مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک-گیارھویں قسط

گناہ گاری
رانگا ماٹی جھیل کی سیر کے بعد ہم لوگ وہاں کی فوجی چوکی میں اپنے فوجی بھائیوں سے ملنے گئے تو وہاں کچھ ایسے لوگوں کو دیکھا جو نہ تو وہاں کے لوگوں سے میل کھاتے تھے اور نہ ہی ہماری آرمی سے ، پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ انڈیا کے باغی ہیں جن کا تعلق ’ناگا‘ قبیلے سے ہے جو اپنے لیے علیحدہ ملک ”ناگا لینڈ“کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں ، جس میں پاکستان ان کی مدد کر رہا ہے، یہ لوگ اسی جھیل کے ذریعے یہاں سے مسلح ہو کر جاتے ہیں جو ان کے علاقے سے ہو کر آسام تک چلی جاتی ہے اور اپنی کاروائی مکمل کر کے یہاں واپس آ جاتے ہیں۔

اس دنیا کا بھی عجب دستور ہے کہ اپنے ملک کو تو سنبھال نہیں پاتے دوسروں کے معاملے میں اپنی ٹانگ ضرور پھنسا دیتے ہیں، جانے کیوں یہ نہیں سوچتے کہ اگر کسی کے لیے گڑھا کھودیں گے تو وہ ضرور ہمارے لیے کنواں کھود نے کی کوشش کرے گا۔یہاں میں معذرت کے ساتھ کچھ مثالیں اپنی اس بات کی دلیل کے طور پر قارئین کی خدمت میں پیش کروں گا جن کا اس کہانی سے کوئی تعلق نہیں۔

(۱) جب ملک کی باگ ڈور ضیاءالحق کے ہاتھ میں تھی تو اُس نے سکھوں کی تحریک ”خالصتان“ کی بھرپور مدد کی سکھوں کو اسلحہ اور ٹریننگ دے کر علیحدہ ملک بنانے کا پورا پورا انتظام کر دیا ،بنکاک میں خالصتان کے پاسپورٹ بھی چھپ گئے جو وہاں کے رہنے والے سکھوں نے دھڑا دھڑ منہ مانگے داموں خریدے، ،مگر شومئی قسمت کہ اچانک پلین کریش میں ضیاءالحق کی موت کے بعد جب پی پی پی کی حکومت آئی تو اُس نے اُن سب سکھوں کے گھروں کے پتے جو یہاں سے ٹریننگ لے کر جا چکے تھے بھارتی حکام کے حوالے کر دیے جس کے نتیجہ میں انڈین گورنمنٹ نے سکھوں کو چُن چُن کر مارا اور اُس تحریک کا صفایا کر دیا جو انہوں نے بڑی رازداری سے چلائی تھی، اس آپریشن میں سکھوں کے گولڈن ٹمپل کو بھی نقصان پہنچا جس کے بدلے اندرا گاندھی کو اُس کے سکھ محافظوں نے گولیوں سے چھلنی کر دیا۔

(۲) اسی طرح کاحشر ” ناگا لینڈ“ والوں کی تحریک کا بھی ہوا جو بنگلہ دیش بننے کے ساتھ ساتھ ہی دم توڑ گئی،۔

(۳) القائدہ کی بنیاد بھی اُسی دور میں رکھی گئی جو اب پاکستان کے لیے وبالِ جان بنی ہوئی ہے جیسے سانپ کے منہ میں چھپکلی آ جائے، جسے چھوڑنے سے لاج لگتی ہے اور نگلنے سے بدن میں زہر پھیلتا ہے۔

ایسے کام اُن قوموں کو زیب دیتے ہیں جن میں یگانگت ہوتی ہے اتحاد ہوتا ہے، بکاﺅ مال نہیں ہوتا ۔

جبکہ یہاں تو لوگ اپنے بچوں تک کو بیچنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں، اقتدار کی خاطر اپنی قوم کا مُستقبل تک بیچنے سے دریغ نہیں کرتے، ہمارے ہاں سیاست سے زیادہ منافع بخش کوئی کاروبار نہیں جس پر چند خاندانوں کا قبضہ ہے، اسے جمہوریت نہیں اجارہ داری کہنا زیادہ مناسب لگتا ہے،اسلامی آئین کو یہاں اتنے غلط رنگ میں پیش کیا گیا ہے کہ جس سے اسلام کے نام لیوا بھی گبھرا جائیں،فوجی حکومت کو امریکن لابی نہیں ٹکنے دیتی جبکہ میانمار(برما) میں پینتالیس سال سے فوجی حکومت ہے جس کا قانون اتنا سخت ہے کہ اگر ایک بکری کے گلے میں سونے کا ہار ڈال کر کھُلا چھوڑ دیا جائے تو وہ سارے شہر کا چکر لگا کر صحیح سلامت واپس آ جائے گی،مگر مغربی ممالک نے اُس کا بھی با ئیکاٹ کر کے اُسے اپنے ملک کو جمہوری ملکوں کی طرح بننے پر مجبور کر دیا۔

جمہوریت کا راستہ بھی بُرا نہیں ! اگر ہر پارٹی اپنا اپنا صدارتی اُمیدوار کھڑا کرے اور اس کے کردار کو سامنے رکھتے ہوئے عوام اُس کو ڈائریکٹ ووٹ ڈالیں پھر وہ اپنی مرضی سے کابینہ بنائے، مگر یہاں تو ہارس ٹریڈنگ کا راستہ ہی بند ہو جائے گا، جو پیسے کے زور پہ حکومت بنانے اور خرچ کیے ہوئے پیسے کو سو گُنا کرنے والوں کو منظور نہیں، معاف کیجئے دلیل کچھ لمبی ہو گئی ہے اب میں واپس کہانی کی طرف آتا ہوں۔

رانگا ماٹی سے واپس آکر دوسرے روز ہم لوگ چار آدمی مولانا صاحب کو ساتھ لے کر بانس کی کٹائی دیکھنے ہادیر ہاٹ پہنچے تو میری حیرت اور غصے کی انتہا نہ رہی جب مجھے معلوم ہوا کہ بذل سوداگر نے ایک پیس بھی نہیں کٹوایا ، مولانا نے اُس سے بنگلہ میں کچھ باتیں کیں جس میں بذل کی طرف سے بار بار ”گناہ گاری“ کا لفظ سننے میں آیا، جوں جوں اُن کی باتوں میں وقت جا رہا تھا میرا ٹمپریچر ہائی ہوتا جا رہا تھا، میرے ساتھ زلفی ،ریاض اور خوشی محمد تھے جو مجھے کول کرنے کی کوشش کر رہے تھے، تھوڑی دیر بذل سے بحث کرنے کے بعد مولانا صاحب مجھے ایک طرف لے جا کر بولے، لطیف بھائی بذل مال کے ریٹ بڑھوانا چاہ رہا ہے آپ کا کیا خیال ہے، میں نے غصے میں کہہ تو دیا کہ مجھے مال وال کچھ نہیں چاہئیے، اُس سے کہیں ہمارے ایڈوانس دیے ہوئے پیسے واپس کرے،مگر پھر یہ سوچ کر کہ جہاں اتنا خرچ کر چُکا ہوں تھوڑا اور سہی اور مولانا صاحب کا بھی یہی مشورا تھا کہ یہاں سے ایڈوانس واپس ملنا تو مشکل ہے تھوڑا ریٹ بڑھا دینے سے یہ مال تیار کر دے گا، میں نے نیم رضا مندی سے سر کو ہلاتے ہوئے کہا، اچھا یہ جو بار بار آپ کو گناہ گاری کہہ رہا تھا ہم لوگوں نے کیا گناہ کیا ہے، تو مولانا صاحب نے ہنستے ہوئے بتایاکہ بنگلہ زبان میں گناہ گاری کا مطلب ہے ’نقصان“ وہ یہی کہہ رہا تھا کہ ہم نے جو ریٹ سے سودا کیا ہے اُس سے اسے نُقصان ہو گا اس لیے ریٹ بڑھا دیں۔بہر حال مولانا صاحب نے وہاں کے امام مسجد اور چند معزز لوگوں کو بلا کر اُس سے ایک پرنوٹ لکھوا کر کچھ مزید پیسے دیے اور اگلے ہفتے آنے کا کہہ کر واپس ہونے لگے تو وہ اسرار کر کے اپنے گھر لے گیا جہاں بڑا ہی پر تکلف کھانا ہمارا انتظار کر رہا تھا ، جسے کھانے کے بعد سارے گلے شکوے دور ہو گئے، میں نے وہاں ایک تالاب جو گاﺅں کے کنارے تھا دوستوں کے ساتھ اپنے کیمرے میں محفوظ کر لیا۔

