مِہر جان - پہلی قسط

ایک سپاہی، جو زلفِ بنگال کا اسیر ہو گیا !

برِصغیر میں تین چیزیں بڑی مشہور ہیں ،حُسنِ کشمیر، ہمتِ پٹھان اور زلفِ بنگال جس میں کوئی شک بھی نہیں، ہر کوئی جانتا ہے کہ کشمیر جیسا حُسن دنیا میں نہیں اور پٹھان کی ہمت کو سبھی مانتے ہیں جبکہ بنگال کی عورتوں کے بال اتنے لمبے اور گھنے ہوتے ہیں کہ گھٹنوں تک آ جاتے ہیں ، میرا ایک فوجی دوست جس سے انیس سو ا کہتر کے دوران چٹاگانگ چھاﺅنی میں ملاقات ہوئی اُس نے بتایا کہ ہمارا ایک جوان جو ایک بنگالن کی محبت میں ایسا پاگل ہوا ہے کہ کسی کی نہیں سنتا ہمارے سمجھانے پر ہمیں ہی برا بھلا کہتا ہے ، میرے پوچھنے پر کہ کون ہے وہ ذاتِ شریف جسے ایسے ماحول میں جبکہ یہاں ہر طرف دشمن ہی دشمن ہیں محبت کے بخار نے گھیر لیا ہے،میری بات کا جواب حوالدار سلیم نے ہلکی سی سرگوشی سے دیتے ہوئے کہا ، وہی اپنا ’ دلدار احمد بھٹی‘ پنڈی وال جو ابھی ایک سال پہلے سپاہی بھرتی ہو کر ہماری رجمنٹ میں آیا ہے ، پھر کچھ سوچتے ہوئے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ، شاید آپ بھی اُ س سے مل چکے ہیں ؟ میں نے ایسے ہی اندازے سے کہا کہیں یہ وہ صاحب تو نہیں جن کے چہرے پر چیچک کے داغ ہیں لمبے سے قد کے ؟ سلیم صاحب نے میری ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا، آپ نے ٹھیک پہچانا اُسی کی شامت آئی ہے اگر کرنل صاحب کو پتہ چل گیا تو فوراً چھٹی کرا دیں گے ۔

میری دلدار بھٹی سے کچھ دن پہلے سرسری سی ملاقاتیں ہوئی تھیں ،جو ایک لمبے چوڑے جسم کا مالک گورا چٹا نوجوان چیچک کے داغ ہونے کے باوجود چہرہ جوانی کے نور سے بھرپور کہ دیکھنے والے کو پتہ چلتا تھا کہ جوان نے جوانی کو بُرے کاموں میں برباد نہیں کیا اسکی شخصیت میں ایک کشش تھی جو سامنے والے کو اپنی طرف دیکھنے پر مجبور کردیتی ،میری اُس سے دو تین دفعہ گفتگو ہوئی جو مختصر تعارف اور سلام دعا تک ہی محدود رہی،میں نے جب پوچھا کہ وہ کہاں ہے نظر نہیں آ رہا، تو سلیم صاحب نے بتایا کہ اُس کی ڈیوتی یہاں