مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک -دسویں قسط

رانگا ماٹی کی جھیل

دوسرے دن صبح میں مولانا طیب صاحب کے آفس واقع آگرہ آباد میں پہنچا تو اُن کو اپنا مُنتظر پایا، انہوں نے تفصیل بتاتے ہوئے کہاکہ جو کُچھ لڑکے نے بتایا اس کے مطابق قصہ یوں ہے کہ دو رضا کار جو ایک چائے کی دوکان پر بیٹھے چائے پی رہے تھے اِس لڑکے نے ان میں سے ایک کی رائفل کو چھوا جس پر اُس رضا کار نے لڑکے کو تھپڑ مار دیا لڑکا روتے روتے اپنے باپ بذل سوداگر کے پاس گیا تو اُس نے غصے میں آ کر رضا کار کو جو کہ بس میں سوار ہو کر کہیں جا رہے تھے ، انہیں بُرا بھلا کہا جس پر رضا کاروں نے اُس کو پکڑا اور تھانے لے جا کر مارا پیٹا اور اُس پر الزام لگایا کہ اِس نے ہم سے رائفل چھیننے کی کوشش کی اور بس کا گھیراﺅ کیا ، اب وہ حوالات میں بند ہے، اب آپ ہی بتائیں کیا کریں ؟ پھر خود ہی بولے،میں اگر اکیلا وہاں جاتا ہوں تو آجکل جو حالات ہیں وہ لوگ مجھے بھی اُس کا ساتھی سمجھ لیں گے ہاں اگر آپ ساتھ ہوں تو میں بخوشی آپ کے ساتھ چل سکتا ہوں ، میں نے اُن کا اشارہ سمجھتے ہوئے کہا چلیے ابھی میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں ! ادھر ہمارا مال تیار نہیں ہو رہا اوپر سے یہ نئی آفت آ پڑی ہے !!اللہ تعالیٰ ہماری مدد کرے۔
تھانہ میر سرائے میں پہنچے تو مجھے شلوار قمیض میں ملبوس دیکھ کر تھانے دار نے مجھے کرسی پیش کی میں نے مولانا صاحب کو بیٹھنے کو کہا تو ایک اور کرسی منگائی گئی ، میں سمجھ گیا کہ سب میرے لباس کی وجہ سے یہ سب ہو رہا ہے ، کہ اُن دنوں وہاں اِس لباس سے لوگ بہت گھبراتے تھے،تھانیدار نے اپنی ٹوٹی پھوٹی اُردو میں کہا، کہیے صاب کیسے آنا ہوا ؟ تو میں نے ذرا ترش لہجے میں کہا، تم لوگوں نے ہمارے ایک آدمی کو پکڑ رکھا ہے ؟ نہیں صاب آپ کا تو کوئی آدمی یہاں نہیں ہے،میں نے جب بذل کا نام لیا تو تھانیدار نے گبھرا کر کہا صاب ہم نے نہیں وہ تو رضا کار پکڑ کر یہاں لائے ہیں اور انہوں نے کہا کہ اس نے ہمارا بندوق چھیننے کا کوشش کیا اور بس کا گھیراﺅ کیا ، تو ہم نے اُن کے کہنے پر اس کو بند کر دیا ، آپ بولنے سے ہم اِس کو چھوڑ دیں گے،میں نے نرم مگر طنزیہ لہجے میں کہا، ارے بھئی یہ اکیلا آدمی کیا بندوق چھینے گا اور بس کا گھیراﺅ کرے گا یہ تو مزدور آدمی ہے اِسے ابھی چھوڑ دیں ، اِس کا ظامن میں ساتھ لایا ہوں میں نے مولانا صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ارے نہیں صاب آپ اِس میں اپنا نام پتہ لکھ کر اس کو لے جائیے بس یہی کافی ہے، اور ایک رجسٹر میرے آگے کر دیا ، میں نے اپنا نام اور ٹیلگراف آفس کا اڈریس لکھ کر نیچے دستخط کر دیے اور بذل سوداگر کو لے کر اس کے گھر چھوڑنے گئے جہاں اُس کے بیوی بچے اُسے دیکھ کر خوشی سے کھل اُٹھے ، اسی دن رات کو شبِ برات تھی ، آس پاس کے لوگ بھی جمع ہو گئے اور اپنی اپنی شکائتیں ہمارے سامنے پیش کرنے لگے جیسے ہم وہاں کے حاکم ہیں کوئی کہہ رہا تھا ، صاب میرا بکری رضا کار لے گیا اور کسی کو مرغی کا غم تھا غرض جتنے منہ اتنی باتیں ہو سکتا ہے رضا کار کسی کے کہنے پہ یہ سب کرتے ہوں ،کیونکہ کچھ ایسے لوگ بھی رضاروں میں شامل ہو گئے تھے جو مکتی باہنی کے مخبر تھے اور جان بوجھ کر ایسے کام کرجاتے تھے جن سے عام لوگوں کے دلوں میں پاک فوج اور” الشمس “”البدر“(رضاکار فورس کے نام)کے لیے نفرت پیدا ہو۔ میں نے مولانا سے کہا ، ان کو تسلی دیں اور مال کی کٹائی کی تاکید کریں ہم لوگ اگلے ہفتے آئیں گے اور مال دیکھیں گے، بذل سوداگر اور اس کے گھر والوں کو خوش دیکھ کر ہم لوگ بھی خوش خوش شہر لوٹے تو شام گہری ہو چکی تھی، ر ہائش پر پہنچا تو دیکھا محمود صاحب، صابر بٹ اور زلفی کہیں جانے کی تیاری کر رہے تھے مجھے دیکھ کر بولے آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں ، میں نے پوچھا کہاں ؟ تو محمود نے بتایا کہ ہمارے اسٹاف میں ایک اردو اسپیکنگ لڑکی آپریٹر ہے جس کا نام شہناز ہے ، ، کچھ دن پہلے اُس کے باپ اور بھائی کو مکتی باہنی والوں نے شہید کر دیا تھا وہ اکثر روتی رہتی ہے ایک بوڑھی ماں اور آٹھ نو سال کا بھائی ہے، میں نے اُس کو بہن کہا ہے ، آج شبِ برات کی رات ہے اور میں چاہتا ہوں ہم لوگ اُس کے گھر جا کر اُس کی دلجوئی کریں، یہ سُن کر میں بھی ان کے ساتھ جانے کو تیار ہو گیا ۔

