میرا قصور بے وفائی نہیں صرف عورت ہونا تھا ۔۔ ظلم کی ایسی داستانیں جن کی مثال نہیں ملتی

image


مرد اور عورت کا تعلق انسانی تاریخ کا اولین تعلق قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ باہمی محبت اور لگاوٹ سے بھرے اس تعلق کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نوع انسانی کی بقا ان دونوں کے تعلق کے بغیر ممکن نہیں ہے- مگر اس کے باوجود دنیا پر ہونے والے پہلے قتل کا سبب بھی اسی عورت کو قرار دیا جاتا ہے ۔ اس کے بعد تاریخ کبھی عورت کو ظالم قرار دیتی رہی اور کبھی یہی عورت مظلومیت کی تصویر بنی نظر آئی آج ہم آپ کو معاشرے کی کچھ ایسی ہی عورتوں کے بارے میں بتائيں گے جنہیں معاشرے کے لوگوں نے نہ صرف ظلم کا نشانہ بنایا بلکہ ان کو ایک مثال بنا دیا-

1: مختاراں مائی
مختاراں مائی جن کا تعلق ضلع مظفر گڑھ کے گاؤں میروالا سے تھا عورتوں کے ساتھ طاقتور مردوں کی جانب سے کیے جانے والے ظلم کی ایک مثال بن کر ابھریں ۔ ان کے ساتھ ظلم کا یہ واقعہ 2002 میں پیش آیا تفصیلات کے مطابق ان کے بارہ سالہ بھائی عبدالشکور کو مستوئی قبیلے کے تین افراد نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور اس کے بعد اس کو منہ بند رکھنے کا حکم دیا- مگر جب اس نے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی تو ان افراد نے عبدالشکور کے اوپر اپنے قبیلے کی ایک لڑکی سلمی کے ساتھ ناجائز تعلقات کا الزام لگا دیا جب کہ سلمیٰ عبدالشکور سے عمر میں چھ سال بڑی تھی - اس الزام کے جواب میں مختاراں مائی کے خاندان والوں نے معاملے کو ختم کرنے کے لیے عبدالشکور کی سلمیٰ کے ساتھ شادی کی تجویز پیش کی اور اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی آفر کی کہ مختاراں مائی کا رشتہ مستوئی قبیلے میں کسی کو دے دیا جائے گا- مگر سلمیٰ کے بھائی نے جو کہ عبدالشکور کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں میں شریک تھا اس رشتے سے انکار کر دیا اس کے بدلے میں مطالبہ کر دیا کہ اگر مختاراں مائی جرگے میں پیش ہو کر مستوئی قبیلے والوں سے اپنے بھائی کی جانب سے معافی طلب کرے گی تو اس معاملے کو ختم کر دیا جائے گا- مگر جب مختاراں مائی معافی مانگنے پہنچیں تو ان کو چار افراد نے اجتماعی زیادتی کا نہ صرف نشانہ بنایا گیا بلکہ برہنہ کر کے پورے گاؤں میں بھی گھمایا گیا- اس واقعہ کی خبر سامنے آنے کے بعد اور میڈیا پر بہت زیادہ چرچے کے سبب حکموت پاکستان نے مختاراں مائی کو پانچ لاکھ روپے بطور ہرجانے کے دیے اور اس واقعے کے ذمہ داروں کو بھی سزا سنائی گئی-

image


2: خدیجہ
خدیجہ کے ساتھ ہونے والا ظلم و بربریت کا واقعہ کسی گاؤں دیہات کی کہانی نہیں ہے بلکہ یہ واقعہ ایک کالج میں جانے والی لڑکی کے ساتھ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے سب سے اہم شہر لاہور میں پیش آیا- جس کو اس کے کالج میں ساتھ پڑھنے والے ایک لڑکے نے پرپوزل نہ قبول کرنے کی وجہ سے چھریوں کے 23 وار کر کے شدید ترین زخمی کر دیا اور اس کے بعد اپنے والد کے اثر و رسوخ کے سبب آزادانہ گھومتا رہا اور انصاف کے تقاضوں کا مذاق اڑاتا رہا- مگر ایک بار پھر میڈیا کی کوششوں کے سبب اور خدیجہ کی بہادری کی وجہ سے سزا کو پہنچا-

image


3: قندیل بلوچ
قندیل بلوچ کا تعلق پنجاب کے علاقے قصور کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تھا جس نے سوشل میڈيا پر بولڈ ویڈيوز کے ذریعے شہرت کمائی تھی- ان کی شہرت اس وقت اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی جب انہوں نے اپنی ویڈيوز اور تصاویر مفتی عبدالقوی جیسے جید عالم کے ساتھ شئير کیں مگر اس کی یہ شہرت ان کے بھائيوں کو پسند نہیں آئی اور غیرت کے نام پر ان کے بھائي نے ان کا گلا دبا کر ان کو موت کی گھاٹ اتار دیا- اس کے بھائيوں کو ان کے والد نے جو کہ اس کیس کے مدعی بھی تھے معاف کر دیا تھا مگر پاکستانی قانون میں غیرت کی بنیاد پر کیے جانے والے قتل کے قوانین میں تبدیلی کے سبب ان کے بھائيوں کا کیس ختم نہیں کیا گیا اور وہ اپنی سزا بھگت رہے ہیں-

image


4: عنبرین
سرحد کے علاقے ایبٹ آباد کی رہائشی عنبرین جس کی عمر سولہ سترہ سال سے زیادہ نہ تھی کو جرگے کے ایک فیصلے کے نتیجے میں جلا کر مار دیا گیا- یہ واقعہ 2016 میں پیش آیا تفصیلات کے مطابق عنبرین پر الزام تھا کہ اس نے اپنی ایک دوست کو پسند کی شادی کرنے کے لیے گھر سے بھاگنے میں معاونت کی- اس کا جرم ثابت ہونے کے بعد اس علاقے کے جرگے نے اسے موت کی سزا کا حکم دیا گیا- اور اس کی ماں کی مدد سے اس کو اس کو ایک گاڑی میں زندہ جلا دیا گیا- اس واقعے کے سامنے آنے کے بعد اس الزام میں اس کی ماں سمیت تیرہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا مگر تاہم ابھی تک ان کی سزاؤں کا فیصلہ ہونا باقی ہے -

image
YOU MAY ALSO LIKE: