ہائے ری جمہوریت

”جمہوریت بہترین انتقام ہے“۔”بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے“۔”حقیقی جمہوریت آزمائش ہے“۔”جمہوریت یہ نہیں کہ میں سب سے بہتر ہوں، بلکہ یہ ہے کہ تم سب بھی اسی قدر بہتر ہو ،جتنا کہ میں“۔”لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کا نام جمہوریت ہے “۔” باخبر،باعمل اور باعلم لوگ جمہوریت کے سوا کسی طرز حکومت کو نہیں مانتے“۔ اور” جمہوریت ہی وہ واحد عمل ہے ،جس کے ذریعے زمانے بھر کا معتوب شخص بھی مسند اقتدار پر فائز ہو سکتا ہے“۔یہ وہ الفاظ ہیں جو ہمارے ہاں اکثر سننے میں آتے ہیں، ہر شخص کے پاس اپنی علیحدہ جمہوریت کی تشریح ہے،موجودہ حکومت کے خلاف جو بھی بات کی جائے چاہے حق ،سچ ہی کیوں نا ہو وہ جمہوریت کے منافی تصور کی جاتی ہے۔بہرحال جتنے منہ اتنی باتیں،جتنی ضرورتیں اتنی دلیلیں،یہ جتنی بھی باتیں ہیں صرف الفاظ کا گھورکھ دہندہ ہے اس کے سوا کچھ بھی نہیں ۔

علامہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا،آیا کہ وہ کیسا ملک چاہتے تھے؟ان کے نزدیک اس علیحدہ ملک میں کیسا نظام تھا؟ان کے کلام سے بات بڑی واضح ہو جاتی ہے کہ وہ جمہوریت سے کتنے خائف تھے؟ان کے چند اشعار جن میں انہوں نے جمہوریت کی پرزور مذمت کی۔ایک جگہ ارشاد فرماتے ہیں۔
یہاں مرض کا سبب ہے غلامی تقلید
وہاں مرض کا سبب ہے نظام جمہوری

جمہوریت میں سب سے بڑی خامی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں،تولا نہیں کرتے

اس شعر کی عملی تفسیر ہمارے ملک میں خوب دیکھی جاسکتی ہے،کہ ایک آدمی اگر چل نہیں سکتا،دیکھ سکتا ہے نہ بول سکتا ہے،سوچ سکتا ہے نہ سمجھ سکتا ہے اس کو بھی دو آدمی سہارا دے کر اس سے ووٹ پول کراتے ہیں،پاکستان میں دین کو سیاست سے جدا کر دیا گیا ہے،اس ہی نظام کی وجہ سے پاکستان ترقی نہیں کر پا رہا،اس بارے میں علامہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ
جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

جمہوریت،سیکولر ازم یعنی بے دینی کا دعویٰ کرتی ہے،جبکہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اس میں سیکولر ازم کی کوئی جگہ نہیں ،جمہوریت میں ایک بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں ہر شخص کو فیصلہ (ووٹ) دینے کا حق حاصل ہوتا ہے،جبکہ ہر شخص صاحب الرائے اور صائب الرائے نہیں ہوتا،عوام کی اکثریت ان پڑھ ہے اور وہ محض اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ووٹ دیتے ہیں ان میں نہ تو قومی معاملات اور مسائل کو سمجھنے کا شعور ہوتا ہے اور نہ ہی وہ امیدواروں کی سیرت و کردار کو سامنے رکھ کر ووٹ دیتے ہیں،اس طرح نااہل،مفاد پرست،جرائم پیشہ اور بداطوار و بے دین قسم کے لوگ حکومت پر قابض ہو جاتے ہیں جمہوری حکومت میں بس جس کے حامیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے،وہی کامیاب ٹھہرتا ہے خوا وہ کاروبار حکومت کو سمجھنے کا اہل ہو یا نہ ہو،خوا وہ دینی و عوامی معاملات کے بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دینے والا ہو۔