ایسی بہت ساری کہانیاں اور واقعات اردو بولنے والوں کے ساتھ جڑے ہوئے تھے جنہیں سُن کر دل کانپ جاتا ۔ یہ لوگ پاکستان کی محبت میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر یہاں آئے اب یہاں بھی جینا دو بھر ہو گیا تھا، اُن کے سر کی قیمت لگ چکی تھی، انہیں گھروں سے زبردستی نکالا جا رہا تھا،اُنہیں بہاری۔۔۔ کہہ کر ان کی تذلیل کی جاتی وغیرہ وغیرہ۔

خیر ہم لوگ اُس بہن کے لیے کچھ تحفے لے کر لوگوں سے پوچھتے پچھاتے جب اُس کے گھر پہنچے تو گھر میں اندھیرا تھا اور ماں بیٹی کی آنکھیں رو رو کر سوجی ہوئی تھیں ہمیں دیکھ کر وہ حیران سی ہو گئیں، لائٹ جلائی ،اس افسردہ ماحول میں شہناز نے اپنی ماں سے ہمارا تعارف کرانا چاہا تو محمود نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کر کے خود آگے بڑھتے ہوئے کہا ماں جی کو میں تعارف کراتا ہوں، ہم سب شہناز کے بھائی اور آپ کے بیٹے ہیں ، کیا اتنا کافی نہیں ؟ ہمارے یہ کہنے پر ماں بیٹی کی آنکھوں سے آنسوﺅں کی جھڑی سی لگ گئی جس نے ہم سب کو رلا دیا شہناز کی ماں نے ہم سب کی طرف دیکھ کر جو دعائیں دیں وہ اس کے دل کی صحیح ترجمانی کر رہی تھیں ،زلفی جو ہمیشہ ہنستا مسکراتا رہتا تھا اُس دن اُس کا غم زدہ چہرہ دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ اُس کے دل میں دوسروں کے لیے کتنا درد ہے ،شہناز نے جلدی جلدی چائے بنائی اور ہماری لائی ہوئی مٹھائی پلیٹ میں سجا کر سب کے سامنے رکھ دی ، ہم لوگ جتنی دیر وہاں بیٹھے رہے ماں کے آنسو جو وقفے وقفے سے اُس کی آنکھوں سے بہتے رہے اور جن کو روکنا ہمارے بس میں نہیں تھا ، ہم جتنا بھی کہیں اس کے جوان بیٹے کی جگہ تو نہیں لے سکتے تھے، دل پر ایک بھاری بوجھ سا لے کر لوٹے تو انہیں کی باتیں کرتے کرتے سو گئے۔