سے تقریباً پندرہ میل دور مدنا گھاٹ ” ہولد ا ندی کے پل پر لگی ہے ، کبھی کبھی آف ڈیوٹی میں ملنے آ جاتا ہے ، وہیں پر کسی دیہا تی لڑکی پر فدا ہو گیا ہے جب بھی آتا ہے بس اُسی کا ذکر لے کر بیٹھ جاتا ہے کہتا ہے وہ بھی مجھ سے بہت پیار کرتی ہے میں اُس سے شادی کروں گا،( قارئین کو بتاتا چلوں کہ اُن دنوں میں بھی عمر کے ایسے ہی حصے میں تھا جس میں ایسی باتیں کانوں کو بھلی لگتی ہیں) میں نے پر اشتیاق لہجے میں پھر سوال کیا ، پر اُن دونوں کی ملاقات کیسے ہوئی ؟وہ توایک دوسرے کی زبان سے بھی نہیں سمجھتے ہوں گے ایک طرف پنجابی اور دوسری طرف بنگالی جو ہمیں پیار کرنا تو درکنار، دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے پھر اُسے کیسے پتہ چلا کہ وہ بھی اس سے پیار کرتی ہے ؟ میر ی بات کا تفصیلی جواب کچھ اس طرح ملا کہ جیسا کہ ٓاجکل احتیاطی اقدام کے تحت اہم پلوں کی حفاظت کے لیے دونوں طرف مورچے بنا کر فوج دن رات ان پلوں کی رکھوالی کرتی ہے اسی طرح مدنا گھاٹ جو اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ رنگا ماٹی اور چٹا گانگ کی چھاﺅنیوں کو ملانے والا یہ واحد راستہ ہے اس کے علاوہ ہاٹھ ہزاری ،ناظر ہاٹ اور کھاگڑا چھڑی جانے والے بھی یہی پل استعمال کرتے ہیں ہمارے جوان وہاں پر ڈیوٹی کرتے ہیں وہیں پر دلدار بھٹی نے اس گاﺅں کی لڑکی کو دیکھا جو ہر روز گھاٹ پر کچھ اور لڑکیوں کے ساتھ پانی بھرنے آتی ہے اور بھٹی مورچے سے باہر نکل کر اُسے دیکھتا رہتا ہے اسکے دوسرے ساتھیوں نے بتایا ہے کہ جب تک وہ واپس نہیں چلی جاتی یہ وہیں کھڑا اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہتا ہے، وہ بھی اسے مُڑ مُڑ کر دیکھتی جاتی ہے جس سے اسے شاید یہ غلط فہمی ہو گئی ہے کہ وہ بھی اسے چاہنے لگی ہے ابھی تک تو یہ گونگی محبت ہے اِسے زبان ملے گی یا نہیں یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، مگر ایک بات طے ہے کہ جس دن بڑے صاحب کو اس کا علم ہو گیا وہ دن اس کی ڈیوٹی کا وہاں آ خری دن ہو گا۔