واپسی میں ہم نے بس کی کھڑکی سے سمندر کے کنارے ایک مچھیروں کی بستی دیکھ کر آپس میں مشورہ کیا اور بس رکوا کر اُتر گئے، اپنے ساتھ مولانا صاحب کو لے کر جب ہم لوگ بستی میں گئے تو مچھیرے اپنی کشتیا ں تیار کر رہے تھے، جب مولانا صاحب کے ذریعے ہم نے کشتیوں میں سمندر کی سیر کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے بتایا کہ ہم لوگ مچھلیاں پکڑنے جارہے ہیں جس میں کم از کم ہم واپس آنے میں دو گھنٹے لگ سکتے ہیں اگر اتنا وقت آپ کے پاس ہو تو ہمارے ساتھ چل سکتے ہیں،ہم لوگ تو نکلے ہی سیر کرنے تھے جھٹ سے ان کی کشتیوں میں بیٹھ گئے کشتیا ں آہستہ آہستہ گہرے سمندر کی طرف بڑھتی جا رہی تھیں، ایک کشتی ران جسے بنگلہ زبان میں ”ماجھی“ کہتے ہیں بڑی درد بھری آواز میں گانا شروع کیا ’او بُندھو رے ، ا ٓمی آسی ایئی پار ،تُمی آسو اوئی پار،مِلُن ہو بے کیمون کورے “ اس گانے کا جب میں نے مولانا صاحب سے اردو میں ترجمہ کروایا تو کچھ یوں تھا۔اے دوست میں اس پار ہوں تم اُس پار ہو ، ملن کیسے ہو گا۔اِس گانے کے بول مجھے مشرقی اور مغربی پاکستان کے ملاپ پر صادق آتے لگے کہ اِن دونوں کے بیچ بھی گہرا سمندر ہے۔
 
image

یہ تصویر ہادیر ہاٹ جہاں سے بانس کٹوایا گیا وہاں ایک تالاب جسے بنگلہ زبان میں “ پوکر “ کہا جاتا اس کے کنارے پر دوستوں کی بنائی گئی اگست 1971 یا یادگار ہے٬ مصنف نے چونکہ خود بنائی اس لیے خود اس میں نہیں ہے یا تالاب بنگلہ ثقافت کا حصہ بھی اور ضرورت بھی ہے جن میں برسات کا پانی جمع کیا جاتا ہے اور مچھلیاں پالی جاتی ہیں خشک سالی میں ان سے کھیتوں کو پانی بھی دیا جاتا ہے ان میں بہار کے موسم میں بڑے بڑے کنول کے رنگ برنگے پھول بھی کھلتے ہیں جنہیں بنگالی میں شاپلا کہتے ہیں اور یہی ان کا قومی پھول بھی ہے اس کی خوشبو نہ ہونے جیسی اور بے مول مل جاتے ہیں اس لیے اسے غریب لوگ سبزی کے طور پر پکا کر بھی کھا لیتے ہیں اس کے علاوہ تالاب کے بارے میں ایک بنگلہ کہاوت بڑی مشہور ہے کہ تالاب کے ایک کنارے پر نمازی غسل کر رہا تھا جبکہ دوسرے کنارے چور٬ دونوں ایک دوسرے کے بارے میں قیاس کر رہے تھے نمازی سوچ رہا تھا کہ سامنے نمازی ہے جو نماز کے لیے نہا رہا ہے جبکہ چور سوچ رہا تھا کہ میری طرح یہ بھی چوری کر کے آیا ہے اور نہا کر سوجائے گا اس کہانی سے مراد یہ کہ جیسا کوئی خود ہوتا ہے دوسرے کو بھی ویسا ہی خیال کرتا ہے- کھاتے پیتے گاؤں دیہات میں تقریباً ہر گھر کے ساتھ ایک تالاب اور غریب گاؤں کے درمیان میں جس کے آس پاس بانس سے یا ٹین سے بنے چھونپڑے نما گھر ہوتے ہیں جو سب ضروریات اس تالاب سے پوری کرتے ہیں٬ حتیٰ کے مسجد کے ساتھ بھی تالاب ہوتا ہے جہاں وضو کیا جاتا ہے چاہے اس کا پانی کتنا ہی میلا ہو وہ لوگ اسے پاک سمجھتے ہیں میں نے ایک مولانا سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ایک مقدار بتائی جو ہونے سے پانی پاک رہتا ہے- بہرحال مجبوری میں تو کسی حد تک سب کچھ جائز ہوتا ہے-

(جاری ہے)
H.A.Latif
About the Author: H.A.Latif Read More Articles by H.A.Latif: 58 Articles with 77183 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.