جنرل کیانی کو ایک مشورہ

بھلے یہ چھوٹا منہ اور بڑی بات والا معاملہ ہی کیوں نہ ہو اور بھلے جنرل کیانی کبھی اس مشورے کو پڑھ یا سن نہ سکیں لیکن بہر حال میں یہ جسارت کروں گا ضرور اور وہ اس لئے کہ لوگ مشورے تو اپنی تحریروں میں اوبامہ کو بھی دیتے ہیں۔کیا وہ سارے مشورے اور نصیحتیں اوبامہ پڑھتا اور ان پر عمل کرتا ہے بالکل نہیں لیکن اس کے باوجود بھائی بند ہیں کہ لکھے جا رہے ہیں۔سو ہم بھی عرض حال کی جسارت کئے دیتے ہیں۔جنرل صاحب کے بارے میں ویسے بھی عوام الناس میں یہ تاثر موجود ہے کہ ان کی اردو بہر حال ان کے سپیچ رائٹرز سے زیادہ بہتر ہے اور وہ اپنی تقریر رومن اردو نہیں اردو ہی میں لکھواتے ہیں۔اس امید پہ کہ شاید کبھی یہ تحریر ان کی نگاہ التفات کا اعزاز حاصل کر سکے اپنی عرض گزار دیتے ہیں
شاید کہ رفتہ رفتہ لگے دلربا کے ہاتھ۔

پاکستانیوں کی اکثریت کی طرح ہم بھی اپنی فوج سے والہانہ پیار اور عقیدت رکھتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ راہ چلتا ہر فوجی ہمیں اپنی آنکھ کا تارہ لگتا ہے۔اس کی بنیادی وجہ ہماری یہ سوچ ہے کہ فوج ہمارے پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی محافظ ہے۔یہ الگ بات کہ فوجی سربراہ کے ساتھ یہ سر حدیں بھی بدلتی رہتی ہیں۔ایوب خان کے زمانے میں یہ سر حدیں کچھ اور تھیں۔یحییٰ کے زمانے میں کچھ اور ہو گئیں۔ضیاءالحق تشریف لائے تو سر حدیں کچھ کی کچھ ہو گئیں۔مشرف کی سر حدیں بالکل سکڑ کے رہ گئیں اور امریکی بالکل ہی ہمارے سر پہ چڑھ کے ناچنے لگے۔آپ آئے تو لوگوں نے آپ سے بہت سی امیدیں باندھ لیں۔ شاید یہ امیدیں کچھ غلط بھی نہیں تھیں۔آپ کے اقدامات نے اس ناامیدی میں غوطہ زن قوم کو کہیں کہیں سر اٹھانے کا ایک آدھ موقع ضرور دیا۔ہمیں لگنے لگا کہ کوئی ہے جو پاکستان کے بارے میں اس طرح سوچتا اور فکر مند رہتا ہے جس طرح اس ملک کے عوام سوچتے اور فکر مند رہتے ہیں۔

عملی طور پہ اس ملک میں سیاستدان اپنے سوٹ کا رنگ بھی فوج سے پوچھ کے منتخب کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں لیکن عوام کے سامنے وہ فوج کو ملکی معاملات سے علیحدہ رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ آپ نے اس ماحول میں اپنے اور اپنے ادارے کی عزت کو بحال کرایا جو بلا شبہ ایک مشکل کام تھا۔ان لوگوں کے لئے جو کہ فوج سے پیار کرتے ہیں وہ بڑی آزمائش کا وقت تھا جب فوجیوں کے لئے بازار میں سودا خریدنا بھی جان پہ کھیلنے کے مترادف تھا۔سوات آپریشن کے بعد عوام الناس کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ ہم دوسروں کی مخالفت کے باوجود اپنی دھرتی کا دفاع کرنے کی صلا حیت رکھتے ہیں۔نیٹو کی سپلائی بند کرنے کا فیصلہ بھی لوگوں کو پتہ ہے کہ کس نے لیا تھا۔سی آئی اے چیف پاکستان سے کیوں بھاگا اس کے بارے میں بھی لوگوں کے اندازے غلط نہیں۔ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ مشکل تھا۔مرکزی اور صوبائی حکومتوں سے تو خیر کسی بھلائی کی توقع ہی نہیں تھی لیکن اس معاملے میں شاید لوگوں کی توقعات زمینی حقائق سے کچھ زیادہ ہی تھیں اس لئے شاید یہ معاملہ عوامی امنگوں کے مطابق آگے نہ بڑھایا جا سکا۔اس کے فوراََ بعد ہونے والا ڈرون حملہ بھی عوامی زخموں پہ نمک چھڑکنے ہی کے مترادف تھا۔

اب آتے ہیں اس مشورے کی جانب جس کے لئے میں نے اتنی لمبی تمہید باندھی ہے۔اس میں ہم عوام کو تو کوئی شک ہی نہیں کہ پاکستان میں بری افواج کا چیف ہی ملک کا سربراہ ہوتا ہے۔اس کی ہاں اور ناں ہی میں حکومتوں کی قسمتوں کے فیصلے ہوتے ہیں۔بلاشبہ عوام ایک بڑی قوت ہیں لیکن وہ لوگ جو عوامی نمائندے ہونے کے دعوے دار ہیں۔وہ آپ اور آپ کے ادارے کے سامنے ایک کھلی کتاب کی مانند ہوتے ہیں اور اس کتاب میں جو کچھ موجود ہوتا ہے وہ ان لوگوں کو نظریں اٹھانے کی ہمت ہی نہیں کرنے دیتا۔ اس لئے آپ کو حکم دینا اور آپ سے اختلاف کرنا ان لوگوں کے لئے ممکن ہی نہیں ہوتا۔یہ مسکہ نہیں اور ذاتی طور پہ میں اس وقت کے لئے دعا گو بھی ہوں جب کوئی عوامی نمائندہ کسی بھی آرمی چیف کو کوئی بھی حکم دے سکے کہ ہماری اسلامی تاریخ بھی ہمیں یہی بتاتی ہے۔ لیکن اس کے لئے اس قوم کو پہلے قوم بننا ہوگا اور پھر ذات برادریوں سے ہٹ کے ایسے لوگوں کو منتخب کرنا ہوگا جو اپنی ذات سے بھی پہلے پاکستان کے لئے سوچتے ہوں۔اس وقت مجھے یقین ہے کہ آپ اور آپ کا ادارہ بھی ایسے شخص کے احکامات ماننے میں فخر محسوس کرے گا۔

آجکل ہواؤں اور فضاؤں میں، اخباروں اور رسالوں میں،نجی اور سرکاری محفلوں میں اس حکومت کو چلتا کر کے ٹیکنو کریٹس کی حکومت لانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔اس وقت عوام کی اکثریت بھی یہی چاہتی ہے۔ سیاسی پارٹیاں بھی سوائے نون لیگ کے یہی خواہش دل میں میں دبائے پھرتی ہیں اور نون لیگ بھی جمہوریت کی محبت میں نہیں اپنی باری کے چکر میں اس کی مخالف ہے۔ سب کی نظریں آپ پہ ہیں کہ آپ آگے آئیں اور کوئلوں کی اس دلالی میں کالک کو اپنا مقدر کریں اور اقتدار ان اقتدار کے بھوکوں کے سپرد کر دیں۔مجھے یقین ہے کہ اس بار آپ کا ادارہ ایسا کچھ نہیں سوچ رہا ہو گا۔اس لئے کہ اس طرح کا کوئی بھی قدم پیپلز پارٹی کے گزشتہ تین سال کے جرائم کو دھو ڈالے گا اور پیپلز پارٹی دوبارہ مظلوموں یتیموں اور شہیدوں کی صف میں جا کھڑی ہو گی۔جمہوریت جس پہ اس وقت ملک کی اکثریت کا اتفاق ہے دوبارہ طاق نسیاں کی نذر ہو جائے گی۔فوج جس نے بڑی مشکل سے آپ کی قیادت میں اپنے لئے عوام کی نظروں میں جگہ بنائی ہے ایک غاصب کے روپ میں سامنے آئے گی اور لوگوں کے طعن و تشنیع کا نشانہ بنے گی۔ انگریزی محاورے کے مطابق جھاڑیوں میں بیٹھے دو پرندوں کے لئے ہاتھ میں پکڑے پرندے کو اڑا دینا کسی طور سے عقلمندی نہ ہو گی۔

پیپلز پارٹی کو اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے دیجئے۔لوگ شاید خود ہی ان کا ا حتساب کر لیں گے۔اگر پیپلز پارٹی کو نکالنا ہی مقصود ہے تو اس کے لئے فوج کی مداخلت ملک کے لئے سم قاتل ثابت ہوگی ۔اسلام آباد میں ایسے بے حساب نابغے بے روزگار پھر رہے ہیں جن کے بغچوں میں حکومتوں کو رکھنے اور نکالنے کے صد ہا سال پرانے صدری نسخے موجود ہیں۔اقتدار کے بھوکوں کے لئے آخر ہر بار فوج ہی کا کندھا کیوں؟
Qalandar Awan
About the Author: Qalandar Awan Read More Articles by Qalandar Awan: 63 Articles with 54086 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.