مِہر جان - تیسری قسط

ایک سپاہی، جو زلف ِبنگال کا اسیر ہو گیا !

دوسرے دن صبح ہی یہ خبر سُن کر دل دہل گیا کہ مدنا گھاٹ برِج پر مکتی باہنی نے رات ایک بجے کے قریب دستی بموں سے حملہ کر کے مشرقی مورچہ تباہ کر دیا ہے جس میں دلدار بھٹی کوبھی زخمی حالت میں جی۔ایچ۔کیو میں لایا گیا ہے اُس کی حالت بہت خراب ہے چہرے اور سینے پر زخم آئے ہیں ،یہ اطلاع فون پر مجھے بھٹی کے دوست حوالدار سلیم نے دیتے ہوئے کہا، لگتا ہے یہ سب اُس لڑکی کے بھائیوں نے کیا ہے جو مکتی باہنی بن کر آئے ہیں ، یہ سُن کر مجھ سے رہا نہ گیا اور میں اُسے دیکھنے جب GHQ پہنچا تو اُس کا آپریشن چل رہا تھا وہاں اُس کے دوسرے دو ساتھی جوحملے کے وقت آف ڈیوٹی تھے انہوں نے بتایا کہ ہم لوگ کچھ دور اپنے ٹینٹ میں سو رہے تھے ، دھماکوں کی آواز سے اُٹھ کراپنی بندوقیں لے کر مورچے کی طرف دوڑے مگر ہمارے وہاں پہنچنے سے پہلے دشمن اپنی سپیڈ بوٹ میں فرار ہو چکے تھے جس میں وہ دریا کے راستے کسی انجانے مقام سے آئے تھے، ہمارے پاس ایسا کوئی انتظام نہیں تھا کہ ہم اُن کا پیچھا کرتے ہم نے وائرلیس پر نیوی کو مطلع کر دیا ہے جو اب گن بوٹ کے ساتھ وہاں پٹرولنگ کر تی رہے گی۔

دو گھنٹے کے انتظار کے بعد بھٹی کو اسٹریچر پر باہر لایا گیا تو بے ہوشی کی دوا کا اثر ابھی باقی تھا چہرہ اور سینہ پٹیوں سے لِپٹا ہوا تھا، ڈاکٹرنے بتایا کہ ابھی اس کی حالت خطرے سے باہر نہیں ہوئی اگر آپ لوگ اِس سے ملنے سے پرہیز کریں تو مریض کے حق میں بہتر ہو گا،اُن کی بات سُن کر میں واپس تو آ گیا مگر دل کو اس بات نے بے چین کیے رکھا کہ بھٹی کا چہرہ تو پہلے ہی چیچک نے داغدار کر رکھا ہے اب اِن زخموں سے اُس کا کیا حال ہو گا ؟ پھر دل سے ایک آواز آئی کہ اللہ اُس کو زندگی تندرستی عطا کرے چہرے کا کیا ہے اُس کا کردار تو بلند ہے جو بہت سارے خوبصورت چہرے والوں کو بھی نصیب نہیں ہوتا ، میں یہ سوچ کر مدنا گھاٹ کی طرف روانہ ہوا کہ دیکھوں وہاں کا کیا حال ہے وہاں جا کر دیکھا تو اُس مورچے کی جگہ ایک بڑا سا گڈھا نظر آیا جس کے آس پاس اینٹیں اور ریت کی بوریاں بکھری پڑی تھیں کچھ فوجی جوان اُن کو اکٹھا کر کے پھر سے مورچے کی شکل دیینے میں مصروف تھے،میں نے جب قریب جا کر دیکھا تو دیواروں پر خون کے دھبے بھٹی کے زخموں کی تفصیل بتا رہے تھے، بھٹی کے ایک ساتھی نے بتایا کہ حملہ آوروں نے گھات لگا کر حملہ کیا تھا جس سے بھٹی کو گن چلانے کا موقع ہی نہیں ملا ورنہ اُن میں سے کوئی بھی بچ کر نہیں جاتا۔