مجھے اُس کے ٹھکانے کا علم تو ہو ہی گیا تھا لہذا میرے دل میںخود وہاں جا کر دیکھنے کی خواہش نے کروٹ لی ، لوکل بس میں جانے سے زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے کا سفر تھا جو راستے میں کئی جگہ رُک رُک کرجاتی تھی ،کرایہ بھی معمولی تھا اسلیے میں دوسرے ہی دن وہاں پہنچ گیا ، دلدار بھٹی مورچے میں مشین گن پر انگلیاں جمائے کسی گہری سوچ میں گُم تھا میرے مورچے کے سامنے کھڑے رہنے پر بھی اُس نے جب میری طرف کوئی توجہ نہ دی تو میں نے ہی گلا صاف کرتے ہوئے اسلام علیکم کہہ کر اُس کے خیالوں کا تسلسل توڑا تو اُس نے چونک کر میری طرف دیکھا اور و علیکم اسلام کہتے مورچے سے باہر آکر مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے حیران سا ہو کر کہنے لگا ، ارے آپ ؟ آپ یہاں کیسے ؟ میں نے ذرا مسکراتے ہوئے کہا، بس ایسے ہی ادھر سے گزر رہا تھا سوچا دیکھتا چلوں ہمارے بھائی مورچوں میں بیٹھے کیا کر رہے ہیں ! آئیے اندر بیٹھ کر باتیں ہوں گی، بھٹی میراہاتھ پکڑکر مورچے کے اندر لے گیا جہاں مجھے کچھ گُھٹن سی محسوس ہوئی تو میں نے کہا، بھٹی صاحب آپ لوگوں کو اس ماحول میں ڈیوٹی کرتے ہوئے تکلیف تو ہوتی ہو گی ؟ میری بات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے ایک طنزیہ ہنسی کے ساتھ کہا، فوجی کی تو زندگی ہی تکلیفوں میں گُزرتی ہے ، ٹریننگ کے دوران ایسی ایسی سختیاں جھیلی ہوتی ہیں جن کے سامنے یہ ڈیوٹی تو بڑی آسان معلوم ہوتی ہے، بھٹی صاحب بات تو مجھ سے کر رہے تھے مگر اُن کا دھیان کہیں اور تھاجس کا پتہ مجھے اُس وقت چلا جب اچانک بھٹی صاحب اُٹھ کر باہر جا کر کھڑے ہو گئے،میں نے دیکھا پانچ چھ لڑکیاں قطار بنائے بغلوں میں مٹکے دبا ئے قریبی گاﺅں سے ندی کی طرف آ رہی تھیں سب سے آگے والی لڑکی جس نے پیلے رنگ کی شلوار قمیض اور بالوں میں اُسی رنگ کا پھول سجا رکھا تھا بڑی ادا سے کمر لچکا کرچلتے چلتے مسکرا کر کبھی دلدار بھٹی کو دیکھ لیتی اور پھر فوراً ہی اپنی سہیلیوں کی طرف متوجہ ہو جاتی ، باقی لڑکیاں جنہوں نے زیادہ تر لال رنگ کے بلاﺅزوں پر رنگ برنگی ساڑھیاں پہن رکھی تھیں اور آگے والی سے اِس انداز سے ہنس ہنس کر باتیں کرتی ہوئی آ رہی تھیں جیسے وہ اُس کی رازدار ہوں، میں جان بوجھ کر مورچے سے باہر نہیں آیا کہ مجھے دیکھ کر اُن کی اشاروں کی باتیں رُک نہ جائیں جن سے میں اندازہ لگانا چاہتا تھا کہ آیا وہ ہمارے جوان کو بیوقوف تو نہیں بنا رہی ! میں نے دیکھا کہ سامنے والی لڑکی نے سہیلیوں سے آنکھ بچا کر ہاتھ ماتھے پر رکھتے ہوئے بھٹی کی طرف مسکرا کر دیکھا جس کے جواب میں انہوں نے بھی آہستہ سے سلوٹ کے انداز میں سلام کا جواب دیا،بھٹی صاحب کو اُس وقت کوئی ہوش نہیں تھا کہ اُن کا کوئی مہمان مورچے میں بیٹھا اُن کی یہ حرکتیں دیکھ رہا ہے، جب تک وہ لڑکیاں ندی کے کنارے پانی بھرتی رہیں بھٹی صاحب باہر کھڑے ٹکٹکی لگائے انہیں کی طرف دیکھتے رہے واپس جاتے وقت پیلے سوٹ والی لڑکی سب سے پیچھے چلنے لگی اور ساتھ ہی مسکرا کر الوداعی سلام کیا جس کاجواب بھی اُسی انداز سے دیا گیا اور یوں دو محبت کرنے والے پھر سے ملنے کے لیے جُدا ہوگئے۔

