مِہر جان - دوسری قسط

ایک سپاہی، جو زلف بنگال کا اسیر ہو گیا !

دو تین دن خاصی مصروفیت میں گزارنے کے بعد چوتھے دن مجھے خیال آیا کہ میں نے تو دلدار بھٹی سے ملنے کا وعدہ کیا ہوا ہے، وہاں پہنچا تو بھٹی کے ساتھ مورچے میں ایک ادھیڑ عمر کے مولوی صاحب کو بیٹھے دیکھا جو اردو میں بات کر رہے تھے میرے ساتھ اُن کا تعارف کراتے ہوئے بھٹی نے بتایا کہ یہ اِس گاﺅں کی مسجد میں امامت کرتے ہیں اور کبھی کبھی میرے پاس آ کر بیٹھ جاتے ہیں، اردو بھی اچھی بول لیتے ہیں اس لیے اِن سے بات چیت ہو تی رہتی ہے، مولوی صاحب نے مزید بتایا کہ یہاں ہر مدرسے میں اردو لازمی پڑھائی جاتی ہے کیونکہ فقہہ اور حدیث کی زیادہ تر کتابیں اردو زبان میں ہی دستیاب ہیں اور قرآنِ پاک کا ترجمہ بھی لفظ با لفظ کرنے میں آسانی ہوتی ہے بنگلہ زبان چونکہ انگریزی کی طرح بائیں سے دائیں لکھی اور پڑھی جاتی ہے جبکہ عربی اور اردو دائیں سے بائیں لکھی اور پڑھی جاتی ہے اسی لیے مدرسے میں پڑھنے والا ہر طالب علم اردو لکھنا پڑھنا اچھی طرح جانتا ہے۔ باتوں ہی باتوں میں گاﺅں کے لوگوں کے بارے میں بھی کچھ معلومات ہوئیں، میں نے مہر جان کے ماں باپ کا ذکر کیا تو مولوی صاحب نے بتایا کہ وہ قاضی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں اور گاﺅں میں اُن کی سبھی عزت کرتے ہیں اُن کے دو بیٹے خاتون گنج (چٹاگانگ کی ہول سیل مارکیٹ کا نام)میں بڑا کاروبار کرتے ہیں، اچھی خاصی زمین بھی ہے جس کی آمدنی بھی کافی ہو جاتی ہے، میں نے موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے مولوی صاحب سے دلدار بھٹی کی شادی کروانے کی بات کر کے اُن کا عندیہ معلوم کیا تو اُن کی باتیں سُن کر مجھے یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ مہر جان کے بارے میں ساری معلومات بھٹی کو انہیں کے ذریعے سے حاصل ہوئی ہیں اور وہی بھٹی کو یقین دلائے ہوئے ہیں کہ یہ کام اُن کے لیے اتنا مشکل نہیں، بس ذرا مکتی باہنی والے دو بھائیوں کا ڈر ہے کہ وہ پاک فوج کے جانی دشمن ہیں اور کبھی نہیں چاہیں گے کہ اُن کی بہن کی شادی کسی پاکستانی فوجی کے ساتھ ہو،میں نے اُن مولوی صاحب( جن کا نام کمال الدین تھا)سے اپنی طرف سے درخوست کرتے ہوئے کہا، آپ تو ماشااللہ دینی علم کے ماہر ہیں اور جانتے ہیں کہ دو سروں کو جوڑنا ایک بہت بڑی نیکی ہے، اِسی دوران میں نے بھٹی کو پاس والے ہوٹل سے چائے اور کچھ بسکٹ وغیرہ کا آڈر دینے کے لیے کہا جسے سُن کر مولوی صاحب کے چہرے پر ایک رونق سی آ گئی اور انہوں نے بڑے پرجوش لہجے میں کہا، بھائی صاب آپ فِکور نہیں کوریں(بنگالی اردو بولتے ہوئے ”و“ کا اضافہ کر دیتے ہیں اِسی بنا پر انڈین گورنمنٹ کو ”کلکتہ “کا نام بدل کر” کولکتہ“ رکھنا پڑا) میں اپنی پوری کوشش کر وں گا آگے جو اللہ کو منظور!! چائے اور بسکٹ کھا پی کر مولوی صاحب جب رخصت ہوئے تو میں نے بھٹی کی خوشی جو میری اور مولوی صاحب کی گفتگو سے اُسے ملی تھی اُس کو محسوس کرتے ہوئے اُسے چھیڑنے والے انداز میں کہا ،اب بتاﺅ مہر جان سے اور کوئی بات بھی ہوئی یا نہیں ؟ بھٹی نے ذرا شرماتے ہوئے کہا آپ تو میری سب باتیں جانتے ہیں آپ سے کیا چھپانا ، کل جب میں اُس کے واپسی کے راستے پر جا کر کھڑا ہوا تو وہ میرے قریب آ کر شرماتے ہوئے بولی ” آمی تُما کے بھالو باشی“ اور جھٹ سے سائیڈ سے نکل کر گاﺅں کی طرف بھاگ گئی ، میں نے ذرا تعجب کرتے ہوئے کہا ، یار جب تم اُس کا راستہ روکتے ہو تو گاﺅں والے یا آس پاس کے لوگ کچھ نہیں کہتے ؟ بھٹی نے لاپرواہی سے ہاتھ گھما کر کہا ، مجھے کسی کی پرواہ نہیں لوگ کچھ بھی سمجھیں ! میں کسی بُری نیت سے اُس کو نہیں دیکھتا ، اور ویسے بھی فوجی وردی کو دیکھ کر لوگ نظریں نیچی کر لیتے ہیں جیسے کچھ دیکھا ہی نہیں!! میں نے کریدتے ہوئے پھر سوال کیا، اچھا یہ بتاﺅ جو کچھ اُس نے کہا اِس کا مطلب بھی جانتے ہو ؟ تو اس نے شرماتے ہوئے آہستہ سے کہا ،”میں تم سے محبت کرتی ہوں“ یہی مطلب ہے اس کا! یہ تمہیں کیسے پتہ چلا کہ اس کا یہی مطلب ہے ؟ مجھے اس کے معنی مولوی صاحب نے یہی بتائے ہیں، ( مولوی صاحب کا ذکر آتے ہی مجھے اپنے ایک کاروباری بزرگ حاجی نذیر کا قصہ یاد آگیا جو رام گلی لاہور کے رہنے والے تھے گو کہ اس قِصے کا اصل کہانی سے کوئی تعلق نہیں مگر ضمنی طور پر اِسے لکھنے کا مقصد اِس قسم کے ملاﺅں کی حقیقت بیان کرنا ہے جنہیں اپنے تھوڑے سے فائدے کے لیے کسی ایک کا گھر آباد کرنے اور کسی دوسرے کا برباد کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی، حاجی نذیر صاحب جنہیں ایک مولوی قدوس صاحب نے جو اُن کے پاس ہوٹل میں اپنے مدرسے کے لیے چندہ لینے آتے تھے، ساٹھ سال کی عمر میں بار بار شادی پر اُکسا کر اٹھارہ سال کی ایک کنواری غریب رکشہ ڈرائیور کی بہن سے شادی کرا دی ۔

انسانی فطرت ہے کہ کوئی اچھی اور حلال چیز بار بار کھلانے پر اصرار کیا جائے تو بڑے بڑے پرہیزی لوگوں کے بھی منہ میں پانی آ ہی جاتا ہے لہٰذا حاجی صاحب نے شادی تو کر لی مگر جب اُن کی لاہور والی بیوی کو پتہ چلا جو بڑی زبردست قسم کی عورت تھیں تو وہ خود با نفسِ نفیس چٹاگانگ تشریف لائیں اور حاجی صاحب کو جوان بیٹوں کا رُعب دکھا کر راتوں رات لاہور لے گئیں ، صبح جب دوسری بیوی کی آنکھ کھلی تو ” پُنوں“ نہیں تھا، ” جن لوگوں نے سسی پنوں کا قِصہ سن رکھا ہے وہ میرا اشارہ سمجھ گئے ہوں گے“ حاجی صاحب بھی پہلی بیوی سے ایسے ڈرے کہ کبھی مُڑ کر دیکھا نہ خبر لی ،بنگلہ دیش بننے کے بعد جب میں وہاں گیا تو حاجی صاحب کی دوسری بیوی ایک چھ سالہ بچی کو لے کر مجھ سے ملنے آئی اور روتے ہوئے بتایا کہ غربت کی وجہ سے میرے بھائیوں نے میری دوسری شادی کر دی ہے مگر میرا دوسرا خاوند اِس بچی کو رکھنے کے لیے تیار نہیں جو حاجی نذیر کی بیٹی ہے، میں یہ سُنکر حیران سا ہو گیا میں نے جب پوچھا کہ کیا حاجی صاحب سے طلاق لے کر یہ شادی ہوئی ؟ تو میرے سوال کا جواب اُس کے دوسرے خاوند جو حاجی صاحب سے بھی زیادہ عمر کا تھا جھریوں بھرے چہرے پر مسکراہٹ جس سے جھُریاں اور بھی گہری ہو گئیں لاتے ہوئے کہا ، وہ ہم نے مولوی صاحب سے مسئلہ پوچھا تھا انہوں نے بتایا کہ چار سال تک اگر خاوند لاپتہ رہے، رجوع بھی نہ کرے تو عورت دوسرا نکاح کر سکتی ہے، مختصراً یہ کہ میں نے جب لاہور واپس آ کر حاجی صاحب سے ملنے اُن کے گھر پہنچا اور بتایا کہ میں بنگلہ دیش سے آیا ہوں تو وہ مجھے ایک الگ کمرے میں لے گئے اور احتیاطً دروازہ بند کر دیا ، میں نے بڑے ادب سے جب اُن سے دوسری شادی کے بارے میں سوال کیا، تو بڑی بےچارگی سے فرمانے لگے ، کیا بتاﺅں بھائی، میں جس ہوٹل میں رہتا تھا اُس کے سامنے لڑکیوں کا اسکول تھا اور کمرے کی کھڑکی سے اُس کے اندر بھی نظر پڑتی رہتی تھی جہاں فیشن زدہ اُستانیاں گھومتی پھرتی نظر آتی تھیں، ادھر مولوی قدوس روزانہ میرے پاس آکر کہتا رہتا، حاجی صاحب ایک یہاں بھی شادی بنا لو نا ؟ چھ چھ مہینے کاروبار کے لیے یہاں رکنا پڑتا ہے ہوٹلوں کا بے مزا کھانا کھا کر بیمار ہو جاتے ہو ، کوئی خدمت کرنے والی آجائے گی تو ہر طرح کا آرام مل جائے گا، بس اُس کی باتوں میں آ کر میں ذرا بہک گیا تھا وگرنہ اِس عمر میں تو بچوں کی خوشیاں دیکھی جاتی ہیں، اُن کے چہرے پر شرمندگی کے آثار دیکھ کر میں نے اُن کی دلجوئی کرتے ہوئے کہا، حاجی صاحب ہم لوگ انگریزوں اور ہندﺅں کے ساتھ رہ رہ کر دوسری شادی کو معیوب سمجھنے لگے ہیں جبکہ اسلام تو ہمیں اجازت دیتا ہے ہندﺅ دھرم میں بیوہ عورتوں کو شادی کی ممانعت ہے اِس کے بر عکس ہمارے دین اسلام میں بیوہ سے نکاح سنتِ رسول ﷺ ہے اور قرآنِ پاک میں اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے کہ ا گر تم انصاف کر سکو تو ایک سے زیادہ عورتوں کو نکاح میں رکھ سکتے ہو، اور آپ نے تو گناہ کا کام نہیں کیا جس پہ شرمندہ ہونا پڑے، ایک غریب لڑکی سے شادی کر کے اُس کے خاندان کا بوجھ ہلکا کیا تھا یہ الگ بات ہے کہ آپ کے آنے کے بعد اچانک وہ حصہ بنگلہ دیش بن گیا اور آپ کا دوبارہ اُن سے رابطہ نہ ہو سکا ، پھر جب میں نے اُن کو اُن کی بیٹی کے بارے میں بتایا جو شاید اُن کے علم میں نہیں تھا تو انہوں نے غصے کے انداز میں کہا وہاں سے دوکان کے پتے پر خط تو آتے رہتے ہیں جو مجھ تک نہیں پہنچتے مگر اب میں ایسا نہیں ہونے دوں گا ، میرے آنے کے بعد جیسا کہ مجھے بعد میں انہوں بتایا ، انہوں نے اپنے بیٹوں کو غیرت دلائی کہ تمہاری بہن بنگلہ دیش میں تمہارے ہوتے ہوئے لاوارثوں کیطرح دھکے کھا رہی ہے جو تمہارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے ، میں نے کوئی گُناہ کرنے کی بجائے ایک جائز کام کیا تھا اگر میں کچھ ایسا ویسا کرنا چاہتا تو اپنی یہ دولت جس پر تم قبضہ جمائے بیٹھے ہو وہاں برباد کر سکتا تھا، لہذا میری اُس جائز اولاد کو اپنی بہن سمجھ کر اُس کے حقوق ادا کرو جو تمہارا دینی فریضہ بھی ہے اور خُدا کے سامنے سرخرو ہونے کا موقع بھی !! تب اُن کے بیٹوں نے اُس لڑکی کو پاکستان لا کر پڑھایا لکھایا اور اچھی جگہ اُس کی شادی بھی کر دی)

