ہند پاک خارجہ سیکریٹری مذاکرات، بدلتے ہوئے موسم کی دستک

گزشتہ جمعرات و جمعہ (15 ، 16 جون) ہند پاک رشتوں کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا۔اسلام آباد میں ہند کی خارجہ سیکریٹری محترمہ نروپما راﺅ اور پاکستان کے خارجہ سیکریٹری سلمان بشیر کے درمیان مذاکرات بڑے ہی خوشگوار اورکھلے ماحول میں پایہ تکمیل کو پہنچے۔ اگرچہ بعض رپورٹوں میں یہ تاثر دیا گیا ہے ان مذاکرات میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے لیکن یہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔اس ملاقات کے درمیان باہم اعتماد اور امن و اتفاق کے لئے ایک دوسرے کے نظریہ کو جگہ دینے کی جیسی کوشش نظر آئی ہے وہ اس سے پہلے کبھی نظرنہیں آئی۔ چنانچہ پاکستان کے اصرار پر کشمیرکو مذاکرات میں شامل کیاگیا اور اس پر ایک علیحدہ اجلاس ہوا۔ اسی طرح پاکستان نے دہشت گردی کے خطرے کو تسلیم کیا اور اس کے ازالے کی ضرور ت پر اتفاق کیا۔ ایک بڑی پیش رفت یہ ہوئی کہ نیوکلیائی تنصیبات اور اسلحہ جات کے تعلق سے اعتماد سازی کی تدابیر تلاش کرنے کےلئے ماہرین کی ملاقاتوں پر اتفاق کیا گیا۔یہ دراصل اس لئے ممکن ہوسکا کہ دونوں ٹیموں کو ان کے وزرائے اعظم کی طرف سے یہ ہدایت تھی کہ مسائل کو الجھانے کے بجائے ان کو حل کرنے پر توجہ دی جائے ۔ چنانچہ مذکرات کے دوران شہ اور مات کے کھیل کے بجائے ایک دوسرے کو سمجھنے، سمجھانے اور ساتھ چلنے کی کوشش صاف نظر آئی۔

بڑی اہم بات ، جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا یہ ہے کہ مذاکرات کے اختتام پر مشترکہ اعلانیہ بھی جاری کیا گیا جس کی پہلے سے کوئی اطلاع نہیںتھی اور یہ خیال کیا جارہاتھا کہ دونوں سیکریٹریز الگ پریس سے خطاب کریں گے ۔ عجلت میں طلب کی گئی مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں دونوں نے مذاکرات کی پیش رفت کےلئے کا اعلان کیا۔اس پریس کانفرنس میں ہند کی خارجہ سیکریٹری نروپماراﺅ نے اپنے افتتاحی کلمات میں دو بڑی اہم باتوں کہیں جن میں باہم گہرا ربط ہے۔ انہوں نے پہلی بات تو یہ کہی کہ دوطرفہ تعلقات کے اوپر سے بندوق کا سایہ ختم ہونا چاہئے۔دوسری بات یہ کہی کہ 21 ویں صدی میں ہمارے رشتوں میں فوجی محاذ آرائی کے نظریہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس کے بجائے ہمارے رشتے امن، چوطرفہ تعاون، پھلتے پھولتے تجارتی اور اقتصادی اور سماجی روابط سے تعبیر ہونے چاہئیں ۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ سب خوف اور تشددسے پاک ماحول میں ہونا چاہئے۔

