مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک - نویں قسط

کپتائی کے جنگل

ٹارچ کی روشنی جدھر سے آ رہی تھی اس طرف پنجاب پولیس کے پانچ جوان جو ٹیلیگراف کے بوسٹر ٹاور کی حفاظت پر متعین تھے ان میں سے حوالدار حیدری جن کا تعلق کیمبل پور سے تھا اُن کی سرگوشی کی طرح آواز آئی، کیوں بھئی جوانوں ٹھیک ہو ؟ جواب میں زلفی نے بھی ویسے ہی انداز میں جواب دیا، ہم لوگ اللہ کے فضل سے ٹھیک ہیں آپ لوگ کیسے ہیں ؟ حیدری صاحب ہاتھ میں رائفل لیے کمر جھکائے آہستہ آہستہ ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے ہمارے پاس آئے جہاں ہم لوگ برآمدے کے ستونوں کی آڑ لیے ہوئے تھے انہوں نے ٹارچ کی روشنی سے چاروں طرف کا جائزہ لیتے ہوئے کہا،لگتا ہے حملہ آور ابھی کہیں آس پاس ہی چھپے ہوئے ہیں جو دوبارہ حملہ کر سکتے ہیں ہم لوگوں کو ہشیار رہنا چاہیے آج سونا بھول جائیں اور جن کے پاس اسلحہ ہے وہ میرے ساتھ آئیں ہم لوگ آ س پاس اچھی طرح تسلی کر لیں کہ کوئی چھپا ہوا تو نہیں ہے جو ہمیں بے خبر پا کر دوبارہ حملہ کر دے۔ قارئین کو بتاتا چلوں کہ ہم میں سے ایک عزیز بھائی نے بندوق کا لائسنس اور خورشید بھائی نے پستول کا حاصل کر لیا تھا جو مغربی پاکستانی ہونے کی وجہ سے ایک دن میں بن گیا اور چار دن پہلے ہی انہوں نے یہ دونوں چیزیں خریدی تھیں ۔صبح تک ہم لوگ جاگتے رہے اور ایک دوسرے سے اپنا اپنا اظہار خیال کرتے رہے۔

ہم لوگ جہاں تھے اُس جگہ کو وہاں کے لوگ مقامی زبان میں ”کاٹا پہاڑ“ کے نام سے اس لیے پکارتے تھے کہ دو چھوٹی ایک ساتھ ملی ہوئی پہاڑیوں کو بیچ سے کاٹ کر سڑک بنا ئی گئی تھی جس کے ایک طرف کی پہاڑی پر ہم لوگوں کی رہائش تھی جبکہ دوسری طرف پہاڑی پر ایک ہندوﺅں کا مندر تھا، ہم پر حملہ اسی مندر والی پہاڑی سے کسی نے دستی بم سے کیا تھا مگر فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے بم ہم تک نہیں پہنچ سکا اور پہاڑیوں کے درمیان گزرنے والی سڑک پر لگے ایک بجلی کے کھمبے پر گرا جس سے کھمبے کی جگہ ایک بہت بڑا گڑھا بن گیا جسے ہم نے صبح کے وقت جا کر دیکھا اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اُسی کی رحمت سے ہم لوگ اس جان لیوا حملے میں محفوظ رہے ۔

اسی دن اخبار میں خبر پڑھ کر سب جاننے والوں کے فون آتے رہے کچھ لوگ خود آ کر ملے اور محتاط رہنے کی تاکید کرتے رہے جبکہ ہم لوگ اس حملے سے پہلے اتنے لاپرواہ تھے کہ روزانہ قریبی دو تین سینماﺅں میں ایسے ہی جا گھستے کیونکہ کوئی ٹکٹ نہیں لگتی تھی گیٹ کیپر پہچانتے تھے ، ہمیں دیکھتے ہی ہنستے ہنستے گیٹ کھول دیتے ، ہم لوگ تھوڑی تھوڑ ی دو تین جگہ پکچر دیکھ کر واپس آ جاتے ،مگر اس واقعے کے بعد باہر جانا بالکل ضرورت کے تحت ہوتا ، یہ واقعہ ہمارے لیے خطرے کا الارم ثابت ہوا کہ اس کے بعد سینما پیلس میں دھماکہ ہوا جس میں بہت سی جانیں گئیں ایک دن بعد اسی سینما کے سامنے دن دیہاڑے سڑک پر دستی بم کے حملے میں ایک سائیکل رکشہ چلانے والے کے ساتھ اور تین آدمی موقع پر مارے گئے، معلوم ہوتا تھا مکتی باہنی والوں کو کھلی آزادی مل گئی تھی جہاں چاہتے کھلم کھلا دستی بم مار کر یہ جا وہ جا۔۔۔

