ملکی سالمیت

جب ریاست کا وجود خطرے میں پڑ جائے تو پھر ریاست کو مشکل اور بے رحم فیصلے کرنے پڑتے ہیں اور میری ذاتی رائے کہ مطابق وہ وقت اب آن پہنچا ہے جس میں ہمیں ہر شہ سے بالا تر ہو کر فیصلے کرنے ہو نگے یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ ۹۷۹۱ کی افغان جنگ کی وجہ سے آئی ایس آئی اور شدت پسندوں کے درمیان را بطے تھے اور شدت پسندوں نے آئی ایس آئی کی شہ پر بڑے بڑے معرکے بھی سر انجام دئے تھے۔ مذہبی جماعتوں سے آئی ایس آئی کے تعلقات بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ملا ملٹری الائنس کی اصطلاح اسی تنا ظر میں استعمال ہو تی تھی کیو نکہ آئی ایس آئی مذہبی جماعتوں کواپنے مقاصد کےلئے استعمال کرتی تھی،جمہوری حکومتوں کی تبدیلی میں ان کی معاونت حاصل کرتی تھی، دھرنوں ، جلسے جلوسوں اور شور شرابے سے ایسی فضا تشکیل کرواتی تھی جس میں ان کےلئے اقتدار پر قبضے کی راہیں آسان ہو جائیں۔ فوج مذہبی جماعتوں کو ان کی ان خدمات کے صلے میں خصوصی مفادات سے نوازتی تھی لیکن اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی اور ہلاکت نے سارا منظر نامہ بدل کر رکھ دیا ہے ۔شدت پسند غصے سے ہوش و حواس کھو چکے ہیں اور جو بھی ان کی راہ میں آرہا ہے وہ اسے ملیا میٹ کرنے پر تلے ہو ئے ہیں اور آج کل ان کی توپوں کا رخ آئی ایس آئی کی طرف ہے کیونکہ پاکستان پر مذہبی حکومت کے قیام کی راہ میں وہ آئی ایس آئی کو سب سے بڑی رکاوٹ تصور کرتے ہیں لہذا وہ خاموش معاہدہ جو فوج اور مذہبی جماعتوں کے درمیان تھا تار تار ہو تا جا رہا ہے اور آج کل یہ دونوں قوتیں ایک دوسرے کے مدِ مقابل کھڑی ہیں۔ پاکستانی فوج آئی ایس آئی اور خفیہ ایجنسیوں پر سب سے شدید تنقید مذہبی جماعتوں کی جانب سے ہو رہی ہے جبکہ کل تک وہ فوج کا پانی بھر رہی تھیں اور ان کے اشاروں پر ناچ رہی تھیں۔۔۔

پی این ایس مہران پر حملہ بھی اسی سوچ کی ایک اہم کڑی ہے۔آئی ایس آئی کو اب اس چیز کا ادراک کرنا ہو گا کہ حالات بدل چکے ہیں اور نئے بدلتے موسموںمیں انھیں نئی حکمتِ عملی ترتیب دینی ہوگی اب انھیں جمہوری نظام اور جمہوری قیادت کی با لا دستی کو تسلیم کرنا ہوگا۔ مذہبی تنظیموں سے اپنے روابط کو مکمل طور پر منقطع کرنا ہو گا اور انھیں اپنی حدود میں رکھنا ہو گا۔آئی ایس آئی اور دوسری ایجنسیوں کی پشت پناہی نے مذہبی تنظیموں کو بہت طاقتور بنا دیا ہے جس کا مظاہرہ پی ا ین ایس مہران پر تازہ ترین یلغار ہے۔ اس حملے نے فوج کی ساکھ کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچا یا ہے اور اس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ڈال دیا ہے لہذا فوجی قیادت کو مذہبی تنظیموں کے خلاف ایک گرینڈ اپریشن کرنا ہو گا ۔ انھیں ان کی ا وقات میں رکھنا ہوگااور ان سے اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرنی ہو گی ۔ فوج کو اس بات کا فیصلہ کرنا ہو گا کہ آیا وہ اسی پرانی روش پر گامزن رہے گی یا حالات کا ادراک کرتے ہوئے خود کو اپنی آئینی ذمہ داریوں تک محدود کر لے گی۔ فوج اس وقت سخت دباﺅ کا شکار ہے کیونکہ ایک طرف دھشت گردوں کے خاتمے کےلئے اس پر امریکہ کا پریشر ہے تو دوسری طرف شدت پسندوں کی مخاصمت کا اور تیسری طرف اسے بھارتی مکاریوں کاسامنا ہے جو پاکستان کی یکجہتی کو ملیا میٹ کرنا چاہتے ہیں لہذا اسے پاکستان کی سلامتی کو پیشِ نظر رکھ کر کڑے فیصلے کرنے ہوں گے اور مذہبی گروہوں کے ساتھ اپنے روابط کو ختم کر کے انھیں قانون کے شکنجے میں جکڑنا ہو گا۔میری ذاتی رائے میں فوج ہی وہ واحد ادارہ جس سے مذہبی تنظیمیں خوف کھاتی ہیں وگرنہ انھوں نے تو و فا قی وزیر شہباز بھٹی اور پنجاب کے گورنر سلیمان تا ثیر کو دن دھاڑے قتل کردیا تھا اور حکومت ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکی تھی بلکہ الٹا انھیں صفایاں پیش کر رہی تھی اور انکے سامنے اس کا رویہ معذرت خوانہ تھا ۔۔