خوشی کی بات یہ ہے کہ اس بیان کا پاکستان کے عوام نے خیرمقدم کیا ہے جو گن کلچر سے عاجز آچکے ہیں۔ ہمارے کشمیری لیڈروں کا اظہار اطمینا ن اور حریت کانفرنس کا یہ بیان کہ اب وزرائے اعظم کے درمیان ملاقات ہونی چاہئے ظاہر کرتا ہے اس دور کے مذاکرات سے جو فضا بنی ہے وہ حوصلہ افزا ہے۔ ہند اور پاکستان کے وزرائے اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اور سید یوسف رضا گیلانی کے درمیان گزشتہ دو سال میں تین ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔ پہلی ملاقات16جولائی 2009ءکو شرم الشیخ میں اس وقت ہوئی تھی جب ممبئی پر دہشت گردانہ حملے کے زخم تازہ تھے اور ماحول انتہائی کشیدہ تھا۔ اس ملاقات کے بعدایک مشترکہ اعلانیہ جاری کرکے جامع مذاکرات پھر شروع کرنے کا جوعزم ظاہر کیا گیااس نے بہت سے لوگوں کو چونکا دیا تھا۔ یہ اعلانیہ اس بات کا اظہار تھا کہ مستقبل پر نظر رکھنے والے ماضی میں الجھ کر نہیں رہ جاتے ہیں۔ اس اعلانیہ میں صوبہ بلوچستان کا ذکر آنے اور مذاکرات کو دہشت گردی کے خاتمہ سے مشروط نہ کرنے پر اگرچہ پر ہندوستان میں لے دے مچی مگر مذاکرات کی جو راہ ہموار ہوئی اور ہند کے ساتھ دشمنانہ رویہ ترک کرکے دوستی اختیار کرنے کی نئی سوچ پر پاکستان چلانے کےلئے وہاں کی جمہوری حکومت کو جو تقویت ملی اس کو کیسے نظر انداز کردیاجائے؟ ان دونوں کی دوسری ملاقات 29 اپریل 2010کو سارک وزرائے اعظم کانفرنس کے دوران تھمپو(بھوٹان) میں ہوئی، جس میں ڈاکٹر من موہن سنگھ نے یہ یاد دلایا کہ سکھوں کی سب سے مقدس بارگاہ دربار صاحب کا سنگ بنیاد گیلانی صاحب کے جد صوفی میاں صاحب کے دست مبارک سے ہی رکھوایا گیا تھا،جس نے دونوں کے درمیان ایک فطری قربت کو زندہ کردیا۔دونوں کے درمیان باہم اعتبار، اعتماد اور احترام کی فضا پیدا ہوئی جو مسائل کے حل کےلئے بنیادی ضرورت ہے۔ اس فضا کو موہالی میں 30 مارچ2011 کی ملاقات سے اور تقویت ملی ۔ ساٹھ سال سے چلی آرہی بد اعتمادی کے فضا کو خوش اعتمادی میں تبدیل کرنا، وہ بھی جمہوری نظام میں آسان کام نہیں۔ یہاں بھی اور وہاں بھی ایسے ذہنوں کی کمی نہیں جن کو مسئلہ کا حل مذاکرات کی میز کے بجائے بندوق کی گولی میں نظر آتا ہے ۔اس ذہنیت کا بڑا ہی کھل کر اظہار ہمارے ٹی وی چینلز پر ایبٹ آباد آپریشن کے بعد کے مباحث میں ہوا۔اسی ذہنیت کا اظہار ہند میں ان دہشت گردانہ واقعات سے ہوتا ہے جن کے تار پاکستانی عناصر سے جڑے ہیں۔ ہندستانی خارجہ سیکریٹری نروپماراﺅ نے اپنے افتتاحی کلمات میں اسی ذہنیت کو نشانہ بنایا ہے۔ آج کے دورمیں کسی مسئلہ کا حل نہ روائتی عسکری طاقت سے نکل سکتا ہے اور نہ غیر روائتی عسکریت (جنگجوئیت یا دہشت گردی) سے نکلا ہے۔ اگر فوج کشی کسی مسئلہ کا حل ہوتی ہے کوامریکا کو ویتنام میں اور روس کو افغانستان میں منہ کی نہ کھانی پڑتی اور اسرائیل کولبنانی اور فلسطینی عوام نے لوہے کے چنے نہ چبوائے ہوتے۔آج پھر افغانستان میں جو کچھ ہو رہاہے وہ اسی کا اعادہ ہے۔

یوں تو گزشتہ ساٹھ سال میں ہند اور پاکستان کے درمیان امن اور مفاہمت کےلئے مذاکرات کے کئی دورچلے ۔ کئی معاہدے ہوئے، لیکن بلا تردد کہا جاسکتاہے کہ دونوں ممالک کی قیادت اس وقت جس قدر سنجیدہ اور عزم سے پر ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ہرچند کہ ڈاکٹر من موہن سنگھ کے پیش رو وزیراعظم اٹل بہاری باجپئی نے اس راہ میں جو قدم اٹھایا تھا وہ انکا ہی حصہ تھا اور اگرکرگل نہ ہوتا تو بس چلنے کے علاوہ کچھ دوسرے ا چھے نتائج سامنے آسکتے تھے۔ اس کے بعد دوسرا دور وہ آیا جس میں صدر پرویز مشرف نے پس پردہ سفارتکاری کے ذریعہ بعض مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی۔ مگر داخلی سیاست پر ان کی کمزور گرفت اور غیرجمہوری طریقہ کار نے اس کوشش کے کامیاب ہونے سے پہلے سے ہی ان کو منظر سے ہٹا دیا۔ڈاکٹر سنگھ اور مسٹر گیلانی کی یہ مساعی ان کوششوں کا تسلسل بھی ہے، تجدید بھی اور جدّت بھی۔ان کی وقعت اس لئے زیادہ ہے کہ دو جمہوری حکومتوں کے درمیان کو عمل ہے اور دونوں طرف زمین بھی ہموار ہورہی ہے۔