عصر کی نماز میں نے گاﺅں کی مسجد میں ادا کرنے کے بعد مولوی کمال الدین کو دیکھا جو اس واقعہ سے بہت دلگیر لگ رہے تھے میں بھی اُن کے پاس جا کر بیٹھ گیا،تھوڑی دیر بعد جب سب نمازی جا چکے تو وہ میری طرف متوجہ ہو ئے،میرے کچھ پوچھنے سے پہلے انہوں نے خود ہی سرگوشی کے انداز میں کہنا شروع کیا، رات سے ہی مہر جان بے ہوش ہے، مجھے دو دفعہ اُس کے باپ نے بلوا کر دم درود پڑھوایا ،ڈاکٹر بھی آکر دیکھ گیا ہے مگر اُسے ہوش نہیں آ رہا ڈاکٹر نے بے ہوشی کی وجہ گہرا صدمہ بتائی ہے ، آپ بھی دعا کیجئے کہ اُس کو ہوش آ جائے ۔

اور بھٹی صاحب کا کیا حال ہے یہاں تو سب کہہ رہے ہیں کہ خدانخوستہ وہ اب اس دنیا میں ۔۔۔؟ میں نے اُن کی بات کاٹتے ہوئے کہا،نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں میں ہسپتال سے ہو کر آ رہا ہوں،اُن کے چہرے اور سینے پر زخم آئے ہیں جو انشااللہ کچھ ہی دنوں میں ٹھیک ہو جائیں گے ، اب اگر آپ کو موقع ملے یا کسی بھی طرح سے مہر جان تک یہ خبر پہنچ جائے تو اُس کے دل کو بھی کچھ سکون مل جائے گا، تھوڑی دیر اُن کے پاس بیٹھنے کے بعد جب میں واپس آ رہا تھا تو قریبی ہوٹل میں کام کرنے والے لڑکے نے میرا راستہ روک کر بڑی معصومیت سے اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو میں پوچھا، شاب بھٹی سر کیشا ہے(صاحب بھٹی سر کیسا ہے) مجھے اُس کی بھٹی سے اتنی محبت دیکھ کر احساس ہوا کہ اچھا انسان جہاں بھی رہے ارگرد کے ماحول کو اپنا بنا لیتا ہے، میں نے اُسے تسلی دیتے ہوئے کہا، تھوڑا زخمی ہے انشااللہ جلدی اچھا ہو کر یہاں آئے گا۔

واپس آ کر میں نے فون کر کے بھٹی کے بارے خبر لی تو پتہ چلا کہ اُس کی حالت ابھی خطرے سے باہر نہیں ،اُسے ACU میں رکھا گیا ہے اور بار بار کچھ بولنے کی کوشش میں اُس کے چہرے کے زخموں سے خون رسنے لگتا ہے اِس لیے اُسے ایسی دوا دے کر رکھا ہے جس سے وہ حرکت نہ کر سکے،میں نے اُس کی نگرانی پر معمور جوان کو اپنا نمبر دیتے ہوئے کہا کہ جس وقت اُس کی حالت بہتر اور ملنے کے قابل ہو جائے مجھے اس نمبر پر اطلاع کر دینا میں اُس سے ملنے آ جاﺅں گا۔

دو روز بعد میں پھر مولوی کمال ا لدین سے ملا تو انہوں نے بتایا کہ میں نے اپنی بیوی کے ذریعے مہر جان کو بھٹی کے بچ جانے کی خبر پہنچا دی تھی،اُسی نے مجھے آکر بتایا کہ اب اُس کی حالت کچھ بہتر ہے مگر کھانا پینا چھوڑ رکھا ہے اُس کی ماں زبردستی کر کے کچھ نہ کچھ کھلا دیتی ہے ، بس پھٹی پھٹی آنکھوں سے ادھر اُدھر پاگلوں کی طرح دیکھتی رہتی ہے کسی سے بات نہیں کرتی آج پھر مجھے اُس کے باپ نے مغرب کے بعد بلایا ہے میں جا کر اُسے اور بھی تسلی دوں گا ، آپ بھٹی کا حال بتائیں اب کیسا ہے وہ ؟ میں نے کہا کچھ زیادہ اچھا نہیں ہے نماز کے بعد اُن سے دعا کی درخواست کر کے میں واپس آ یا اور بھٹی کی خیریت معلوم کرنے کے لیے فون کیا تو پتہ چلا کہ وہ ابھی سو رہا ہے آپ کل فون کریں ،یہ سن کر دل کو ایک تسلی سی ہو گئی کہ نیند بھی انسان کی تکلیف میں کمی کر دیتی ہے -

