کی تاریخ میں طویل عرصے تک گورنر سندہ کی ذمہ درایاں احسن طریقے سے نبھانے کا اعزاز حاصل کر گئے ۔ اطلاعات کے مطابق وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ دبئی سے لندن چلے جائیں گے ۔ عشرت العباد کی اچانک اس طرح کی ہجرت سے بھی یہ بات واضع ہوجاتی ہے کہ اب پیپلز پارٹی اور متحدہ میں دوریاں پیدا ہوگئیں ہیں اور یہ دوریاں اب کسی نئے جمہوری سیٹ اپ کے آنے تک سمٹیں گی نہیں۔

ویسے تو متحدہ کے قائد الطاف حسین کی اتوار کی شام کی تقریر سے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ متحد اب حتمی طور پر پیلز پارٹی سے اتحاد ختم کردے گی۔الطاف حسین نے اپنے روایتی جوشیلے اندز بیان کے دوران واضع الفاظ میں کہا تھا کہ ”آج سے حکومت کی تباہی کا آغاز ہوگیا ہے“ ۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ ظلم اور بے حسی کے اس حکومتی باب کی کیسے تباہی ہوتی ہے ؟ متحدہ اگر چند ماہ قبل حکومتی رویئے پر احتجاج کرتے ہوئے اپنی صفوں کو حکومت سے دور لے جاتی تو آج تک حکومت تباہی نہیں بلکہ شائد ختم ہی ہوچکی ہوتی اور عوام اچھی تبدیلی کی توقعات پر نئے حکومتی سیٹ اپ کا انتظار کررہے ہوتے ۔

لیکن اب صدر آصف زرداری کی” قاتل لیگ“ کو حکومتی نشستوں پر جگہ ملنے کے بعد حکومت کے فوری خاتمے کے امکانات معدوم ہوگئے ہیں۔

پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ق کو اتحاد میں شامل کرنے کا کڑوا گھونٹ صرف اس لیئے ہی لیا تھا کہ متحدہ کی جانب سے آئندہ کبھی بھی اسی طرح کی کسی کاروائی کے ردعمل سے بچنے اور اپنی حکومت کو پہنچنے والے فوری نقصان سے بچایا جاسکے اس لیئے پیپلز پارٹی نے حکومتی سیٹ اپ کسی بھی طرح برقرار رکھنے کے لئے مسلم لیگ ق کو اپنے ساتھ شامل کرلیا تھا اور مطلوبہ نشستیں پیشگی طور پر پوری کرلیں تھیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ عوامی امنگوں اور توقعات کے مطابق مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے یا اس کی تباہی کے لیئے کس طرح اور کیا شیئر کرتی ہے جس سے لوگوں کو یہ یقین آجائے کہ نواز شریف اور ان کی پارٹی بھی حکومتی پارٹی سے منفی اقدامات اور عوام کی امنگوں کے مطابق فیصلے نہ کرنے سے عوام کی طرح بیزار ہیں اور وہ جھوٹ اور فریب کی سیاست سے نفرت کرتے ہیں ۔

حکومت کے خاتمے کے لیئے عوامی خیالات اور خواہشات پر مبنی حکومتی دیواروں کی پہلی اینٹ گرانے کا سہرار تو ماروی میمن کو جاتا ہے جنہوں نے رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے اسی ماہ کی 21 تاریخ کو استعفیٰ دیکر حکومت کو گرانے کے کام کا آغاز کردیا تھا ۔

ملک کی جو صورتحال آج ہوچکی ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی عوامی اور جمہوری حکومت ہونے کے باوجود عوام اور لفظ جمہوریت کا روزانہ یہ مذاق بن رہا ہے عوام اور ملک کودرپیش مسائل کے خاتمے کے لیئے تقریبا ساڑھے تین سالہ دور میں حکومت نے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا اس لیئے عوام کی اکثریت کی اب یہ ہی خواہش ہے کہ حکومت کی ”چھٹی ہوجائے “۔

لیکن ایک سوال سب ہی کے ذہنوں میں ابھرتا ہے کہ آزاد کشمیر کے انتخابات کے دوران حکومت نے ملک اور قوم کے ساتھ ایسا کیاکردیا تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ نے فوری طور پر حکومت سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا نہ کوئی ایلٹیمٹم اور نہ ہی کوئی دھمکی دی بس حکومت سے علیحدہ ہوگئی ؟ یہ بات اہم ہے کہ متحدہ کے رہنماء ڈاکٹر فاروق ستار نے اعتراف کیا کہ ہم کو بہت پہلے ہی حکومت سے الگ ہوجانا چاہیئے تھا۔

آزاد کشمیر کی نئی حکومت کے قیام کے لیئے ہونے والے انتخابات کے دوران سیاسی جماعتوں کے فیصلہ کن حیرت انگیز رویہ سے پاکستانی قوم یہ سوچ سکتی ہے کہ ان پارٹیوں کو پاکستانی عوام سے زیادہ اپنے اور اپنی پارٹی کے مفادات عزیز ہیں ۔

اگر متحدہ کو پیپلز پارٹی کی حکومت نے آزاد کشمیر کے الیکشنز سے دستبردار ہونے کے لیئے دباؤ ڈالا تھا تو بہتر یہ ہوتا کہ اس صورتحال سے عوام کوآگاہ کیا جاتا نہ کہ خود انتخابات کے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد ایک قدم آگے کی طرف چلے جاتے۔

متحدہ بائیکاٹ اور احتجاج کا خاصہ تجربہ رکھتی ہے لیکن قوم کو آزاد کشمیر کے انتخابات کی دو سیٹوں کے حوالے سے متحدہ کا پاکستان کی حکومت سے اس طرح کے غیر متوقع احتجاج اور حکومت سے الگ ہوجانے کے فیصلے کی کوئی امید نہیں تھی کیونکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ متحدہ ایک مضبوط اور منظم جماعت ہے اس کا ووٹ بنک بھی محفوظ ہونے کا دعویٰ بھی موجود ہے تو بہتر نہ ہوتا کہ حکومت کے دباؤ کا ووٹ کی طاقت سے جواب دیا جاتا ؟۔ مجھے یقین ہے کہ اگر متحدہ ایسا کرتی تو اس اقدام سے پیپلز پارٹی زیادہ سہم جاتی اور متحدہ کی سیاسی بصیرت کی بھی قوم ایک بار پھر تعریف کیئے بغیر نہ رہتی۔

پاکستان سے مخلص سیاسی جماعتوں کو یہ بات بھی مدِ نظر رکھنا چاہئے کہ بھارت ،آزاد کشمیر میں ہونے والے انتخابات کے دوران کسی بھی طرح کی بد نظمی ، بدعنوانی یا ان انتخابات سے سیاسی جماعتوں کے بائیکاٹ کو ایشو بناکر اپنے مقاصد حاصل کرسکتا ہے جو ملک و قوم کی عزت ، بقاءاور سب سے بڑھ کر پاکستان کے کشمیر کاز کے لیئے نقصان کا باعث بن سکتا ہے ۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 152812 views I'm Journalist. .. View More