این ایف سی ایوارڈ میں آزاد کشمیر کا حصہ

اس خبر پر کہ فیڈرل حکومت این ایف سی ایوارڈ میں آزادکشمیر کو بھی انہی بنیادوں پر حصہ دے رہی ہے جو اصول پاکستان کے دیگر صوبوں کیلئے مقرر ہیں ۔ آزادکشمیر کو یہ حصہ ملے گا بھی یا نہیں لیکن کچھ دوستوں کو اس میں ’تقسیم کشمیر‘ کی بو آنا شروع ہو گئی ہے اور انہوں نے ’’جذبہء حب الوطنی‘‘ کے تحت اس کے خلاف بھی آواز اٹھانا شروع کر دی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ ضرب المثل کہ ’’ٹرک کی بتی کے پیچھے لگنا‘‘ جس نے بھی بنائی تھی وہ شاید کشمیریوں کی نفسیات دیکھ کر ہی بنائی گئی تھی ۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کیلئے جو وسائل جمع ہوتے ہیں اور پاکستان کی معاشی ترقی کیلئے آزادکشمیر اور کشمیریوں کا کوئی حصہ ہے یا نہیں ؟ اور اگر حصہ ہے تو کیا مسئلہ کشمیر کے حتمی حل تک اس جائز حصہ کی وصولی ’مسئلہ کشمیرکے خلاف‘ سازش تصور ہو گی ؟

پہلے ہم اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں کہ آزادکشمیر اور کشمیری تارکین وطن کا پاکستان کی معاشی ترقی میں کیا حصہ ہے ؟ جہاں تک پاکستانی تارکین وطن کا تعلق ہے پاکستان کے زرمبادلہ کا بیس فیصد حصہ بیرون ملک مقیم کشمیری ارسال کرتے ہیں ۔ زرمبادلہ وہ ’سونا‘ ہے جس کے ذخائر نہ ہوں تو بین الاقوامی تجارتی خسارہ بڑھتا ہے ۔قرضے ڈالروں میں ادا نہ ہوں تو یہ خسارہ جو ملکی معیشت کا خون چوس لیتا ہے اور ملک دیوالیہ ہو جاتا ہے ۔ کیا آزادکشمیر سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا بیس فیصد حصہ آزادکشمیر کو اس کا حق دار نہیں بناتا کہ آزادکشمیر کو این ایف سی ایوارڈ میں حصہ دار بنایا جائے ۔

معاشی ترقی کے دوسرے سب سے بڑے ذریعہ جوپانی اور بجلی کی صورت میں ہے اس کا بھی جائزہ لیتے ہیں ۔ منگلا پاور سٹیشن سے پیدا ہونیوالی بجلی کی سالانہ پیداوار 80ارب روپے کے لگ بھگ ہے اور اس ڈیم سے جوپانی پاکستان کی زمینوں کو سیراب کرتا ہے آج سے دس سال قبل کے تخمینہ کے مطابق 450ارب سالانہ اس کا ’’معاشی فائدہ‘‘ ہے۔ منگلا ڈیم کی سالانہ آمدن کو اگر اس کی تاریخ تعمیر سے اب تک جتنے سال گزرے ہیں ان سے ضرب دی جائے تو آپ خود معلوم کریں کہ کتنے کھرب بنتے ہیں؟

اب نیلم جہلم پاور پراجیکٹ کے سالانہ 80کھرب اور اس پر شاید ابھی نیٹ ہائیڈل پرافٹ کیلئے معاہدہ بھی نہیں ہوا ہے بلکہ اس کی تعمیر کیلئے بھی آزادکشمیر حکومت سے معاہدہ ہونا باقی ہے ۔ یہ کیا’’بوالعجبی‘‘ ہے ؟ اب چینی کمپنیوں کو جو پراجیکٹس ، کوہالہ، ہولاڑ، آزاد پتن وغیرہ کی سالانہ پیداوار کا حساب لگانا شاید آزادکشمیر کے ’’حساب دانوں‘‘ کے بس میں نہ ہو یا ان کا ’’جذبہء حب الوطنی‘‘ بھی آڑے آ سکتا ہے ۔

مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ یہ ہمارا مائنڈ سیٹ بن گیا ہے کہ جو کوئی قومی وسائل میں اپنا حق مانگے ہمیں فوراً اس کے پیچھے ’یہود وہنود‘ کی سازش نظر آ جاتی ہے وہ غیر ملکی ایجنٹ بن جاتا ہے اور حتمی طور پر ’’غدار‘‘ کا لقب پاتا ہے ۔ یہ کہاں کی حب الوطنی ہے کہ ہم حکومت پاکستان سے اپنی ریاست اور لوگوں کا حق حاصل نہ کریں اور اسے ’حب الوطنی‘ کہا جائے اور کہا جائے کہ پاکستان کے قومی وسائل میں آزادکشمیر کو جو حصہ دیا جا رہا ہے اس سے ’تقسیم کشمیر‘ اور آزادکشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی سازش ہے ۔ کیا ہمار ا اپنا جائز قانونی حق لینے سے مسئلہ کشمیر ختم ہو جائے گا اور ہمیں مسئلہ کشمیر کے حتمی حل تک اپنا معاشی حق نہیں مانگنا چاہئے ۔ اﷲ تعالیٰ کسی قوم کی بداعمالیوں کے سبب اگر انہیں سزا دیتا ہے تو ان کا ’شعور‘ چھین لیتا ہے اور شاید ہم یہی سزا بھگت رہے جو صرف قومی آزادی ہی نہیں بلکہ شعوری آزادی سے بھی محروم ہیں۔ یہ بات ہمیں جس دن سمجھ آ گئی کہ ’’جذبہء حب الوطنی لوگوں کو ان کے حقوق دے کر پیدا کیا جاتا ہے ان کو بندوق سے ڈرا کر نہیں ـ‘‘ وہ دن ایک ترقی یافتہ اور پرامن ملک کیلئے نقطۂ آغاز ہو گا۔

Akram Sohail
About the Author: Akram Sohail Read More Articles by Akram Sohail: 15 Articles with 11757 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.