وقت آگیا ہے کہ اس چیز کا فیصلہ کر لیا جا ئے کہ پاکستان کوا سلام کا قلعہ بنا نا ہے یا اسے ایک جمہوری اور فلاحی ریاست بنا نا ہے کیونکہ اسلام کے قلعے کی تعبیر اس ملک کے وجود کے لئے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔اسلام کے قلعے کا مطلب دنیا بھر کے مسلم دھشت گردوں کو تحفط بہم پہنچا نا ہے جیسا کہ جنرل ضیاا لحق نے پہنچایا تھا اور اس ملک کی تباہی کی بنیادں رکھی تھیں۔ زمینی حقائق اب اس بات کا تقاضہ کر رہے ہیں کہ ہم ساری اسلامی دنیا کے مامے بننے کی بجا ئے اپنی ترقی اور سالمیت پر اپنی توجہ مبذول رکھیں نہیں تو ہماری جذباتی سوچ ہمیں کہیں کا بھی نہیں چھو ڑے گی اور مملکتِ خداداد ہمارے ہاتھوں سے نکل جائےگی۔پاکستان کی تشکیل کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا اس کےلئے لا کھوں لوگوں نے اپنے لہو کا خراج دیا تھا اور ہجرت کا کرب سہا تھا تب کہیں جا کر یہ مملکت ظہو ر پذیر ہو ئی تھی لہذا کوئی اس غلط فہمی میں مبتلا نہ رہے کہ اس ملک کے باسی اس ملک کو شدت پسندوں کے ہاتھوں آسانی سے یر غمال بننے دیں گے۔اس ملک کی تشکیل کےلئے ہمارے آبا ﺅ اجداد نے اپنا لہو دیا تھا لہذا ہم اپنے آباﺅ اجداد کے اس حسین تحفے کی حفاظت کےلئے ہم اپنا لہو دیں گے لیکن اس کی سالمیت پر کوئی حرف نہیں آنے دیں گے۔ آئیے دیکھیں میرے ا ستادِ محترم اور آزادی کے نامور سپوت پرو فیسر اصغر سودائی اس سارے منظر کو کیسے دلدوز اور خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہیں۔
کتنے پیکر کٹے تب یہ پیکر بنا۔۔ کتنے ما تھے جلے تب یہ جھومر بنا
کتنے سپنوں کی بنیادپر یہ گھر بنا۔۔میرا سندر سنہرا سجیلا وطن ( پرو فیسر اصغر سودائی)