دو تین بعد پھر زلفی کو ”رنگا ماٹی“ جانے کا شوق سوار ہوا جو ایک خوبصورت پہاڑی علاقہ ہے اکثر لوگوں سے اُس کی تعریف سنی تھی بس پھر کیا تھا، سب کی رضا مندی سے اتوار کے دن جانے کا پروگرام بن گیا میں کہا بھئی میں تو اتوار کو مال کی کٹائی دیکھنے جا رہا ہوں تو سب نے یک زبان ہو کر کہا، تم سوموار کو بھی جا سکتے ہو، ہم چار آدمی جو رات کو ڈیوٹی کرتے ہیں اُس دن آپ کے ساتھ چلیں گے ، اس طرح مجھے بھی اُن کی ہاں میں ہاں ملانی پڑی۔میں نے مولانا صاحب کو فون کر کے پروگرام کی تبدیلی کی اطلاع دی اور ہم لوگ پروگرام کی تفصیل طے کرنے لگے۔
 
image

رانگا ماٹی جاتے ہوئے راستے میں ایک خوبصورت منظر کی تصویر کشی میں دوستوں کے ساتھ-

( یہ تصویر ستمبر 1971میں لی گئی)

اتوار کی صبح حسب معمول کھانے پینے کا سامان ویگن میں رکھا اور رانگا ماٹی کے لیے روانہ ہوئے تو راستے میں تین چار جگہ پُل ٹوٹے ہونے کی وجہ سے سڑک سے ہٹ کر آبادی میں سے ہو کر جانا پڑا جس کی وجہ سے راستہ دشوار اور لمبا ہو گیا تقریباً بیس کلو میٹر کے بعد پہاڑی علاقے کی چڑھائی شروع ہوگئی، بل کھاتی ہوئی سڑک کے کنارے کنارے پانی کا ایک کھال جو غالباً کسی چشمے کا صاف شفاف پانی اوپر سے نیچے کی طرف آ رہا تھا، گاڑی روکوا کر پانی پیا تو قدرت کی ایک خاص نعمت کا احساس ہوا ،تھوڑا آگے گئے تو سڑک کے کنارے ایک ربڑ کے درختوں کا باغ جو کافی لمبا چوڑا تھا نظر آیا منظر اتنا پیارا تھا کہ گاڑی رکوا کر کچھ تصویریں لیں ، اُس باغ کے اندر گئے تو درختوں کو چھیل کر ایک گول نالی کے ذریعے ربڑ کو ایک برتن میں گرتے دیکھا جو ایک کلمپ لگا کر درخت کے تنے سے لٹکایا گیا تھا، واپس آ کر گاڑی میں تھوڑا ا ور آگے بڑھے تو ایک پہاڑ پر بڑی بڑی سیڑھیاں بنی دیکھیں ، ڈرائیور نے بتایا کہ اوپر پکنک پوائنٹ ہے، آپ چاہیں تو کچھ دیر یہاں رُک سکتے ہیں، ہم نے دیکھا کہ یہ تو بڑی سنسان جگہ ہے، ایسی جگہ رکنا خطرناک ہو سکتا ہے لہٰذا سب نے آگے بڑھنے کو ترجیح دی، ایک اونچی پہاڑی پر جا کر گاڑی رکوائی جہاں سے ”رانگا ماٹی“ کا فضائی نظارہ دیکھنے کے لائق تھا ، سر سبزپہاڑیوں میں بل کھاتا جھیل کا پانی آنکھوں کو فرحت بخشنے والا حسین نظارہ تھا، شہر میں داخل ہونے سے پہلے سڑک کے دونوں کنارے رنگ برنگے پھولوں سے لدے چھتری نما درخت اور ڈھلوان میں دونوں طرف جھیل کا پانی ! ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی بہت ہی خوبصورت خواب دیکھ رہے ہیں ، رانگا ماٹی میں ” راجہ تری دیو رائے “ جو پاکستان کے مذہبی امور کے وزیر تھے اُن کا اپنا ذاتی محل تھا، جہاں اُن کے خاندان کے افراد کے علاوہ ان کے چکمہ قبیلے کے پیروکار بھی رہائش پذیز تھے ۔