دو تین دن ایسے ہی گزر گئے آخر کب تک گھر بیٹھتے ، زلفی نے کپتائی جانے کا پروگرام بنایا تو پہلے تو سب نے حالات کی طرف توجہ دلائی جو زلفی نے یہ کہہ کر سب کو خاموش کر دیا کہ آئے دن ہوائی حادثات ہوتے رہتے ہیں ،تو کیا لوگ سفر کرنا چھوڑ دیتے ہیں ؟ بھائیوں موت کا وقت تو معین ہے ،اگر آنی ہوتی تو بم کے حملے میں آ جاتی ، سب کی طرف نظریں گھوماتے ہوئے سوالیہ انداز میں بولے،کیا خیال ؟کچھ نے نیم رضامندی اور کچھ دوستوں نے زور دے کر حمایت کرتے ہوئے کہا ، بالکل ٹھیک کہا تم نے مارنے والوں نے تو گھر پر ہی مارنے کا پرگرام بنایا تھا، مرنا ہوا تو میدان میں لڑ کر مریں گے چوہوں کی طرح بل میں چھپ کر نہیں بیٹھیں گے، اس طرح اگلی اتوار کو کپتائی کا پروگرام بن گیا ، ٹیلگراف آفس کی ویگن میں کھانے پکانے کا سامان رکھا اور دو مقامی لڑکوں اور ڈرائیور کو ساتھ کے کر ہم لوگ کپتائی ڈیم کی طرف روانہ ہوئے۔

کپتائی ایک پہاڑی علاقہ ہے جو چٹاگانگ سے تقریباً پینتالیس کو میٹر ہے جہاں ایک بہت بڑی قدرتی جھیل پر ایک ڈیم بنایا گیا ہے ، جہاں پانی سے بجلی پیدا کی جاتی ہے وہیں سے دریائے کرنافلی نکل کر چٹاگانگ آکر خلیج بنگال میں گرتا ہے،اِسی دریا کے کنارے کرنافلی پیپر مل ہے جہاں بانس سے کاغذ تیار کیا جاتا ہے۔
 

image

ٹی اینڈ ٹی کی ویگن کے ساتھ جس نے ہمیں بہت سیر کروائی بنگلہ اور انگریزی دونوں نمبروں کی لکھائی کے ساتھ دائیں سے بائیں ریاض٬ زلفی٬ عزیز احمد اور پیچھے خوشی محمد
( یہ تصویر 1971 کے زمانے کی یادگار ہے)

جوں جوں ہماری گاڑی پہاڑی سلسلے میں داخل ہوتی گئی آس پاس کبھی دریا کا کنارہ اور کبھی گھنا جنگل جو ”ساگوان “ کے درختوں سے بھرا ہوا نظر آتا زلفی جو ہمیشہ خوش کرنے اور ہنسے ہنسانے والی بات کرتا ،اچانک زور سے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ”اوئے بندر“ سب اسی طرف دیکھنے لگے ، درختوں پر بہت سارے بندر اٹھکیلیاں کر رہے تھے ،ہم نے تھوڑی دیر کے لیے گاڑی رکوا کر نظارہ کیا تو ڈرائیور نے بتایا صاب اس جنگل میں ”باگھ“ (شیر ) بھی رہتے ہیں، زلفی نے اسے لقمہ دیتے ہوئے جھٹ سے کہا، اور ہمارے جنگل میں گید ڑ بھی رہتے ، اس کی اس بات کا مطلب سمجھ کر سب ہنس پڑے کہ ہم لوگ جس پہاڑی پر رہتے تھے وہاں رات کو گیدڑوں کے رونے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں جو پہاڑیوں میں گھر بنا کر رہتے تھے جو آس پاس اگی ہوئی لمبی لمبی گھاس کے نیچے چھپے رہتے تھے۔

راستے میں کرنا فلی پیپر مل بھی دیکھنے کا بھی موقع ملا جو دریا کے کنارے اس لیے بنائی گئی تھی کہ دریا میں تیرتے ہوئے بانس کے گٹھے آ کر مل کی کر ین کے پاس جمع کیے جاتے پھر کرین اُٹھا کر مل میں لگے ہوئے کریشر میں الٹ دیتی جہاں سے وہ پلپ کی شکل میں مشینوں میں جا کر کاغذ کی شکل میں میں بڑے بڑے رولروں پر لپیٹ کر باہر بھیجے جاتے۔