موجودہ صورتِ حال کی حقیقت کو جاننے کےلئے ہمیں تحریکِ پاکستان کے ان ایام کو یاد کرنا ہو گا جن دنوں قائدِ اعظم اور مذہبی جماعتوں کے درمیان ایک جنگ کی سی صورت، حال تھی کیو نکہ ان دنوں کی چشم پوشی سے ہم صحیح صورتِ حال کا ادراک کرنے سے محروم رہ جائیں گے۔تحریکِ پاکستان ایک جنگ تھی امن پسندوں اور شدت پسندوں کے درمیان۔ ایک گروہ کی قیادت قائدِ اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے ہاتھوں میں تھی جب کہ دوسرے گروہ کی قیا دت مولا نا ابو الکلام آزاد( صدر انڈین نیشنل کانگرس) مولا نا حسین احمد مدنی ( صدر جمعیت العلمائے ہند) اور مولا نا سید ابو الا علی مودودی (امیر جماعت اسلامی)کے ہاتھوں میں تھی۔اول الذکر گروہ جمہوریت کے بطن سے ووٹ کی قوت سے پاکستان کی تشکیل چاہتا تھا جب کہ دوسرا گروہ بھارت کے اندر ہندووں کے ساتھ باہم شیر و شکر ہو کر رہنا چا ہتا تھا۔ پاکستان کبھی بھی انکی منزل نہیں تھی اور نہ ہی وہ تحریکِ پاکستان کو کوئی خاص اہمیت دیتے تھے۔ ان کا فلسفہ بھارت کے اندر ہندﺅں کے ساتھ رہ کر اسلام کی اشاعت کا کام کرنا تھا جیسا کہ آج کل ہمارے بھارتی مسلمان کر رہے ہیں۔ ان کابھارت کے اندر جو سیاسی ، معاشرتی اور معاشی مقام ہے وہ ساری دنیا کے علم میں ہے اس پر کسی تبصرے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس وقت کی مذہبی قیادت بدلتی ہوئی دنیا کا ادراک کرنے میں ناکام رہی تھی وہ جمہوریت کی قوت سے قوموں کی تشکیل کی فکر کو سمجھنے سے قاصر رہی تھی ۔وہ اپنی اسی قدیم روش کو جس میں جنگ وجدل اور شمشیر زنی سے مملکتوں کے فیصلے کئے جاتے ہیں اسی پر مصر رہی جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ ا نکی ر جعت پسند فکر کو لوگوںنے مسترد کر دیا اور قائدِ اعظم کی قیادت میں پر امن جمہوری جدو جہد سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کے قیام کا معجزہ سر انجام دے کر ملا ئی سوچ کو شکستِ فاش سے دوچار کر دیا۔مذہبی قیادت وقتی طور پر ہار تو گئی لیکن اس نے اس ہار کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا لہذا اپنی ہار کا بدلہ لینے کےلئے مناسب وقت کی تلاش میں رہی۔ وہ جنگ جو اس وقت لڑی گئی تھی آج بھی جاری ہے یہ الگ بات کہ وقت کے نئے دھارے میں اس کی شکل و صورت بدل گئی ہے لیکن اپنی روح کے لحاظ سے یہ وہی جنگ ہے جو ترقی پسندوں اور شدت پسندوں کے درمیان جاری تھی اور ہمیشہ جاری رہے گی۔ سر سید احمد خان۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح، ذولفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو ترقی پسندی اور جمہوری سوچ کے علمبردار تھے جبکہ مذہبی پیشوائت انکے مدِ مقابل تھی جو انھیں ہر حال میں شکست دینا چاہتی تھی لیکن انکی سیاسی بلوغت کی وجہ سے ایسا کر نہ سکی ۔آئیے اس دور کے مذہبی اور سیاسی زعما کی فکر اور سوچ کی ایک جھلک دیکھنے کی کوشش کریں تا کہ آج کے منظر نامے کو سمجھنے میں آسانی ہو جائے۔۔

پاکستان کی کانسٹی ٹیوشن اسمبلی نے ابھی پاکستان کا آئین مرتب کرنا ہے ۔ میں نہیں جانتا کہ اس آئین کی آخر ی شکل کیا ہو گی لیکن کچھ بھی ہو یہ مسلمہ بات ہے کہ پاکستان میں کسی صورت میں بھی تھیاکریسی( مذہبی پیشوائیت)رائج نہیں ہو گی جس میں حکومت مذہبی پیشواﺅں کے ہاتھ میں دے دی جاتی ہے کہ وہ بزعمِ خویش خدائی مشن کو پورا کریں۔(قائدِ اعظم محمد علی جناح فروری ۸۴۹۱)

افسوس کہ لیگ کے قائدِ اعظم سے لے کر چھوٹے مقتدیوں تک ایک بھی ایسا نہیں جو اسلامی ذہنیت اور اسلامی طرزِ فکر رکھتا ہو اور معاملات کو اسلامی نقطہ نظر سے پرکھتا ہو۔(مولانا سید ابو الا علی مودودی )
جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ اگر مسلم اکثریت کے علاقے ہندو اکثریت کے تسلط سے آزاد ہو جائیں گے اور یہاں جمہوری نظام قائم ہو جائے تواس طرح حکومت ِ الہی قائم ہو جائے گی ان کا گمان غلط ہے۔در اصل اس کے نتیجے میں جو کچھ حاصل ہو گا وہ مسلمانوں کی کافرانہ حکومت ہو گی۔(مولانا سید ابو الا علی مودودی )