کچھ دیر کھڑے رہنے کے بعد بھٹی صاحب کو میرا خیال آیا تو شرماتے ہوئے اندر آکر کہنے لگے ”معاف کریں یارمینوںتیرا خیال ای نہیں رہیا“ (معاف کرنا دوست مجھے تئمہارا خیال ہی نہیں رہا)میں نے بھی تھوڑا ہنستے ہوئے اُسی انداز میں کہا” ہاں بھئی لگی والیاں نوں اپنے یار توں سِوا کسے دا خیال ای نہیں رہندا“ جس کا مطلب کچھ یوں تھا ( ہاں بھئی پیار کرنے والوں کو اپنے محبوب کے سوا کسی کا خیال ہی نہیں رہتا ) اب یہ بتاﺅ کہ آگے بھی کوئی بات بڑھی ہے یا ابھی تک سلام پر ہی اٹکے ہوئے ہو ؟ شاید اُسے میری یہ بات بُری لگی اسلیے اُس نے بڑے فلسفیانہ انداز میں کہنا شروع کیا ، بھائی صاحب پیار کے اظہار کے لیے کچھ کہنے سننے کی ضرورت نہیں ہوتی یہ سر چڑھ کر خود ہی بولتا ہے پیار کرنے والے خاموشی سے ایک دوسرے کی بات سمجھ لیتے ہیںجیسے خُدا کو چاہنے والوں کو اُس سے کچھ کہنا نہیں پڑتا وہ خود ہی اپنے پیار کرنے والے کی بات کو اُس کے دل میں آنے سے پہلے سمجھ لیتا ہے اسی طرح پیار کرنے والے بھی ایک دوسرے کے دل کے اندر جھانک کر دیکھ لیتے ہیں ، عشق مجازی ہی عشق حقیقی تک پہنچنے کی سیڑھی ہے ، جس پر چڑھنے والوں کو بہت سختیاں جھیلنی پڑتی ہیں کچھ لوگ گبھرا کر پاگلوں جیسی حرکتیں کرنے لگتے ہیں اور کچھ ثابت قدمی سے منزل کو پا لیتے ہیں جیسے بابے بُلہے شاہ نے یہ کہہ کر بات صاف کر دی کہ ” رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوای“ (رانجھا رانجھا کہتے کہتے میں خود ہی رانجھا بن گئی) ابھی بھٹی اور بھی کچھ کہنے والا تھا مگر میں نے اُسے یہ کہہ کر روک دیا کہ بھائی مجھے تمہاری سچے عاشقوں والی باتیں سمجھ میں نہیں آتیں یہ بتاﺅ کہ تمہیں اس پری جمال کا نام بھی معلوم ہوا یا ابھی تک بے نام سے عشق کئے جارہے ہو ؟ بھٹی نے بڑے پیار سے کہا ”مہر جان“ یہی نام ہے اُس کا ، چار بھائیوں کی ایک ہی بہن ہے سب سے چھوٹی دو بڑے بھائی چٹاگانگ میں کاروبار کرتے ہیں اور بیوی بچوں کے ساتھ وہیں سیٹل ہیں باقی دو جو غیر شادی شدہ ہیں کچھ دنوں سے لاپتہ ہیں شاید مکتی باہنی میں شامل ہو گئے ہیں باپ ماں بڑھاپے کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں ، یہ سب کچھ اُس کے منہ سے سن کر مجھے اتنی حیرت ہوئی کہ میں کچھ دیر تو سنبھل نہیں پایا کہ اتنی ساری معلومات اسے کہاں سے مل گئیں جبکہ یہ بنگالی زبان کا ایک حرف بھی نہیں جانتا، مجھے خاموش دیکھ کر بھٹی پھر غرانے والے انداز میں گویا ہوا، اتنا ہی نہیں ، مہر جان کو بھی میرے بارے میں سب پتہ ہے ، میں کون ہوں کہاں سے آیا ہوں اور اُس کی خاطر کہاں تک جا سکتا ہوں ۔ میں نے اچانک ایک اور سوال کر ڈالا، کہاں تک جا سکتے ہو ؟ اُس نے غُصے سے ناک پھولاتے ہوئے کہا، یہ جو سلیم صاحب مجھے کرنل صاحب کا نام لے کر خوفزدہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں نا ، میں کسی سے نہیں ڈرتا نوکری کیا میں اپنی محبت کو پانے کے لیے دنیا کی بڑی سے بڑی چیز کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوں۔اُس کے جذبے کو دیکھ کر مجھے ہیر رنجھا لیلی مجنوں یاد آنے لگے کہ سچے عاشقوں کی لسٹ میں ایک اور نام شامل ہونے والا ہے، میں نے اُس سے اجازت چاہی جو اُس نے دوبارہ آنے کے وعدے پر دیتے ہوئے کہا ، ضرور آنا ، اور دیکھنا میں اپنی مہر جان کے لیے دنیا والوں سے کیسے ٹکر لیتا ہوں سب سے پہلے تو اِس کے دو بھائی جو انڈیا سے ٹریننگ اور اسلحہ لے کر پاک فوج سے لڑنے آرہے ہیں ، مہر جان بھی اُن سے بہت ڈرتی ہے مگر اُس نے میرا ہی ساتھ دینے کا وعدہ کیا ہے، ان کے علاوہ گاﺅں والے بھی مجھے بڑی نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ان سے بھی دو دو ہاتھ کرنے پڑیں گے، آپ کے آنے سے مجھ میں ہمت بڑھے گی ضرور آنا ہاں !!

اُس سے رخصت ہو کر بس میں بیٹھے بیٹھے میں اُس نوجوان سکے دیوانے پن کا وزن کر رہا تھا کہ اتنی ساری مخالفتوں پر پورا اُتر سکے گا یا ان کے نیچے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دب کر رہ جائے گا ؟

(جاری ہے)
H.A.Latif
About the Author: H.A.Latif Read More Articles by H.A.Latif: 58 Articles with 77198 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.