انسانی ہمدردی ایک ایسا جذبہ ہے جو ہر کسی میں نہیں ہوتا اِس کی مثال یوں ہے کہ کہیں روڈ ایکسیڈنٹ ہو جائے تو دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ زخمیوں کو دیکھتے ہوئے خاموشی سے گزر جاتے ہیں جبکہ کچھ ایسے سر پھرے ہوتے ہیں کہ اپنے ہزار کام چھوڑ چھاڑ کر زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے کے لیے پاگلوں کی طرح ادھر اُدھر دوڑتے نظر آتے ہیں کہ کسی طریقے سے اِن کی جان بچ جائے،اِس میں کسی کا اپنا کوئی کمال نہیں ہوتا یہ بھی اللہ ہی منتخب کرتا ہے کہ کس کے ذریعے کس کی مدد کرنی ہے اُسی کو وسیلہ بنا کر اپنی ذات کو پردے میں ہی رہنے دیتا ہے ، لوگ یہی کہتے ہیں فلاں نے فلاں کی مدد کی مگر حقیقت کی طرف کم لوگوں کی نگاہ جاتی ہے اور منتخب بھی وہی لوگ ہوتے ہیں جو اُس لائق ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جس قوم کے جیسے اعمال ہو تے ہیں، میں ویسے ہی حکمران اُن پر مسلط کر دیتا ہوں،ہم میں سے کسی ایک کا صحیح سمت میں اٹھا ہو ایک قدم پوری قوم کو منزل کی طرف گامزن کر سکتا ہے، اچھا اکام اگر کوئی بُرا آدمی بھی کرے تو اُس کی تعریف کرنے سے اپنے اندر بھی اچھا کام کرنے کی ایک اُمنگ پیدا ہو جا تی ہے ، جس کی مثال میں اپنی فلموں کے حوالے سے دینا چاہوں گا کہ ہم نے اپنے ہیرو کے ہاتھ میں کلاشنکوف اور گنڈاسا پکڑا کرفلموں کے ساتھ ساتھ اپنے معاشرے کا بھی بیڑہ غرق کر لیا جبکہ ہمارے پڑوسی ملک نے ہیرو کو باڈ ی بلڈر بنا کر بچے بچے کے دل میں ویسا ہی بننے کا شوق پیدا کر دیا ۔ ( کہانی روک کر اپنی بات کہنے پر قارئین سے معذرت خواہ ہوں،کیا کروں دل میں جو آتا ہے لکھ دیتا ہوں)-

تیسرے روز بھٹی ملاقات کرنے کے قابل ہوا تو میں اُس سے ملنے گیا، مجھے دیکھتے ہی اُس نے بستر سے اُٹھنے کی کوشش کی جسے میں نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیااُس کے سر اور سینے پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں گالوں اور ہونٹوں پر پلاسٹر تھا آنکھیں قدرے سوجی ہوئی مگر کھلی ہوئی تھیں کرسی لے کر میں اُس کے پاس بیٹھ گیا، اُس کی نظریں جن میں بہت سارے سوال پنہاں تھے میری طرف اُٹھی ہوئی اپنے سوالوں کا جواب میری آنکھوں میں تلاش کر رہی تھیں،میں نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے تسلی دیتے ہوئے آہستہ سے کہا سب ٹھیک ہے کوئی پریشانی والی بات نہیں بس تم ٹھیک ہوجاﺅ انشااللہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، ہونٹوں کے زخموں کی وجہ سے ڈاکٹروں نے اُسے بات کرنے سے منع کر رکھا تھا پھر بھی اُس نے جب آہستہ سے مہر جان کا نام لیا تو میں نے بڑے پیار سے اُس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر اُس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا ، وہ بالکل ٹھیک ہے بس تمہارا ہی ا نتظار کر رہی ہے کہ کب تم آ کر اُس کی محبت کا جواب محبت سے دیتے ہو ؟ اُس نے ہاتھ کے اشارے اور آنکھوں کو اوپر ا ُٹھا کر آہستہ سے کہا، کیسے ؟ میں نے مہر جان کا کہا ہو ا بنگلہ زبان کا وہ جملہ جو بھٹی نے مجھے سنایا تھا اُسی کی نقل اتارتے ہوئے آہستہ سے دہرا دیا ، ”امی تُماکے بھالو باشی“ یہ سن کر اُس کا چہرہ کھل اُٹھا جسے دیکھ کر مجھے جو خوشی ملی اُس کا اندازہ قارئین خود لگا سکتے ہیں۔

(جاری ہے)
 
H.A.Latif
About the Author: H.A.Latif Read More Articles by H.A.Latif: 58 Articles with 77176 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.