یہ تخیل کہ مسلمان بر بنائے مذہب ایک جداگانہ قوم ہیں اور ہندو ستان میں دو الگ الگ قومیں آباد ہیں ۔ایک ہندو اور دوسری مسلمان، انگریز کا وضع کردہ ہے۔(مولانا ابو الکلام آزاد)۔

میں فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہو ں کہ میں ہندوستانی ہوں۔ میں ہندوستان کی ایک اور ناقا بلِ تقسیم متحدہ قومیت کا ایک عنصر ہوں۔(مولانا ابو الکلام آزاد)۔

قومیں اوطان سے بنتی ہیں لہذا مذہب کسی ریاست کے قیام کی بنیاد کیسے بن سکتا ہے۔( مولانا حسین احمد مدنی صدر جمعیت ا لعلمائے ہند )

مذہبی قیا دت کو تو شائد اپنی پرانی شکست کا بدلہ چکانا ہے کہ یہ ریاست ان کی مخالفت کے باوجود کیسے معرضِ وجود میں آگئی کیونکہ انھوں نے پاکستان کے قیام کی مخالفت کی تھی لہذا آج اس کی بقا سے ان کی عدمِ توجہی تو سمجھ میں آ سکتی ہے لیکن وہ لوگ جنھوں نے اس کے قیام کی خاطر بیش بہا قربانیاں دی تھیں ا نھیں تو ان جماعتوں کی فکر کی ہمنوائی سے پر ہیز کرنا چائیے۔ مسلم لیگ (ن) خود کو قائدِ اعظم کی فکر اور اندازِ سیاست کی علمبردار ہونے کا دعوی کرتی ہے لیکن وہ بھی شدت پسندوں کی فکر کے ساتھ خود کو ہم آہنگ رکھے ہو ئے ہے تا کہ مذہبی جماعتوں کے ووٹ بینک سے انتخابات میں کامیابی حاصل کی جا سکے۔ یہ وقت سیاست بازی کا نہیں ہے ملکی سالمیت کو یکجا رکھنے کا ہے اور اس کےلئے ہمیں آگے بڑھ کر اسکی سالمیت کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔سیاست بھی ہوتی رہے گی لیکن وہ بات جو اس وقت سب سے اہم ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کی بقا اور اسکی سلامتی کےلئے سیاسی جماعتوں کو ذاتی مفادات سے بلند ہو کر فیصلے کرنا ہوں گے کہ یہ وقت ایسے ہی بڑے فیصلوں کا متقاضی ہے وگرنہ تھوڑی سی کوتاہی سے بہت دیر ہو جائیگی۔

لیفٹیننٹ یاسر عباس شہید اور دوسرے فوجی جوانوں کی شہادت ہم سے مطالبہ کر رہی ہے کہ ہم دھشت گردوں اور امن پسند لوگوں کے درمیان ایک لکیر کھینچ لیں اور پھر لکیر کے اس پار والے سارے افراد کے ساتھ وہی سلوک کرین جس کے وہ حق دار ہیں ۔ اگر آج ہم کمزوری اور مصلحتوں کا شکار ہو گئے تو پھر ہمیں کئی لیفٹیننٹ یاسر عباسوں کے لاشے اٹھانے پڑیں گے اور ملکی سلامتی بھی گہرے بادلوں کی زد میں آجائے گی لہذا ہمیں ایسے لوگو ں کے خلاف ہر حال میں بے رحم اپریشن کرکے ان کا صفایا کرنا ہو گا۔ہمیں یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وطن کی محبت کے سامنے ہما ری ساری محبتیں اور تعلقات ہیچ ہیں۔ اس اپریشن کی زد میں بہت سے ایسے لوگ آئیں گے جو کبھی آئی ایس آئی اور ایجنسیوں کے بڑے چہیتے تھے لیکن وطن کی بقا کی خاطر ان کو کٹہرے میں کھڑا کر نا ہی دیش پریمتا ہو گی اور اسی طرح کی دیش پریمتا کی ہمیں سخت ضرورت ہے۔فوج کو اپنی پرانی روش کو بدلنا ہو گا اور سب سے پہلے پاکستان کے ایجنڈے پر کام کرنا ہو گا کیونکہ اسی میں پاکستان کی بقا کا راز ہے۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 451556 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.