گزشتہ ساٹھ سال سے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور داخلی سیاست کا محور ہند کی دشمنی رہا ہے۔ اس محورکو بدلنا آسان کام نہیں ۔وزیز اعظم نے بڑی حکمت سے وہاں کی جمہوری حکومت کو اس پر آمادہ کرلیا ہے کی دشمنی کو دوستی اور مفاہمت میںبدلا جائے۔ اس کا ایک اثریہ ہوگا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی، جو فوج کے ہاتھوں گروی ہے اور جوفوج ہند کے ساتھ دشمنی کے نام پر پنپتی رہی ہے، اس میں مثبت تبدیلی آئے گی۔ یہ تبدیلی دکھائی بھی دینے لگی ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کا یہ بیان کہ پاکستان کو اپنا سب سے بڑا دشمن ہندستان کوسمجھنابندکرنا چاہئے ، کم اہم نہیں ہے۔اس کی ایک مثال پاکستان کے موقر اخبار ’ڈان‘ میں شائع مضمون’فار پاکستان، ٹائم ٹو ٹرائی انڈیا ایز فرینڈ‘ ہے۔ مسٹر عنان رحمت کا یہ مضمون 17 جون کو شائع ہوا جس میں اس نظریہ کومضبوط دلائل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اس کا خوش آئند پہلو یہ ہے اس پر 167 قارئین کی جوآراءشائع ہوئی ہیں ان میں سے ایک آدھ کو چھوڑ کر باقی سب نے مضمون نگار کی تائید و تحسین کی ہے۔ اس کاصاف مطلب یہ ہے ہند پاک مذاکرات یہ سلسلہ باآور ہورہا ہے اورماحول بدل رہاہے جو معاہدوں سے زیادہ اہم ہے۔

البتہ ہندستان میں ایک گروہ، جو خود کو بڑا قوم پرست باور کراتا ہے، ان کوششوں کے بوکھلایا ہوا ہے۔ انا ہزارے کو اور رام دیو کو آگے کرکے جو تحریکات چلائی جارہی ہیں ان کاایک بالواسطہ مقصد اس جدوجہد کو کمزور کرنا ہے جوبرصغیر کو امن کا خطہ بنانے کےلئے کی جارہی ہیں۔ان کو اندیشہ ہے اگر یہ کوششیں بارآور ہوگئیں اورہند پاک تجارتی رشتے قائم ہوگئے ، اورپاکستان نے ہند کا مال تجارت مشرق وسطیٰ اور یوروپ لانے لیجانے کےلئے ریل اور سڑک کے راستے کھول دئے تو وہ تجارت پیشہ طبقہ، جو اس مخصوص سیاسی ذہنیت کا ووٹ بنک ہے اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔مسلم دشمنی کا انکا کھوٹا سکہ چلنا بند ہوجائے گا اور دوطرفہ تجارت سے خوشحالی کی جو بہار آئے گی اس میں فرقہ پرستی کی فصل نہیں اگ سکے گی جس کے بغیر ان کے سیاسی عزائم پورے نہیں ہوسکیں گے۔

مذاکرات کے اس سلسلے کو آگے بڑھانےکے کے لئے دونوں وزرائے خارجہ کی جولائی میںنئی دہلی میں ملاقات ہوگی جس میں ویزا ضابطوں نرمی اور تجارت کے فروغ کے بعض اہم معاہدوں پر دستخط ہوسکتے ہیں۔ آبی تنازعہ اور دیگر اختلافی امور پر بھی اس دوران پیش رفت کے آثار ہیں۔

(مضمون نگا ر ’فورم فار سِوِل رائٹس ‘ کے جنرل سیکریٹری اور آل انڈیا ایجوکیشنل موومنٹ کے نائب صدر ہیں۔
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 164240 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.