|
کچھ عرصہ قبل پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے رہائشی محمد
یاسین جو کہ پیشے کے لحاظ سے ٹھکیدار ہیں نے شادی کے غرض سے چترال کا رخ
کیا-
چترال پہنچ کر انھیں معلوم ہوا کہ علاقے میں پولیس کی طرف سے بغیر اجازت کے
غیر مقامی مردوں کی مقامی خواتین سے شادی کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
جس کے بعد محمد یاسین لاہور واپس گئے اور اپنے تھانے سے چترال پولیس کے نام
پر ایک اجازت نامہ بنوایا جس کی تصدیق کے بعد چترال پولیس نے انھیں شادی
کرنے کی اجازت دے دی۔
محمد یاسین نے چترال میں ایک مقامی خاتون سے شادی کی جو ان کی چھٹی شادی
تھی۔
محمد یاسین کے مطابق شاید پہلے یہ پابندی نہیں تھی۔
پولیس کی اجازت کے بغیر شادی پر پابندی کیوں؟
مقامی افراد کے مطابق خیبر پختونخوا کے سب سے پرامن سمجھے جانے والے ضلع
چترال میں خواتین کا غیر مقامی افراد سے شادی کرنا مبینہ طور پر ایک
کاروبار بن گیا تھا۔
تاہم شادیوں میں مسلسل ناکامی اور بعض شادی شدہ خواتین کی شوہروں کے ہاتھوں
ہلاکت کے واقعات کے بعد مقامی انتظامیہ نے علاقے میں پولیس کی کلیئرنس کے
بغیر شادی پر پابندی لگا دی جو گزشتہ 5 برسوں سے نافذ العمل ہے۔-
|
|
چترال پولیس کے انسپیکٹر لیگل محسن الملک کے مطابق ’ماضی میں چترال میں
شادی کرنا ایک مذاق بن گیا تھا کیونکہ ہر کوئی آ کر یہاں شادی کرتا تھا اور
اس میں بیشتر شادیاں ناکام ہو جاتیں یا خواتین کو طلاق ہو جاتی یا خواتین
کو برسوں تک شوہروں کے ہاتھوں تکالیف برداشت کرنا پڑتی تھی۔‘
’کئی ایسے واقعات بھی ہوئے کہ چترالی شادی شدہ خواتین کو بے دردی سے قتل کر
دیا گیا اور ان کی لاشیں یہاں لائی گئیں جبکہ اکثر کیسسز میں لڑکے کو امیر
یا افسر ظاہر کیا جاتا لیکن بعد میں معلوم ہو جاتا کہ وہ سب جھوٹ تھا۔‘
ان کے بقول ان واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے 2014 میں چترال کی ضلعی اسمبلی
میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ آئندہ چترال میں
غیر مقامی افراد کی بغیر تصدیق کی شادی پر پابندی ہو گی اور اس سلسلے میں
مقامی پولیس کی طرف سے ایک سیل بھی قائم کر دیا گیا۔
’ہر غیر مقامی شخص کو شادی سے قبل اپنے علاقے کے پولیس تھانے سے اجازت نامہ
لینا لازم کر دیا گیا ہے جس میں متلعقہ فرد کا پورا ریکارڈ درج ہوتا ہے۔‘
چترال میں غیر تصدیق شدہ شادیوں کو روکنے کے لیے انجمن ’دعوت و عزیمت‘ کے
نام سے ایک تنظیم بھی قائم ہے جس کا مقصد چترالی خواتین کو تحفظ فراہم کرنا
ہے۔
|
|
تنظیم کے صدر جاوید اقبال کے مطابق ان کے نمائندے چترال کے ہر گاؤں میں
موجود ہوتے ہیں جن کا کام ایسی شادیوں کو روکنا ہے جس میں خواتین کا
استحصال کیا جاتا ہے۔
جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ غیر تصدیق شدہ شادی کی معلومات ملنے پر وہ فوری
طور پر پولیس کو اطلاع دیتے ہیں اور پھر مل کر کارروائی کی جاتی ہے۔
چترال میں بعض فرسودہ روایات وقتاً فوقتاً خواتین کے لیے مشکلات کا سبب
بنتی رہی ہیں۔
|
|
چترال کے غریب خاندانوں میں عام طورپر لڑکی کی شادی کی صورت میں تمام
اخراجات لڑکے والوں کو برداشت کرنا پڑتے ہیں۔
چترال میں یہ بات عام ہے کہ یہاں لڑکی والدین پر بوجھ نہیں سمجھی جاتی
کیونکہ اس کے تمام اخراجات والد کے جیب سے نہیں جاتے بلکہ دولہے کو ادا
کرنے پڑتے ہیں۔ تاہم تعلیم یافتہ اور امیر گھرانے میں یہ روایت زیادہ عام
نہیں۔
چترال میں خیبر بینک کے منیجر ظہورالدین چترالی کا کہنا تھا کہ ’پہلے پہل
دیگر اضلاع سے آنے والے افراد چترال میں شادی کر کے یہ سمجھتے تھے کہ انھوں
نے لڑکی خرید ہی لی ہے کیونکہ انہیں مقامی روایت کے مطابق رقم دینی پڑتی
تھی لیکن دراصل بات یہ نہیں بلکہ یہاں کی روایت ایسی ہے کہ دولہے والے لڑکی
والوں کو رقم دیتے ہیں۔
|