بھٹی صاحب کے معاملے میں مولوی کمال الدین کی دلچسپی دیکھ کر مجھے کچھ کچھ یقین تو ہو گیا کہ مہر جان کے والدین کو تو یہ راضی کر لیں گے، گاﺅں والے بھی ان کے دلائل سن کر نرم ہو ہی جائیں گے اصل رُکاوٹ مکتی باہنی والے بھائیوں کی ہے جنہیں نپٹانا ان کے بس میں نہیں کہ جو مولویوں کو رضاکار اور پاک فوج کا دلال کہہ کر نفرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں، سوچتے سوچتے اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا کہ اگر مولوی صاحب بھٹی اور مہرجان کا کسی بھی طرح نکاح پڑھا دیں تو اس کے بھائی بھی کچھ نہیں کر سکیں گے ، اس طرح ہونے سے اُن کو بھی اپنی بہن کے سہاگ پر ہاتھ اُٹھاتے کچھ تو شرم آئے گی ، میں نے جب یہ حل بھٹی کو بتایا تو اُس نے روائتی آن دکھاتے ہوئے کہا ، ’ نہیں میں چوری چھپے نہیں سب کے سامنے اُن کی مرضی سے نکاح کروں گا‘، میں نے بہت سمجھایا کہ جب تم دونوں بالغ ہو اور اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتے ہو جس کی دنیا کے ہر قانون میں اجازت بھی ہے بشرطیکہ لڑکی کی مرضی بھی اِس میں شامل ہو !تو پھر دیر کس بات کی بسم اللہ کرو ؟

