عدالتِ عظمیٰ : کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ

سپریم کورٹ نے9جون 2020 کو ایک فیصلہ سنایا کہ جس کو پڑھ کر پہلے تو ہنسی آئی اور پھر رونا آیا۔ عدالت عظمیٰ نے یہ حکم دیا کہ تمام تارکین وطن مزدوروں میں سے اپنے آبائی مقامات کا سفر کرنے کے خواہش مند افراد کو 15 دن کے اندر واپس بھیج دیا جائے۔ ہنسی اس لیے آئی کہ جن مزدوروں کو اپنے آبائی وطن جانا تھا وہ تو جیسے تیسے ہزاروں میل کا پیدل سفر کرکے اپنے وطن جاچکے ۔ان میں سے کئی حادثات کا شکار ہوکر اس دنیا سے سدھار گئے لیکن اب جبکہ مختلف صوبوں نے مثلاً مہاراشٹر نے یہ اعلان کردیا کہ ان کے پاس ایک بھی ایسا مزدور نہیں ہے جو اپنے گھر جانا چاہتا ہے سپریم کورٹ نے یہ فرمان صادر کیا ۔ عدالت کے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’مطالبہ کے 24 گھنٹے کے اندر ریلوے کے ذریعہ ان کے لیے شرمک خصوصی ٹرینوں کا انتظام کیا جائے‘‘۔ یہ ایک ایسا حکم ہے کہ جس پر عمل ناممکن ہے اس لیے ٹرین میں کم ازکم ایک ہزار لوگ سفر کرتے ہیں اس لیے کسی کے مطالبے پر ایک دن کے اند ر ٹرین کا اہتمام ممکن نہیں ہے۔ اس فیصلے پررونا اس لیے آیا کہ اگرڈھائی ماہ قبل ہماری عدالت خوابِ غفلت سے بیدار ہوتی توان کروڈوں لوگوں کو بے شمار صعوبت سے بچایا جاسکتا تھا لیکن افسوس کہ وہ حکومت کی ہر کذب بیانی پر آنکھ موند کر یقین کرتی چلی گئی ۔