یہ جمہوریت کی کرسی ہی کی مہربانی ہے کہ زرداری صاحب پاکستان کے دوسرے نمبر پر اور جناب نواز شریف صاحب تیسرے نمبر پر امیر ترین فرد ہیں اور جعلی ڈگریاں رکھنے والے عدالت سے نااہل قرار دلوائے جانے کے باوجود مسند اقتدار پر جلوہ افروز ہیں۔

جمہوری سسٹم میں لیڈر ایک جیسے ہوتے ہیں اور ہمیں ہر بار ایسے لیڈروں کا ہی چناﺅ کرنا پڑتا ہے جو پہلے ہی عوام کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہو چکے ہوتے ہیں،کئی لیڈروں نے ماضی میں بھی کوئی ایسا کارنامہ سرانجام نہیں دیا ہوتا جو قابل ستائش ہو۔جمہوری نظام میں لادینیت اور اقتدار کی ہوس ضمیر کو مردہ کر دیتی ہے اس لئے ہر لیڈر بے دھڑک جھوٹ بولتا ہے اور بے قصور بھی ٹھہرتا ہے،جمہوری نظام میں کتنے لوگ خوشی سے کرسی چھوڑتے ہیں!؟کتنے ہیں جو ووٹ کے حصول کے لئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال نہیں کرتے ؟اچھے اخلاق صرف ووٹ حاصل کرنے کے لئے ہوتے ہیں!ووٹ لینے کے بعد ایسے اپنے حلقہ انتخاب سے غائب ہوتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگھ اور پھر اگلے الیکشن کے زمانہ ہی میں اپنے ووٹرز کو منہ دیکھاتے ہیں۔

ہر الیکشن میں نناوے فیصد امیدوار بار بار کامیاب ہوتے ہیں اور ایسا ابتدا ہی سے ہو رہا ہے،اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ ایک دفعہ ممبر بن جانے کے بعد ممبر اپنے حلقہ انتخاب میں ہر دل عزیز ہونے کے لئے لاکھ جتن کرتا ہے اور انوکھی انوکھی ترکیبیں استعمال کرتا ہے اور میڈیا کے ذریعے اپنے ووٹرز کو ایسا تاثر دیتا ہے کہ وہ چوبیس گھنٹے صرف اور صرف ان کی خدمت کے لئے کوشاں ہے،پاکستا ن کے تمام سیاست دان امیر ترین لوگ ہیں ان میں کوئی بھی غریب نہیں !تمام کے تمام بڑی بڑی جائیدادوں وجاگیروں اور صنعتوں کے مالک ہیں،کسی بھی پارٹی کے اندر جمہوریت ہے اور نہ ہی پارٹی کے اندر الیکشن ہوتے ہیں، پارٹی ایک ہی خاندان کی وراثت ہوتی ہے،ہر الیکشن میں پارٹی کا نعرہ بدل جاتا ہے اور حکومت بنانے کے لئے اتحاد بھی۔

اس قسم کی جمہوریت ملوکیت ہی کی ایک قسم ہوتی ہے اور ملوکیت ہی کو تقویت دیتی پہنچاتی ہے،جمہوری حکومت میں کامیاب پارٹی برسر اقتدار آکر اپنی من مانی کرتی ہے اور پارٹی میں روساء وامراء شامل ہوتے ہیں اس لئے وہ صرف اور صرف سرمایہ دار طبقہ ہی کے مفاد میں قانون سازی کرتے ہیں عوام کے مفاد کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب ملوکیت اور جمہوریت میں صرف تھوڑا سا فرق رہ جاتا ہے۔ملوکیت میں اقتدار صرف ایک شخص کے ہاتھ میں ہوتا ہے جبکہ جمہوریت میں اقتدار ایک پارٹی ایک جماعت کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور اکثر اوقات برسر اقتدار پارٹی کی حکومت استبدادی حکومت بن جاتی ہے۔
Shahid Iqbal Shami
About the Author: Shahid Iqbal Shami Read More Articles by Shahid Iqbal Shami: 41 Articles with 49630 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.