مگر بھٹی اپنی بات پر اڑا رہا کہ کروں گا تو سب کے سامنے نہیں تو ؟؟ جب میں نے دیکھا کہ بھینس کے آگے بین بجانا بے سود ہے تو میں خاموشی سے واپسی کے ارادے سے اُٹھا ،مگر بھٹی نے ہاتھ پکڑ کر مجھے بٹھاتے ہوئے کہا، آپ ناراض نہ ہوں ٹھنڈے دل سے میری پوری بات سن لیں اگر آپ کو میں قائل نہ کر سکا تو میں آپ کی بات مان کر جیسا آپ کہیں گے ویسا ہی کر وں گا، کچھ توقف کر کے اُس نے ایک لمبی سانس لی اور فیصلہ کُن انداز میں کہنا شروع کیا، در اصل بات یہ ہے کہ میں کوئی بھی ایسا قدم نہیں اُٹھانا چاہتا جس سے پاک فوج کے نام پر حرف آئے،ورنہ جو آپ کہہ رہے ہیں اُس کے لیے تو مجھے بہت پہلے سے کہا جا رہا ہے، مجھے اُس کی بات سن کر ہنسی بھی آئی اور تھوڑا دکھ بھی ہو ا وہ اِس لیے کہ ایک طرف تو اسی کے بھائی بند ایسے ایسے ناجائز کام کر رہے ہیں کہ شیطان بھی شرم سے منہ چھپا لیتا ہو گا اور دوسری طرف یہ صاحب جائز کام کرنے پر بھی سوچ رہے ہیں کہ پاک فوج کی بدنامی نہ ہو ۔ میں نے خوش ہو کر کہا، سبحان اللہ بھٹی صاحب آپ کی طرح اگر ہم سب سوچ لیتے تو آج یہاں بھی مشین گن کی گولیوں کی جگہ چین کی بانسری کی آواز گونج رہی ہوتی ، تمہارے ایک کے ایسا سوچنے سے کیا پاک فوج کی بدنامی رُک جائے گی جس پر تمہارے ہی بھائی اپنی بُری حرکتوں کے ٹھپے لگا لگاکر اُسے کالا سیاہ کر دے رہے ہیں ؟ بھٹی نے ایک اور دلیل دے کر مجھے لاجواب سا کر دیا کہ ہر کسی کو اپنے عمل کے لیے جوابدہ ہونا ہے ،اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں جس دن سب ایک جیسے ہو جائیں گے اُسی دن دنیا تباہ ہو جائے گی ،مجھے دوسروں کی راہ نہیں اپنی راہ خود متعین کرنی ہے ۔

بھٹی کی باتیں دل کی گہرائی میں اُتار کر میں جب واپس آیا تو اُس کے مقابلے مجھے اپنا قد بہت چھوٹا معلوم ہو رہا تھا۔

(جاری ہے)
H.A.Latif
About the Author: H.A.Latif Read More Articles by H.A.Latif: 58 Articles with 77173 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.