جسٹس اشوک بھوشن کی سربراہی میںجسٹس ایس کے کول اور جسٹس ایم آر شاہ کی بنچ نے کہا کہ تمام تارکین وطن مزدور وں کی شناخت کرکے انھیں وطن واپس بھیجنے کے لیے اندراج کرنا ہوگا۔عدالت نےریاستی اور مرکزی حکومت سے تارکین وطن مزدوروں کو روزگارفراہم کرنے والے منصوبوں کو پیش کرنے کی تلقین کی ۔ ہماری عدالت نہ جانے کس خیالی دنیا میں رہتی ہے ورنہ وہ ریاستوں کو ایک ہیلپ ڈیسک قائم کرنے کا مشورہ نہیں دیتی ۔ اول تو ان تارکین وطن مزدوروں میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہوگی جو انٹر نیٹ تک رسائی نہیں رکھتی اور اوپر سے سرکاری عملہ ویب سائت پر معلومات ٹھیک سے فراہم نہیں کرے گا ۔ اس طرح وہ بیچارے روزگار کے مواقع سے فائدہ نہیں اٹھاسکیں گے ۔ عدالت عظمیٰ نے گھر واپس آنے والے مزدوروں کو ملازمت تلاش کرنے میں مدد کے لیے مشاورتی مراکز قائم کرنے کا حکم دیا۔ اس نے مزید کہا کہ اگر وہ ملازمت کے لیے واپس سفر کرنا چاہتے ہیں تو ریاستوں کو اس عمل کو آسان بنانا چاہیے۔ یہ مشورہ ان لوگوں کو دیا جارہا ہے جو مزدوروں کو انسان نہیں بوجھ سمجھتے ہیں۔
عدالت نے بلواسطہ یہ تسلیم کرلیا کہ ان مجبور لوگوں پر مختلف ریاستوں میں مقدمات قائم ہیں ورنہ اسے یہ کہنے ضرورت پیش نہیں آتی کہ ان مزدوروں کے خلاف این ڈی ایم اے کے تحت لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے پر درج مقدمات واپس لینے پر غور کیاجائے۔عدالت کو غور کرنے کا مشورہ دینے کے بجائے واپس لینے کا حکم دے کرمقدمہ قائم کرنے والوں کی سرزنش کرنی چاہیے تھی ۔اس سے قبل 28مئی 2020کوانتظار ِ بسیار کے بعد ہندوستان کی عدالتِ عظمیٰ کمبھ کرن کی نیند سے جاگی تھی اورتارکین وطن مزدوروں کی پریشانیوں کا از خود نوٹس لیتے ہوئے ریاستوں کو انھیں مفت کھانا، رہائش اور سفر کی سہولت فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ جو مزدور ٹرین اور بس سے بھیجے جا رہے ہیں ان سے کرایہ نہیں لیا جانا چاہیے۔ بس میں سفر کرنے والے مزدوروں کو حکومتیں کھانا دیں اور ریل میں سفر کر نے والوں ریلوے کے ذریعہ کھانا مہیا کیا جائے۔وہ تو اچھا ہوا کہ تارکین وطن مزدوروں کے کیس کی سماعت کرنے والی بنچ میں اس بار چیف جسٹس اے ایس بوبڑے موجود نہیں تھے اگر وہ ہوتے تو بعید نہیں کہ اس بار بھی مزدوروں کے ہاتھ محرومی ہی آتی اس لیے کہ پہلے کی ہر بنچ میں موصوف براجمان تھے۔ عدالت کایہ حکم سن کر سڑکوں اور پٹریوں پر دم توڑنے والے محنت کشوں کے اہل خانہ اور راستوں میں جنم لینے بچوں کی والدہ اور گھروالے غالب کے الفاظ میں یوں فریاد کناں ہیں ؎
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا

اس شعر کا دوسرامصرع سپریم کورٹ پر صادق نہیں آتا کیونکہ وہ ہنوز پشیمان نہیں ہے ۔اس کوتو چاہیے تھا کہ وہ ان کروڈوں مزدوروں سے معافی مانگتی جن کو عدالیہ کی بے حسی نے شدید مصائب سے دوچار کیا ۔ سپریم کورٹ نے تو خیر کئی سینیر وکلاء کی گریہ وزاری کے بعد یہ حکم دیا مگر گجرات ہائی کورٹ نے تین ہفتہ قبل احمد آباد میں ہفتے بھر کے لیے مکمل طور پر لاک ڈاؤن کے باعث ہونے والے مصائب پر ریاستی حکومت کو اس سے بھی واضح ہدایت کردی تھی۔ احمد آباد کے اندرکورونا وائرس کے معاملات میں زبردست اضافہ کے پیش نظر 7 مئی کو ریاستی حکومت نے دارالحکومت میں ایک ہفتہ کے لیے مکمل لاک ڈاؤن نافذ کردیا تھا۔ دودھ اور دوائیوں کی دکانوں کو چھوڑ کر سب کچھ 14 مئی تک بند رکھنے کا حکم دیا گیا تھا ایسے میں عوام کی تکلیف کا خیال کرتے ہوئےعدالت عالیہ نے ازخود نوٹس لےکرشہر کے مضافاتو ریاست کے دوسرے حصوں میں فاقہ کش تارکین وطن مزدوروں اور شہر کے دیگر لوگوں میں کھانے کے پیکٹ تقسیم کرنے کی تاکید کی ۔