اب ہم لوگ کپتائی کے ٹیلگراف آفس میں جو دریا کے کنارے تھا پہنچ گئے جہاں کے اسٹاف نے بڑی خوشدلی سے ہمارا استقبال کیا جو وہیں کے رہنے والے تھے ، کچھ ٹوٹی پھوٹی اردو بھی جانتے تھے ہم لوگوں نے دریا کے کنارے اپنا کیمپ لگایا اور کھانے کا سامان تیار ہونے لگا، راستے میں آتے ہوئے ڈرائیور نے ایک پہاڑ کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ یہاں ہندوﺅں کی دیوی سیتا نے اپنے بارہ برس کا بن باس گزارا تھا۔ دریا کے اسُ طرف رام اور اِس طرف سیتا جنگل میں بھٹکتے رہے بارہ برس بعد ان کا ملاپ ہوا۔ میں نے اس کی تصدیق کے لیے وہاں کے اسٹف سے جس نے اپنا نام شاہ جہاں بتایا تھا پوچھا کیا یہ بات صحیح ہے تو اُس نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ، ہاں صاحب اسی پہاڑ کے دوسری طرف اس پر ایک ہندوﺅں کا مندر بھی ہے اور اس آبادی کو سیتا کنڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ باتوں باتوں میں انہوں نے اس پہاڑی جنگل میں رہنے والے ”مگ“ قبیلے کا بھی ذکر کیا جو اس تہذیب یافتہ دور میں بھی جنگلی زندگی گزار رہے ہیں جن کی عورتیں اوپری لباس سے بے نیاز صرف ایک دھوتی لپیٹ کر بانس سے بنے ہوئے اونچے اونچے جھونپڑے جو مچان کی طرز پر بنے ہوتے ہیں جو جنگلی جانوروں سے حفاظت کے لیے بنائے جاتے ہیں بانس کے بڑے بڑے پائپوں سے تمباکو نوشی کرتی نظر آتی ہیں، انہیں تہذیب سے کوئی دلچسپی نہیں کوشش کے باوجود وہ لوگ اپنی سادہ زندگی کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اُنکے ہاں کوئی سکہ نہیں چلتا، وہ لوگ جنس کے بدلے جنس کا تبادلہ کرتے ہیں اگر کسی چیز کی اشد ضرورت پڑ جائے تو وہ یہاں سے بھی چاول دے کر کپڑا یا نمک وغیرہ کشتیوں میں آکر لے جاتے ہیں ، ان لوگوں کا اپنا سردار ہوتا ہے جس کی یہ بہت عزت کرتے ہیں ، یہ پہاڑی سلسلہ جو آسام (انڈیا) میں ”میگھا لوئے“ تک پھیلا ہوا ہے انہیں کا علاقہ ہے۔

اسی طرح باتیں کرتے کرتے کھانا تیار ہو گیا ، سب نے مل کر دریا کے کنارے چادریں بچھا کر دسترخوان بنایا اور خوب پیٹ بھر کر کھایا۔

اس کے بعد کپتائی لیک کی ایک سپیڈ بوٹ میں بیٹھ کر سیر کی جس کے کنارے پر فوجی چھاﺅنی میں بھی گئے فوجی بھائیوں سے ملاقات کر کے حال احوال لیا اور پن بجلی گھر کو دیکھتے ہوئے واپس ہوئے تو دیکھا کہ ایک کرین جو سڑک پر پُل کی شکل میں لگی ہوئی تھی جس کا ایک سرا جھیل سے بانس اُٹھا کر دوسری طرف دریا میں ڈال رہا تھا لوکل لوگوں نے بتایا کہ اسی طرح اس کرین سے چھوٹی کشتیاں بھی پار اتاری جاتی ہیں، جھیل پر بند بنا کر پانی بجلی گھر کے نیچے سے دریا میں جا رہا تھا جس سے جنریٹر چل رہے تھے۔ ہمیں شام ہونے سے پہلے واپسی کی فکر تھی راستہ میں دو پل جو مکتی باہنی والوں نے اُڑا دیے تھے ان کی جگہ آرمی والوں نے عارضی پل بنا رکھے تھے لہٰذا خطرے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا ،واپسی میں بھی دریا کے کنارے کنارے شام کے نظارے بہت پیارے لگ رہے تھے خاص کر دریا کے دوسرے کنارے پر چائے کا باغ دعوت نظارہ دے رہا تھا مگر شام گہری ہو چکی تھی رکنا مناسب نہیں تھا۔

رہائش پر پہنچے تو ایک بُری خبر میرے انتظار میں تھی، جس نے سارے دن کی خوشیوں کو ایک ہی جھٹکے میں ختم کر دیا ، جیسے بہت زیادہ ہنسنے سے آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں یہی کیفیت میری ہو گئی تھی، پتہ چلا کہ بانس کے جنگل میں کام کرنے والے ”بذل سوداگر“ کا بارہ سالہ بیٹا مجھے ملنے کے لیے آیا ہوا ہے، اُس سے ملے تو اُس نے روتے ہوئے بتایا کہ اُس کے باپ کو پولیس نے پکڑ کر ”میر سرائے“(ایک شہر کا نام) تھانے میں بند کر کے بہت مارا ہے، میں نے اُس کی بات کو سمجھنے کے لیے مولانا صاحب کو فون کیا اور پوری صوت حال کا جائزہ لیتے ہوئے مولانا صاحب سے کہا کہ اس لڑکے کو سمجھا کر واپس بھیج دیں ہم لوگ کل صبح جا کر دیکھیں گے کیا ہوا ہے اور کیا جا سکتا ہے۔

رات بھر کروٹیں بدل بدل کر گزاری بار بار یہ خیال ستا رہا تھا کہ جس کام کے لیے اتنا انتظار کیا اُس کے ہونے کی اُمید نظر نہیں آ رہی تھی۔

(جاری ہے )
H.A.Latif
About the Author: H.A.Latif Read More Articles by H.A.Latif: 58 Articles with 77192 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.