دراصل ہمارا یہاں آنے کا مقصد اُن کا امحل دیکھنا تھا کہ راجاﺅں کے محل دیکھنے کا سب کو شوق ہوتا ہے، راستے میں زیادہ تر ”چکمہ “ قبیلے کے لوگ نظر آئے جِن کی رنگت گوری ،پستہ قد،چپٹی ناک ، دیکھنے میں چینی باشندوں کی طرح لگتے تھے، یہ سب بدھ مت کے پیروکار تھے ہم نے ڈرائیور کو محل جانے کو کہا تو اُس نے بتایا کہ وہاں آپ لوگوں کو کشتی کے ذریعے جانا پڑے گا میں آپ کو گھاٹ تک لے جا سکتا ہوں۔ گھاٹ سے جب ہم کشتی میں سوار ہوئے جو سا منے ا یک فرلانگ کے فاصلے پر ایک پہاڑی کے پاس جا کر رکی ، اسی پہاڑی پر محل تھا ہم لوگ ہانپتے کانپتے جب اوپر اُٹھے تو ہمارے ذہنوں میں جو عالیشان محل کا تصور تھا اُس سے بالکل مختلف ایکدم سادہ مگر صاف ستھری پھولوں کی کیاریوں میں گھری ہوئی ایک عمارت نظر آئی جس کی چھتیں ٹین کی نالی دار چادروں سے لکڑی کے خوبصورت نقشُ نگار والے فریموں پر جڑی ہوئی تھیں سادگی ہر طر ف اپنا رنگ جمائے ہوئے تھی، ایک بہت بڑے کمرے میں مہاتما بدھ کی بڑی سی مورتی جو کسی چمکدار دھات کی بنی ہوئی تھی، تھوڑا آگے بڑھے تو چائنیز طرز پر بنا ہوا بدھوں کا مندر دیکھا جہاں بدھ بھیکشو اپنے مخصوص لباس جو پیلے رنگ کی دو چادریں ہوتی ہیں اور احرام کی طرز پر بدن سے لپٹی رہتی ہیں چہرے اور سر کے بال منڈوائے رکھتے ہیں بڑی تعداد میں گھومتے پھرتے اور کچھ مندر میں پوجا کرتے نظر آئے۔

اس کے بعد رانگا ماٹی جھیل کی سیر کا پروگرام بنا جو ایک سپیڈ بوٹ کرایہ پر حاصل کر کے زلفی صاب کی فرمائش پر اُس جگہ چلنے کو کہا گیا جہاں پر فلم ”درشن“ کا یہ گانا فلمایا گیا تھا،’یہ موسم یہ مست نظارے پیار کرو تو ان سے کرو ‘ واقع میں ہم لوگ اس خوبصورت نظارے میں کھو سے گئے۔

(جاری ہے)
H.A.Latif
About the Author: H.A.Latif Read More Articles by H.A.Latif: 58 Articles with 77180 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.