جسٹس جے بی پردی والا اور جے وورا کی ڈویژن بنچ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ’’مکمل لاک ڈاؤن کا نتیجہ میں بڑے پیمانے پر لوگ بھوکے ہیں۔ غیر سرکاری تنظیموں، دیگر رفاہی اداروں اور رضاکاروں سے غریب عوام کو جو بھی تھوڑی بہت مدد ملتی تھی، وہ بھی رک چکی ہے۔ ایلس برج کے قریب فٹ پاتھ پر بسنے والے دو سو سے زیادہ افراد کے پاس پچھلے چار دنوں سے کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ جورضاکار ان کے پاس کھانا لاتے تھے، انہیں بھی مکمل لاک ڈاؤن کی وجہ سے مشکل ہو رہی ہے۔ اس لیے ریاست اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کے شہری بھوکے نہ رہیں۔ انتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے جج صاحبان نے کہااگرچہ ریاستی حکومت اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے پوری کوشش کر رہی ہے لیکن صورت حال قابو سے باہر ہو گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ریاستی حکومت کے مختلف محکموں کے مابین مناسب تال میل کا فقدان ہےاور ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں کچھ غلط ہورہا ہے۔ بدقسمتی سے اس طرح کی دردمندی کا مظاہرہ عدالت عظمیٰ نے ہوائی جہاز سے ہندوستان آنے والے تارکین وطن امیر کبیر مسافروں کے تئیں تو کیا مگر سڑکوں پر چلنے والوں کے لیے نہیں کیا ۔

وندے بھارت کے تحت تارکین وطن ہندوستانیوں کو واپس لانے والی ائیر انڈیا فلائیٹ کے پائلٹ دیوین کنانی نے بامبے ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کرکےشکایت کی تھی کہ 23مارچ کے سرکاری احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئےبین الاقوامی پروازوں میں درمیانی نشست خالی نہیں رکھی جارہی ہے ۔ اس کے جواب میں ائیر انڈیا نے کہا کہ مذکورہ سرکلر گھریلو اڑانوں کے لیے اور اسے بھی ۲۲ مئی کو بدل دیا گیا ہے۔ اس مقدمہ کے خلاف ائیر انڈیا اور مرکزی حکومت نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا تو مہاجر مزدوروں کے مقدمات پر ٹال مٹول کرنے والی عدالت نے فوراً اس کی سماعت شروع کردی اورخلاف توقع حکومت کی تائید کرنے کے بجائے سرزنش کرنے لگی۔ سرکار کی جانب سے سالیسیٹر جنرل نے یہ کہنے پر کہ جہاز کم ہیں اور اگر ایک نشست خالی چھوڑ دی جائے گی تو منصوبہ بگڑ جائے گا سپرم کورٹ نے کہا دونوں گھریلو اور بیرونی دونوں قسم کی فلائیٹ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جہاز کے باہر فاصلہ رکھنا اور اندر شانہ بشانہ بیٹھنا غیر مناسب ہے ۔ دو طرح کے ضابطے نہیں چلیں گےنیزحکومت کو ائیرلائن کے بجائے مسافروں کی صحت کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس کے بعد ۶ مئی تک استثنائی اجازت دے کر بامبے ہائی کا حکم ماننے کا حکم دیا گیا ۔عدالت عظمی کا سب کے لیے یکساں ضابطوں پر زور دینا اور مسافروں کی صحت کا خیال رکھنا قابلِ ستائش اقدامات تھے لیکن افسوس کہ زمین پر چلنے والے مزدوروں اور ہوا میں اڑنے والی پروازوں کے تئیں سپریم کورٹ کا اپنا رویہ تفریق و امتیاز پر مبنی تھا ۔ امیر کبیر مسافروں کی صحت کا جس قدر خیال رکھا گیا ویسی فکر غریب مزدوروں کی نہیں کی گئی ۔ جس معاشرے میں عدالت کا ترازو ایک جانب جھک جائے تو وہاں انصاف کی توقع کس سے کی جائے ؟ مزدوروں کے معاملے عدالت کے رویہ پرگوہر ہوشیارپوری کے یہ اشعار (ترمیم کی معذرت کے ساتھ) صادق آتے ہیں ؎
اس کا سب پاکھنڈ کھلا، جس کے آگے پیش ہوئے
عدل کا چشمہ سوکھ گیا ،عدل کے پیاسے پیش ہوئے
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1240331 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.